ان دی لائن آف فائر
آج تک مجھے حسرت ہی رہی کہ سوا تین سو صفحات کی انگریزی کتاب اڑتالیس گھنٹے میں ختم کرسکوں۔
یہ کام اتنا ناممکن بھی نہیں لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ تین سو سے زائد صفحات کی سیاسی کتاب اڑتالیس گھنٹے میں ختم کرنے کے لئے پڑھنے اور سمجھنے کی غیر معمولی رفتار اور فرصت چاہئے۔ آپ کو مصنف اور اسکی تحریر کے بارے میں اتنا پرشوق ہونا پڑے گا کہ اڑتالیس گھنٹے کے لئے آپ بیشتر خانگی اور غیر خانگی مصروفیات کی قربانی دینے پر آمادہ ہوں تاکہ اسکے بدلے کتاب پڑھنے کی یکسوئی میسر آ سکے۔
اب تک میرا تاثر یہ تھا کہ کتاب پڑھنے کی سب سے کم فرصت، پیشہ ور نقاد، صحافی اور سیاستداں کو میسر آتی ہے۔ لیکن یہ جان کر حیرتناک مسرت ہوئی کہ صدر مشرف سیاستدانوں کے سب سے پسندیدہ مصنف ہیں۔ انکی خودنوشت ان دی لائن آف فائر کو ایم ایم اے کے قاضی حسین احمد، حافظ حسین احمد اور پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر اور جہانگیر بدر نے نہ صرف شائع ہونے کے اڑتالیس گھنٹے میں پورا پڑھ لیا بلکہ ان چاروں نے صحافیوں کے سامنے کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کردیا۔
بعض حاسدوں کا خیال ہے کہ ان چاروں نے صدر مشرف کی کتاب بالکل نہیں پڑھی بلکہ کتاب کے اخباری اقتباسات اور مصنف کی ذات کو پڑھ کے تنقید کی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے کتاب کے متن سے زیادہ اس بات کو چیلنج کیا ہے کہ بطور چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف حساس سرکاری معاملات کو حاضر سروس ہوتے ہوئے کس طرح زیرِ بحث لا سکتے ہیں۔
لیکن میرا اپنا خیال یہ ہے کہ صدر کی خود نوشت پر تبصرہ کرنے والے سیاستدانوں کے لئے یہ بحث نان ایشو ہے کہ وہ کتاب لکھنے کے مجاز ہیں یا نہیں۔ کیونکہ جب صدر ایوب خان فیلڈ مارشل ایوب خان کو ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ لکھنے کی اجازت دے سکتے ہیں تو صدر پرویز مشرف جنرل پرویز مشرف کو حاضر سروس ہوتے ہوئے سرکاری اور کانفیڈنشل امور زیرِ بحث نہ لانے کے قانون سے کیوں مستشنی قرار نہیں دے سکتے۔
ویسے بھی اگر تناسب دیکھا جائے تو پاکستان میں سیاستدانوں سے زیادہ جنرلوں کی خودنوشت شائع ہوتی ہے۔ سیاستداں زیادہ تر قیمتی وقت یا تو بولنے پر یا کبھی کبھار آئین کی کتاب لکھنے پر ضائع کردیتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
سب سے پہلے تو آپ کے لئے دعا کروں گا کہ آپ کتاب اڑتاليس گھنٹوں ميں پڑھ سکيں۔ يہ مسئلہ تو سب ہی کے ساتھ ہے کيونکہ ؛
تھی زندگی عذابِ مسلسل سبھی کے ساتھ
ان چاروں اشخاص نے شايد پڑھ ليا ہو اڑتاليس گھنٹوں ميں کيونکہ ہو سکتا ہے کتاب ميں بلا کی روانی ہو اور حالات و واقعات ايسے ہوں جو بہت ديکھے بھالے ہوں تو پھر کہاں کی رکاوٹ، اور ايک ہی جست ميں سب ہی چيزيں نظر کے سامنے گھوم گئی ہوں اور کتاب اختام پذير ہوگئی ہو۔ ويسے جب آپ کتاب پڑھ ليں تو اس پر تبصرہ ضرور لکھيئے گا۔ انتظار رہے گا کيونکہ
ہرطرف سچ کی دہائی ہے نصير
شعر لکھتے رہو سچا کر کے
ميں نہيں مانتا کہ يہ کتاب مشرف نے خود لکھی ہے۔
ميرے خيال ميں صدر پرويز مشرف نے وہی کام کيا ہے جو صدر اور آرمی چيف ايوب خان نے کيا تھا۔ ہماری اپوزيشن کو تو کوئ ايشو چاہے ہوتا ہے اپنی سياست چمکانے کيلۓ۔ عوام مہنگائ کے ہاتھو مر رہے ہيں مگر کس سياستدان نے عوام کے مساۂل پر اس طرح کا مسلسل احتجاج کيا؟ مشرف نے جو کہا سو کہ ديا اپنی کتاب ميں۔ مشرف کے اقتدار ميں آيا تو انہی لوگوں نے پرتپاک اسقبال کيا تھا جو آج اسکی کتاب پر واويلا کر رہے ہيں۔ رہی بات صدر اور آرمی چيف کی کتاب کی تو اس سے کيا فرق پڑجائے گا۔ بس لوگوں کے لئے کچھ عرصہ کيلئے محفليں لگانے کا موقع مل گيا۔ اب چند ماہ يا کچھ ہفتے يار لوگ خوب محفليں سجائيں گےجس کا موضوع ’ان دی لائن آف فائر‘ ہوگا اور حاصل صفر جمع صفر برابر صفر ہی ہوگا۔ ہاں مشرف کی کتاب کی پبلسٹی خوب ہوگي۔
گُزارش ہے کہ موجودہ سياستدان آئين کي کتاب لکھنا تو درکنار بات تک کسي ڈھنگ سے کہنےسےقاصر ہيں۔ آزادي اظہار کے اس دور ميں جس کي مثال پاکستان کي تاريخ ميں نہيں ملتي۔ ذوالفقار علی بھٹو جيسا کوئي ليڈر عوامي سطح پر پائي جانے والي اس مايوسي اور بے چيني سے ايک انقلاب برپا کرچکا ہوتا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ يہ سب مل کر بھي اس اکيلے کا عشرعشير تک ... ثابت نہيں ہو سکے۔ رہ گئے جنرل صاحب تو وہ واقعي قسمت کے دھني ہيںِ۔ اگر ايک طرف قدرت نے انہيں بارہا دوسري زندگي دي ہے تو دوسري طرف تحفظ اقتدار بھي عطا فرما رکھا ہے۔
ویسے صدر صاحب کی ذہانت کو داد دینی پڑتی ہے۔ اگر ضیاالحق بھی مرنے سے پہلے کوئی ریکارڈ چھوڑ جاتے تو افغان جنگ کے کچھ تاریک پہلو بھی کھل کر آجاتے۔ جیسے مجاہدین پر کتنے کروڑ ڈالر کھائے گئے وغیرہ وغیرہ۔ انھیں تو فرینڈز نے موقع ہی نہ دیا۔ صدر صاحب ذرا وکھرے ٹائپ کے ہیں۔ انہیں چپ سے نفرت ہے۔ اسلیے ہوا کا رخ دیکھ کر پہلے ہی سب کچھ بتا دیا۔
آپ 48 گھنٹے ميں کتاب نہ پڑھ سکنے کی بات کر رہے ہيں، لوگ تو اڑتاليس گھنٹوں ميں کتاب لکھ کر مصنف بن بيٹھتے ہيں۔ آپ اپنے تمام بلاگز اکھٹا کيجیے اور ميرے حوالے کر ديجیے، اڑتاليس گھنٹے ميں آپ کو مصنف نہ بنوا ديا تو جو چور کی سزا وہ ميری! ويسے جنرل صاحب کی کتاب اڑتاليس گھنٹوں ميں ختم کرنے کے لیے آپ کو کسی خانگی يا غير خانگي مصروفيات کی قربانی دينے کی حاجت نہيں پڑنا چاہیے، صرف کتاب پڑھتے ہوئے بيچ بيچ ميں کچھ صفحات کو قربان کرتے جائیےٌ، کتاب چوبيس گھنٹوں ميں ختم ہو جائےگی۔ بابر خان ، العين
ميرے خيال ميں صدر نے کتاب لکھ کر کوئی برا کام نہيں کيا۔ اسلیے کہ ملک بھی اس کا ہے اور قوم بھی اس کی تو کونسا قومی رار فاش ہوا۔
وسعت اللہ خان اب مشرف کا پيچھا چھوڑ کر کسی کام کے موضوع پر کام کرو ديکھو لوگوں نے تبصرے کرنے بھی چھوڑ ديئے ہيں۔
میں یہ کتاب خرید نہیں سکتا۔ مگر جنہوں نے خریدی ہے۔ انہیں بھی کوئی نئی بات کرتے نہیں سنا۔ دھکمی والی بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے۔ پیسے والی بات تو اگر نہ بھی بتاتے تو کیا ہمیں معلوم نہ تھا۔ بس لے دے کر عاشقی والا معاملہ، تو سرکار اب کونسے باز آئے ہیں۔ چوہدریوں کی یاری میں وہ غبار بھی نکال لیتے ہونگے۔