| بلاگز | اگلا بلاگ >>

سب سے بڑا دشمن

عنبر خیری | 2006-10-01 ،21:47

عجیب سے زمامنے میں رہتے ہیں ہم۔ پچھلی کئی صدیوں میں ایک منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیئے انسانوں نے اتنا غور و فکر کیا، اتنی جد وجہد کی لیکن اب تو اس منصفانہ معاشرے کے خواب کو ہم بھول ہی گئے ہیں۔

جب سے سوویت یونین اور یورپ کے کمیونسٹ نظام کو ختم کیا گیا ہے ہم بھی کومیونزم اور کی بنیادی اصولوں کو بھول چکے ہیں۔

مثلاً یہ کہ معاشرے کے ہر فرد کے لیئے تعلیم اور طبی علاج مہیہ ہو۔ یا یہ کہ امیر اور غریب میں زیادہ فرق نہ ہو سکے ۔ اور یہ کہ معاشرے میں کوئی بھوکا نہ مرے یا غربت میں نہ پِسے۔

پہلے امریکہ اور مغربی ممالک نے ہمیں یہ پٹی پڑاھائی کہ سویت یونین اور کمیونزم سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اب ہمیں پٹی پڑھا رہے ہیں کہ القاعدہ اور دہشت گردی سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یعنی پہلے جنگ تھی کیپٹلزم اور کمیونزم کی اور اب ہے مغرب اور اسلام کی۔ لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے۔ سب سے بڑا دشمن تو اب بھی ایک ہے، اور وہ ہے غربت۔
hungry_poverty.jpg
اگر آپ یہ بلاگ اپنے گھر یا دفتر میں آرام سے بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں تو غالباً کی لعنت آپ کو نہیں ستا رہی ہوگی۔ لیکن ہمارے ارد گرد ہزاروں لوگ ہیں جنہیں ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے۔

یہ لوگ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟ شائد اس لیئے کہ ہم انہیں دیکھنا نہیں چاہتے۔ شائد اس لئیے کہ کیپٹلسٹ دنیا نے ہم میں کھانے اور پانے کی اتنی ہوس پیدا کی ہوئی ہے اور ہم اس عمل میں اتنے مصروف ہیں کہ ہم کسی بد قسمت کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتے۔

اس ہوس نے ہمیں اسیا مصورف رکھا ہوا ہے کہ جو ہمارے پاس اچھے ادارے یا نظام ہیں ہم ان کی بھی قدر نہیں کرتے۔

برطانیہ کی مثال لے لیں۔ یہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد حکومت نے کے نام سے عوام کے لیئے ایک بڑا طبی نظام بنایا۔ ہر محلے میں ڈاکٹر موجود ہیں، علاج مفت ہے، ہسپتال مفت، بچوں کے لیئے دوائی مفت ہے۔ یہ عمدہ سہولت امیر غریب سب کے لیئے ہے۔

میں سمجھتی ہوں کے ایسا نظام قائم رکھنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے لیکن آج کل لوگوں میں اس بات کا احساس کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس نظام کے لیئے لوگ شکر مند نہیں ہوتے بلکہ اس کی شکایت ہی کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ رونا ہوگا کہ ’سپشلسٹ سے وقت 3 ماہ کے بعد ملا‘ حالانکہ تین ماہ کے انتظار کے بعد آپ ایک اعلی سپیشلسٹ کے پاس جا سکیں گے، اور وہ بھی مفت میں۔

اگر آپ کو ایک منصفانہ نظام میں رہنا ہے تو قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا، باری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ امریکہ کے حامی افراد کمیونسٹ نظام کی بُرائی کرتے وقت ’لمبی قطوروں‘ اور اس سلسلے میں لوگوں کی تکالیف کا بہت ذکر کرتے ہیں لیکن کم از کم اس کا مقصد تو نیک تھا یعنی یہ کہ ’ہرشہری کو حصہ ملے۔‘

یورپ میں کمیونسٹ نظام نا کام رہا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس فلسفے کے تمام اصول بھول جائیں۔ کیپٹلزم اور نجی سرمایا کاری کا نظام لالچ اور ہوس پر مبنی ہے۔ کیا یہ اصول ہمارے لیئے کافی ہے؟ کیا محض زکوٰۃ دینے سے ہم ایک منصفانہ معاشرہ بنانے کی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں؟ غربت اور استحصال کے خلاف ہم کس طرح جنگ جیت سکتے ہیں؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 1:31 2006-10-02 ,مہرافشاں ترمزی :

    ايک چھوٹا ساواقعہ آپکی خدمت ميں پيش ہے اگر بي بی سی والوں کو چھاپنے ميں کوئی اعتراض نہ ہو تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خليفہ بننے کے بعد يہ حکم جاری کيا کے ہر بچے کا دودھ چھڑانے کے بعد اس کے بالغ ہونے تک حکومت سے وظيفہ ملے گا ايک رات آپ حسب معمول عوام کا حال معلوم کرنے کے ليۓگشت پر تھے آپنے ايک خيمے سے بچے کے بری طرح رونے کی آوازسنی جب بہت دير تک بچہ چپ نہ ہواتو آواز دے کر پوچھا کيا بات ہے بچہ کيوں رو رہا ہے بچے کا باپ باہر نکلا اور اس نے بتايا کے خليفہ کے حکم کے مطابق بچے کا وظيفہ اس کے دودھ چھڑانے کے بعد شروع ہوگا بچہ ابھی چھوٹا ہے اس کی ماں زبردستی دودھ چھڑا رہی ہے اس ليۓ رو رہا ہے يہ سن کر حضرت عمر بری طرح رو پڑے اور فرمايا اے عمر تم نے کيا ظلم کيا اپنے رب کو کيا منہ دکھاؤگے صبح سب سے پہلے آپنے يہ حکم جاری کيا کے آج سے ہر بچے کا وظيفہ اس کے پيدائش کے دن سے ملے گا

  • 2. 3:03 2006-10-02 ,اے رضا، ابوظبی :

    آپ کی نيشنل ہيلتھ سروس واقعی ايک قابل تقليد عوامی خدمت ہے جو سرطان سميت مہنگےسےمہنگا علاج بالکل مُفت مُہيا کرتی ہے اور يہ سب وصول شُدہ ٹيکس کے صحيح استعمال ہی سے مُمکن ہے-

    زکواۃ بذات خود ايک ايسا نظام ہے کہ ديانتداری سے چلايا جاۓ توکوئی بھُوکا نہيں سوسکتا-

    غُربت کيسےکم ہو، اس کے لۓ بدعنواني کي روک تھام کے ساتھ مغرب کےخيراتی اور رفاہی اداروں کے کلچرسے بھی بُہت کُچھ سيکھا جا سکتا ہے-

    بدعنوانی کی روک تھام کيلۓ رزق حلال کي اہميت کا احساس ضروري ہے- مذہب کے بڑھتے ہُوۓ رُحجان کو مدنظر رکھ کر، عُلماء کرام گلي گلي موجُود مساجد کے بنے بناۓ نيٹ ورک سے اس ضمن ميں موثرترين قومي خدمت انجام دے سکتے ہيں جو غالبا” کسی بھی دُوسرے طريقے سے مُمکن نہيں ہے-

    مغرب خيرات اور رفاہی کلچر ميں سبقت لے جا چکا ہے- بل گيٹس سميت کاروبار، شو بزنس اورسپورٹس سے تعلق رکھنے والي مشہُور ہستياں سالانہ کروڑوں ڈالر کی نجی خيرات کےعلاوہ خيراتي اور رفاہی اداروں کی سرپرستی کرکے مُعاشرے کو کُچھ لوٹانےميں يقين رکھتی ہيں- درست ہےکہ اس سےاُنہيں ٹيکس ميں چھُوٹ ملتی ہے ليکن بُہت سوں کا بھلا ہو جاتا ہے- ہمارے ہاں گزشتہ برس کے زلزلے ميں ان غيرمُلکي اداروں کا کردار اسی قسم کي ايک مثال ہے-

    ہمارے ہاں زکواۃ سے زيادہ آسان اور سيدھا سادہ حل غالبا” اور کوئی نہ ہوگا ... مگرايک شفاف طريق کار شرط ہے-

  • 3. 3:08 2006-10-02 ,sana khan :

    غربت کو سب نے نظرانداز کيا ہوا ہے کيونکہ دنيا کا تو مشن غربت نہيں غريبوں کو دنيا کے نقشے سے ہی ہٹانا ہے۔ آپ ميں ہم سب ہی اپنی زندگيوں کو بہتر سے بہتر بنانے ميں لگے ہوۓ ہيں کون سوچتا ہے غريبوں کے بارے ميں کوئ بھی نہيں، کھانے اور پانے والی بات بہترين کہی آپ نے، کيا غربت کی وجہ بھی امريکہ ہے؟ ہم لوگ خود کچھ نہيں کرسکتے ؟

  • 4. 3:22 2006-10-02 ,عذرا شہناز :

    بہت عرصے بعد ايک اچھا کالم يا بلاگ پڑھنے کو ملا ہے۔

  • 5. 6:26 2006-10-02 ,Nauman Ahmed :

    ہم لوگوں کو ایک بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت پوری دنیا کا کاروبارِحیات سرمایہ داروں کے پوری طرح چنگل میں ہے۔یہ وہ سرمایہ دار ہیں جو کبھی کمیونزم کے خلاف جنگ کے نام پہ لوگوں کو بے وقوف بناتے رہے اور آج کل دہشت گردی کے نام پر کئی ملکوں پر محض تیل اور دوسرے قدرتی وسائل کے لیے جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں۔
    جن حضرات نے حضرت عمر کا واقعہ لکھا ہے وہ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان علما کا طرزعمل بھی دیکھ لیں جو حضرت عمر کا نام لیتے تھکتے نہیں ہیں۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ سرمایہ داروں کا سب سے زیادہ ساتھ انہیں نام نہاد علما نے ہی تو دیا ہے
    اگر کبھی عبیداللہ سندھی نے سوشلزم کی بات کی تو اس پر فتووں کی بچاڑ کر دی گئی
    سرمایہ داروں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا بہت تیزی سے سوشلزم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اس دفعہ سوشلزم کا احیاء ایسا ہو گا کہ اربوں ڈالر جوئے کی نظر کر دینے والوں کو کہیں جگہ نہیں ملے گی۔

  • 6. 6:27 2006-10-02 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ
    اسلام عليکم! سب سے پہلے تو آپ سے گلہ ہے کہ لگتا ہے کہ آپ کو روزوں نے خوب تنگ کر رکھا ہے - آپ کا بلاگ اس قدر دير سے کيو نکر آتا ہے - ہميں آپ کے بلاگ کا شدت سے انتظار رہتا ہے - آپ کے بلاگ کا انتظار اس وجہ سے بھی رہتا ہے کہ کم از کم مجھ جيسے ادنی لکھاريوں کو بھی کچھ مفيد معلومات حا صل ہو جا تی ہيں- اور کم از کم آپ معاشرے کی اصلاح ميں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہيں - آپ نے با لکل سچ لکھا ہےاس وقت اگر ہمارے معاشرے کا سب سے اہم ترين مسئلہ ہے تو وہ غربت ہے - غربت ہی کی وجہ سے انسان ايسے ايسے جرئم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کا سوچا بھی نہيں جا سکتا ، اور غربت کی ہی وجہ سے جرائم پيشہ لوگ سادہ لوح انسانوں کو ’ملک دشمن سرگرميوں‘ميں پھنسا ليتے ہيں - اور پھر ان بليک ميل کرتے ہيں - انکے پاس پھر کوئی اور راستہ نہيں ہوتا ، آج اگر سب سے زيادہ اہميت کا حامل مسئلہ ہے تو وہ صرف غربت ہے - غربت ہی کی وجہ سے انسان اپنا ضمير فروخت کر ديتا ہے بلکہ انسان کا ضمير مردہ ہو جاتا ہے - مگر ہمارے ارباب اختيار کو ہم غريبوں سے کيا لينا - وہ تو ہميں جا نوروں کی ماند سمجھتے ہيں - ابھی اکتوبر 2007 ميں اليکشن ہونگے ، ہميں ايک مرتبہ پھر حسين سپنے دکھا ئے جائيں گے، اور 5 سال بعد ہماری آنکھ کھلے گی تو اس وقت تک بہت دير ہو چکی ہو گی - اللہ تعالی پا کستان کا حامی و ناصر ہو۔

  • 7. 12:25 2006-10-02 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ ، آداب ۔۔
    مجھے انتہائ اطمينان اور مسرت ہوئ کہ آپ معاشرے کي اس دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی ايک بھرپور کوشش کی ۔۔
    آپ نے درست فرمايا ، غربت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ مگر ہم اس سے غافل ہيں اور آنکھيں بند کۓ ہوسِ زر ميں مبتلا ہيں اس کے لۓ ہم ہر طريقے کو جائز سمجھتے ہيں ۔۔ ’رزقِ حلال کا حاصل کرنا عين عبادت ہے‘ ٰ نوٹوں پر لکھوادينے سے نہ رشوت لينا اور نہ ہی رشوت دينا بند ہوسکتا ہے۔ اس کے لۓ ايک تربيتی نظام کی ضرورت ہے اور يہ نظام دينِ اسلام نے بہترين انداز ميں پيش کيا مگر ہم اس پر عمل پيرا نہيں ہونا چاہتے ۔۔ زکوٰاۃ وخمس ايسے نظام ہيں کہ اگر ان پر درست طريقے سے عمل کيا جاۓ تو غربت ہمارے معاشرے ميں نظر نہيں آئ گی ۔
    جب تک ہمارے حکمراں عوام کی حقيقی خدمت کا جذبہ پيدا نہيں کريں گے اور حضرت علی کی طرح دودھ اور نمک کو دو سالن نہيں سمجھيں گے وہ کبھی بھی غربت کے لۓ کچھ نہيں کرسکتے ۔۔
    آپ نے درست کہا کہ نيشنل ہيلتھ سروسز کس طرح سے کام کررہی ہے ، ميں بحيثيتِ ڈاکٹر اس سے وابستہ بھي ہوں ، يہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ بھی کچھ سياسی اور فنڈز کے حوالے سے مسائل تو ہيں مگر پھر بھی کافی حد تک يہ طبی ضروريات پوری کررہا ہے ۔۔
    ايسي ہی مثال آپ ديکھيں پروفيسر اديب رضوی نے ايک آٹھ بستر کے وارڈ کو ايک بہترين ادارے ميں تبديل کرديا اور آج وہاں پيراسيٹامول سے ليکر گردے کی پيوندکاری بالکل مفت ہوتی ہے ۔۔ اس ناچيز کو بھی وہاں کچھ عرصہ کام کرنے کا اعزاز ملا ، ميں اسے اعزاز ہی سمجھتا ہوں تو ممکن تو ہے کہ ايسا ہوسکتا ہے بس لگن اور ہمت ہو۔ کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو وہاں لوگ بھی مدد پر آمادہ ہوجاتے ہيں ۔
    ہم صرف مخصوص مہينوں کے منتظر رہتے ہيں، غرباء کی امداد کے لۓ ، جب کہ يہ تو ہر وقت کی جاسکتی ہے ۔۔ آخر يہ ٹيليوژن کی ہاٹ لائينز مشرومز کی طرح اگتی امداد کرنے والی تنظيموں کے لۓ ماہِ رمضان ہی کيوں منظرِعام پر آتی ہيں، آخر ہم اداکاروں اور اداکاراؤں کو اسٹيج پر سجا کر کيوں امداد طلب کرتے ہيں !؟
    تعليم کے حوالے سے ميں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جب تک مزارعوں اور زمينداروں کے بچے ايک ہی اسکول ميں نہيں پڑھيں گے، ہم تعليمی ميدان ميں آگے نہيں بڑھ سکتے۔ دوہرا نظامِ تعليم سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔۔
    ميں آپ کو ايک بار پھر مبارک باد ديتا ہوں کہ آپ نے اس موضوع پر لکھا اور اميد کرتا ہوں کہ اس کوشش کو جاری رکھيں گی ۔۔

  • 8. 14:44 2006-10-02 ,جاويد گوندل :

    بے شک آپ نے بہت اچھي باتيں کي ہيں اور غريبوں کا درد محسوس کيا ہے مگر امريکہ اور برطانيہ کی وجہ سے دنيا ميں عالمی انصاف قائم ہونا بہت مشکل ہے آپ نے جس نیشنل ہیلتھ سروس کا ذکر کيا ہے يورپين يونين کے تمام ممالک ميں اس سے ملتا جلتا نظام کام کررہاہے اور جسکی وجہ سے يوروپ کو امريکہ پہ فضيلت ہے - عراق ميں صدام کی شخصی آمريت سے قطع نظر خليج کی پہليُ صحرائی طوفان، نامی جنگ سے قبل پورے مشرقِ وسطی کی سب سے بہتر ہیلتھ سروس عراق ميں تھی جو برطانيہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کي ہم پلہ اور ديگر کئي يوروپي ممالک سے بہتر تھي جس سے بجا طور پہ عراقی عوام فائدہ اُٹھاتے تھے اسکا جو انجام ہوا اور اس ميں امريکا و برطانيہ کا کتنا حصہ ہے اسکا تعين آپ خود کر ليں۔ کمال نا انصافی ہے کہ صدام کی کسی خطا اگر کوئی تھی اس کی سزا پوری عراقی عوام کو مسلسل دی جارہی ہے۔ بہادر شاہ ظفر بر صغير ہندو پاک کا آخری تاجدار بادشاہ تھا جو اُس زمانے کے مسلّم رواج کے مطابق ہندوستان کا جائز حکمران تھا اور اپنی جائز حکمرانی کے لئيے جائز طور پہ لڑی گئی جنگ کے نتيجے ميں گوروں نے جو سلوک اسی سالہ بوڑھے بادشاہ کے ساتہ کيا وہ برطانيہ کی نا انصافي کا بدترين باب ہے - مندرجہ بالا دو مثالوں کا مقصد صرف اتنا ہے کہ دوسری قوموں اور معاشروں کی لوٹ کھسوٹ اور بندر بانٹ پہ اپنی ترقی کی بنياد رکھنے والی قوميں دنيا کے غريبوں کا درد بھلا کيونکر محسوس کريں گي؟-
    جس طرع نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے نام پہ مسلمان ممالک پہ تشدد اور عدم استحکام اور مغربی استعمار کے مفادات کے لئيے کام کرنے والی حکومتيں ٹھونسی جارہی ہيں ہم اسکا خميازہ کئی عشروں تک کئی صورتوں ميں بھگتيں گے جن ميں سے ايک صورت مسلمانوں کی عربت ہوگی جو صرف زکواتہ سے نہيں ٹالی جاسکتی جبکہ مغرب کی نمائندہ حکومتيں زکواتہ اور عشر کی جو بندر بانٹ اور حشر کرتی ہيں يہ ايک الگ تکليف دہ موضوع ہے - پھر غريبی کيسے ختم ہو ؟

  • 9. 17:39 2006-10-02 ,shahidaakram :

    عنبر جی آپ کے اس بلاگ کو پڑھ کر صرف آنکھيں ہی نہيں بھيگيں دل بھی خون ہوا۔ ايک روح پرور واقعے کو پھر سے پڑھ کر دل اود دماغ سب جھنجھنا کر رہ گۓ ، کہ ہم لوگ کس اُمت سے تعلق رکھتے ہيں اور اب کس طرف جا رہے ہيں ،ٹھيک ہے اب کوئ حضرت عمر اور کوئ حضرت عمر بن عبدالعزيز جيسا امير المؤمنين ہم ميں نہيں ہے اور نا ہی آنے کی کوئ اُميد ہے تو پھر ہم يہ سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کيوں نہيں کرتے۔انہوں نے جو سسٹم اختيار کيا ہے وہ سب کے لۓ يکساں ہے اور ہم جو محمود و اياز کے ايک ہی صف ميں کھڑے ہو نے کے دعوے دار ہيں نسلوں اور عصبيْتوں ميں کچھ اس طرح بٹ گۓ ہيں کہ کوئ پو چھے کہ يہ کيا ہے تو بتاۓ نا بنے سب آرا دينے والوں نے بہت اچھا لکھا اور آرا دی ہيں مجھے رضا صاحب کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ مغرب کے خيراتی اور رفاہی اداروں سے بہت کچھ سيکھا جا سکتا ہے، تو بھائ سيکھا تو اور بہت سی باتوں سے بھی بہت کچھ ہے ليکن کيسے کوئ بتاۓ گا کہ ہم جو اس وقت بہت دکھی اور دلگير ہو کر يہ سب لکھ رہے ہيں ابھی فارغ ہو کر اپنے اپنے کاموں ميں لگ جائيں گے بات آئ گئ ہو جاۓ گی ہميشہ کی طرح ہمارے دماغ کے شايد کسی کونے ميں بھی نہيں رہے گی ہم لوگ بس ايسے ہی ہيں وقتی طور پر خون ميں اُبال آتا ہے اور پھر تو کون ميں کون ؟ھيں کچھ لوگ پاکستان کو سر پر اُٹھا کر چلانے کو جو دونوں ہاتھوں کی اُنگليوں پر گنے جا سکتے ہيں اندر کی تبديلی کی ضرورت ہے اُس کی سرجری کيونکر ہو گی ؟تطہير قلب کی ضرورت ہے ليکن ادھر حالت ابھی بھی صُمُ بُکمُ عُميُ والی ہے ،گونگے اندھے بہرے اور کالے دلوں کے ساتھ ہم کيا کريں گے اور کب تک؟

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔