نقاب اور ’اسلامی‘ لباس
پچھلے ہفتے جب برطانیہ میںچھڑ گئی تو اس کی میڈیا میں بھی کافی کوریج ہوئی اور بہت سے لوگوں نے اس پر دی۔
کئی نقاب پوش خواتین نے ٹی وی پر آکر اپنا یہ موقف پیش کیا کہ جب سے انہوں نے نقاب پہننا شروع کیا ہے ان کو ۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نقاب اس لیئے پہنتی ہیں کہ ان کا مذہب یعنی اسلام انہیں یہ سکھاتا ہے۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے ہمارے مذہب میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ خواتین کو اپنا منہ ڈھکنا چاہیے۔ اور اس سے حاصل کیا ہوتا ہے؟ ایسے کرنے سے تو یہ خواتین قبائلی معاشروں کی ان قدامت پسند اور ظالمانہ روایات کو تقویت دے رہی ہیں جو اب بھی یمن، عرب ممالک اور دنیا کے کئی پسماندہ علاقوں میں عام ہیں۔
یہ میانہ روی کا اظہار تو نہیں ہے۔ ویسے مجھے برطانیہ میں ایسے لوگوں سے کافی چِڑ ہوتی ہے جو ایک دم سے ’سچے‘ مسلمان بن جاتے ہے اور پھر لوگوں کو یہ ’سچائی‘ دکھانے کے لیئے عرب یا قبائلی نما لباس پہننا شروع کر دیتے ہیں۔
کیا عرب لباس پہننے سے آپ کا ایمان پختہ ہو جاتا ہے؟
پھر جب یہی لوگ آکر مطالبہ کرتے ہیں کہ برطانیہ کو ’ان کے مذہب کے مطابق‘ ایک قدامت پسند معاشرہ بنایا جائے تو مجھے اور غصہ آتا ہے۔ پھر تو ان کو یہی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ ’اگر آپ کو ’اسلامی معاشرے‘ کا اتنا شوق ہے تو جائیں سعودی عرب میں رہیں جا کر۔‘
کیا خاتون کا چہرہ اتنا قابل اعتراض یا خطرناک ہوتا ہے کہ اس کو نقاب میں چھپانا ضروری ہے؟
اس سے مجھے یاد آیا کہ چند روز پہلے سابق گلوکار جنید جمشید کو ایک ٹی وی انٹرویو میں دیکھا۔ انہوں نے بھی بھیس بدل لیا ہے اور آج کل پچاس سالہ مولوی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا درس دلچسپ تھا لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ وہ وہ اے آر وائی کے انٹرویو کرنے والے سے ’تم ‘ کر کے کیوں مخاطب ہو رہے تھے۔
بہرحال جنید جمشید بھی اور آج کل تبلیغی جماعت کے لئیے کام کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت میں تو بہت سال پہلے ہمارے نانا بھی رہے لیکن وہ اور زمانہ تھا اور وہ ہمیں درس نہیں دیتے تھے بلکہ ہمارے لیئے ایک مثال بنے ہوئے تھے۔
بیشک نقاب پوشوں کو اپنا نقاب پہننے کی آزادی ہو، لیکن اپنے آپ کو اتنا الگ تھلگ کر کے برطانوی مسلمان کچھ اچھا نہیں کر رہے۔ خیر کم از کم ایسے موضوعات پر یہاں بحث تو ہو سکی ہے، جو کہ شاید سعودی عرب جیسے معاشرے میں تو ہو ہی نہیں سکتی۔
تبصرےتبصرہ کریں
اگر چھرہ ڈھکنے کا نہيں کہتا تو بے حجابی سے بھی منع کرتا ہے ـ
رھی بات اسلام ميں نقاب کے حکم کی تو جناب جہاں فتنے کا خدشہ ہو وہاں نقاب کا حکم ہے
آپ کو سب اسلام ميں ہی برا نظر آتا ہے
ننوں کا حجاب اور اہل يمد کيھ کی داڑھی پہ کسی نے آج تک کچھ نہي کہاں
عنبر خيری صاحبہ آپ کو دکتی رگ پکڑنے اور پھر خوبصرت الفاظ ميں ڈھالنے کا فن آتا ہے، يہ صحیح ہے کہ اسلاام ميں پردہ ہے مگر صرف پردے ميں اسلاام نہيں۔.جيسا ديس ويسا بھيس. آجکل کی تيز رفتار ويں سمجھنے اور سمجھانے واسطے اور بہتر کميونيکيشن کے درميان اگر پردہ حجاب بنےتو يہ کم از دين اسلام پر رہنے کی ضرورت نہيں۔. جتنا حجاب عمرہ و حج کے واسطے ضروری ہے کافی ہے۔ کل اگر دھشت گرد برقہ پوش ہوا تو بدنام مسلمان ہوں گے لہزا بے حجابی اور بے پردگي دو علحدہ چيزيں ہيں۔ ايسے ممالک جہاں اسلاامي قوانينِ کی حکمرانی نہ ہوں لاازم ہے ان کے رياستی اور معاشرتی قانون کا خيال رکھا جائے
There is no way that I can agree more than you. What is this drama anyway. I remember when I was in Pakistan there was a known hooker who used burqa when ever she went out. I think it is all bogus and it is not Islamic to wear Burqa, but yes a woman's dress has to be decent and not revealing. That is it. These tribal thoughts are the reason we are the lowest of lows in the world.
لگتا ہے عنبر خيری نے جو موضوع چھیڑا ہے اس پر بحث دور تک جائے گی۔
آپ نے انتہائی ' گرما گرم اور حساسٰ بحث چھيڑدی ہے۔
اگر عورت نقاب پہنا چاہتی ہے اور اس ميں خود کو زيادہ محفوظ سمجھتی ہے تو اس سے ديگر افراد کو کيا پريشانی ہوسکتی ہے يا کوئی پريشانی ہونی بھي چاہيۓ ۔ اس پر اعتراضات اس کی شخصی آزادی ميں مداخلتِ بيجا ہے ۔
مذہبِ اسلام ميں کسی خاص طرح کا لباس پہننا ضروری نہيں مگر دين نے لباس کے شرائط ضرور متعين کۓ ہيں اور ان شرائط کے ساتھ لباس کا پہننا ضروری ہے۔ نقاب اسلامی ہے يا ثقافتی يہ ايک الگ بحث ہے يہ ضرور ہے کہ اس کے بارے ميں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کا اس کے بارے ميں اجتماعی بيان وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
ميں کچھ ماہ پہلے ملا ئيشياء کے تفريحی دورے پر گيا تھا اور شايد اپنی زندگی ميں پہلی بار اتنی بانقاب خواتين ديکھيں جوکہ سعودی عرب اور ديگر عرب ممالک سے ہنی مون پر آئی ہوئی تھيں اور پوری طرح سے اس سے لطف اندوز ہو رہي تھيں تو يہ کہنا تو درست نہيں کہ وہ سوسائٹي ميں گھل مل نہيں پاتيں۔ اگر وہ اس ہنی مون جيسے موقع پر اپنی روايات کو نہيں چھوڑتيں تو پھر روزمرہ ميں وہ اس سے کيسے اجتناب کرسکتی ہيں اور اگر ديگر خواتين ان کی تقليد کرتی ہيں تو ہم اس سلسلے کيوں ان سے بلاوجہ ضد بحث کريں ۔
سب سے اہم يہ کہ ايک تيسرے شخص کو يہ قطعی حق نہيں پہنچتا کہ وہ کسی کے بھی مذہبی يا ثقافتی آداب ورسوم کے بارے ميں متنازعہ بيانات دے ۔ يہ بہت اچھی بات ہوئی کہ ان کے اپنے ہی لوگوں نے ان کو زبردست تنقيد کا نشانہ بنايا۔
ہمارا الميہ يہی ہے کہ تحقيق و جُستجو سے جان بچا کر، جن واسطوں سےہم نےدين حاصل کيا وہ سواۓ فروعات ميں اُلجھا دينے کےہميں کُچھ نہ دے سکے کہ غالبا” خُود اُن کي استعداد بھي بس اسي حد تک تھي - حالانکہ وجہ مُسلمانی جاننے اور ايک بہترين ضابطہ حيات و اخلاق کی ضرورت سب سے زيادہ تھي کہ اسی سے ہماری شناخت ہونا تھي اور اسي سے طے ہونا تھا کہ ہم کس قسم کے لوگ ہيں، نيز ہماري ترجيحات کيا ہيں-
ا في الحال سارا زور محض ايک مخصُوص حُليہ بناۓ رکھنے پر ہی ہے- کيا واقعي محض ايک مخصُوص عرب قبائلي کلچر اختيار کر لينا ہي بہتر مُسلمانی کا سرٹيفکيٹ ہے اور باقی تمام لوگ درجہ دوئم اور سوئم کے مومنين ٹھہرے؟ پھر اس دعوٰی کا کيا ہوگا کہ اسلام بلا تفريق رنگ و نسل ايک عالمگير مذہب ہے اور فوقيت کا معيار صرف تقوٰی ہے؟
مغرب ميں بس رہے ان حضرات کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کن فضُوليات ميں پڑ کر اپنا اور نہ ہی دين کا کوئی بھلا کر رہے ہيں - چاہيۓ تو يہ تھا کہ اس پُرآشوب دور ميں اپنی محنت اور لياقت سے ان ممالک ميں اپنا ايک باعزت مقام بناتے جس کے ذريعے اپنے ہم مذہب اور ہم نسل افراد کے لۓ کُچھ کر سکتے جس طرح دُوسري قوموں کے لوگ برطانيہ اور امريکہ ميں کرتے چلے آ رہے ہيں ليکن وہ بڑا محنت طلب کام ہے۔
يہ حضرات اس پوزيشن ميں ہيں کہ مغرب ميں رہتے ہُوۓ اپنے فعل و عمل سے مُسلمانوں کا ايک بہتراميج پيش کر سکتے ہيں - ايک ايسے مُسلمان کا اميج جوخُود کو اسي مُعاشرے کا ايک ذمہ دار رکن سمجھتا ہے اور اپنے حقوق کے ساتھ اپني ذمہ داريوں سےبھی بخُوبی آگاہ ہے- ايسے شہری کےحقوق کی پامالی کسی کے لۓ بھی اتنا آسان نہيں ہو گا اور ميزبان مُعاشرے اس سے زيادہ کی توقع بھی نہيں رکھتے کسی سے- انہيں بظاہر اندازہ ہی نہيں ہے کہ اتنا سب کُچھ ہو جانے کے بعد بھی جتنا قانوني اور اخلاقي تحفظ انہيں ابھي بھي اُن مغربی مُعاشروں ميں دستياب ہے، کسي بڑے سے بڑے اسلامي ملک ميں بھي نہيں ملے گا-
انہيں چاہيۓ کہ اپنی ذمہ داريوں کا احساس کرتے ہوۓ اپنی ترجيحات کے انتخاب ميں بُہت احتياط سے کام ليں بصُورت ديگر نُقصان سواۓ اُن کی اپنی ذات کے، اور کسی کا نہ ہو گا- بڑے سے بڑے اسلامی ممالک جو خُود اپنے شہريوں کے حقوق سلب کۓ بيٹھے ہيں، ان کے لۓ کُچھ بھی نہ کريں گے-
After reading your blog, I feel that your 'elders' were not able to present a 'good example' in front of you. Even your western mentors were not able to teach their principles to you properly. Your freedom stops when others freedom starts. Just stop imposing your extreme and militant secularism on others.
اگر کوئی اپنی اصلا ح کرتا ہے تو اس کی حو صلا افز ائی کر نی چاہيے نا کہ تنقيد۔ آ پ کو کيا پتہ کہ وہ لوگوں کو دکھا نے کہ ليے کر تا ہے يا اللہ کے ليے۔ اگر جنيد داڑھی نہ ر کھتے تو آ پ پھر بھی تنقيد کر تے کہ اپنا آ پ تو صحیح کيا نہیں اور تبليغ کر تے ہيں۔
کيا آ پ کو بر طا نيہ ميں ان لوگو ں پر چڑ نہيں ہو تی جو ننگا لبا س پہنتے ہيں، سڑ کو ں پر، ٹر ينو ں ميں ـ بغلگير ہو تے ہيں ـ بو سے ليتے ہيں اور ننگی حر کتيں کر تے ہيں ؟
بڑ ے ا فسو س کی با ت ہے کہ اپنے ہی لو گ مغر بی ميڈ يا کی تنقيد ميں شا مل ہو جا تے ہيں ۔
کچھ سمجھ ميں نہيں آيا کہ آپ اصل ميں کہنا کيا چاہ رہی ہيں۔ شايد آپ کے علم ميں ہو گا عورت کا لفظی مطلب ہی پردہ ہے ،عورۃُ النساء کا مطلب عورت کا پردہ کيا گيا ہے ميری ناقص معلومات کے مطابق جس لفظ کو ہم آج تک اپنے لۓ منسوب سمجھتے تھے اُس کا مطلب ہی پردہ ہے نساءکا مطلب عورت ہے۔ شخصی آزادی کے جس دور کی بات آپ کر رہی ہيں اُس ميں لباس کا معاملہ کس کھاتے ميں آتا ہے،اور پردے کے معاملے کو نقاب پوشوں کے ساتھ ملانے کی جو بات کی ہے وہ کسی بھی طرح جيک سٹرا کے بيان سے کم نہيں لگ رہا شايد يہی ہم لوگوں کی کمزورياں ہيں جو آج ہم اس مقام پر ہيں،اور جو کچھ آپ نے آخر ميں کہا ہے کہ کم از کم جو آزادی آج يہاں ہے سعودی عرب ميں نہيں ہے ساری بُرائيوں اور غلطيوں کے باوجود سعودی عرب ميں جرائم آج بھی پوری دنيا کے مقابلے ميں بہت کم ہيں کيونکہ قانون کی بالا دستی ہے اور سختی ہے نقاب کی بات کی بھی وضاحت کے لۓ يہ بات ہی کافی ہے کہ عمرہ اور حج کے مواقع پر جہاں احرام کے لۓ کچھ ضابطے ہوتے ہيں کہ يہ کرنا ہے يہ نہيں کرنا ہے اور کچھ حلال اشياء بھی حرام اور حرام اشياء بھی حلال ہو جايا کرتی ہيں وہيں چہرے کو کھلا رکھنے کا حکم ديا گيا ہے کہ يہ بھی احرام کا حصہ ہے يعني عام حالات ميں چہرہ کھلا نہيں ہو نا چاہيۓ ۔رہي يہ بات کہ کيا بقول آپ کے خواتين کا چہرہ اتنا قابل اعتراض يا خطرناک ہوتا ہے کہ نقاب ميں چھپانا ضروري ہوتا ہے نہيں ميري بہن نا قابل اعتراض ہوتا ہے نا خطر ناک بلکہ خو بصورت ہوتا ہے کشش کا باعث ہوتا ہے اور اسي کشش کي وجہ سے صنف مخالف کو مقناطيسي کشش محسوس ہوتي ہے اور وہ کچھ ہوتا ہے جو تکليف کي وجہ بن جاتا ہے زيادہ کيا کہوں۔آپ نے وہ اشتہار تو ديکھا ہو گا کہ آخر لوگ ہمارا چہرہ ہي تو ديکھتے ہيں شناخت کے لۓ بھي چہرہ ہي دکھايا جاتا ہے اور چہرہ ہی ہوتا ہے جو دکھا کر رُو نمائ کی جاتی ہے، ہر شخص اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہے ہم آپس ميں دل کيوں برے کريں ۔ ميرے خيال ميں براۓ مہربانی مز ہبی معاملات کو اگر عام موضوعات سے زيادہ نازک طريقے سے ليا جاۓ تو بہتر ہو گا کہ دين کے معا ملات زيادہ توجہ طلب اور اہم ہوتے ہيں ۔
سوال يہ ہے کہ کيا مسلمان مرد بھی جلابا اور سر پر پگڑی باندھ کر لندن اور پيرس کی سڑکوں پر گھومتے ہيں؟ اگر نہيں تو غريب عورتوں پر ہی اسلام کيوں لاگو ہوتا ہے۔ کيا يہ عورتيں اسلام کے باقی اصولوں پر بھی عمل کرتي ہيں يہ عورتيں کسی اسلامی ملک کيوں نہيں جا رہتی ہيں تاکہ اسلامی شعار کے مطابق زندگی گزار سکيں؟ سارا کھيل پيسے کا ہے امير مسلمان يا تو عورتوں کو پردے ميں رکھتے ہيں يا کھلی آزادی غريب عورت پردہ کرے تو کھائے کہاں سے۔ بر صغير پاک ھند جاکر ديکھ ليں غريب ۔عورتيں کھيتوں کارخانوں ميں کام کر رہی ہيں
iاسلام ميں حج ک موقع پر جو پردہ ہے وہی صحیح ہے باقی فيشن يا ملاگيری
Very well said! Write more! These new muslims think everyone else is either stupid or dead.
Mein is per itna hi kahoon ga k christion muashrey mein agar app 1940 se pehley jayin to ladies bhi scarf pehantey thein yeh esayee muashrey mein bhi zaroori thaa
اپ کو بہی يہ خبر نہيں کہ اپ کا ايمان ظاہری اور عملی طور سے بہی نظر آنا چاہيے اسی ليے شرعيت مطہرہ کی مثال ہمارے ليے بنائی گئي- اپ کو تو سيکولرزم کی بہی تميز نہي- آج حجاب پراعتراض ہے تو کل داڑہی پر بھی اعتراص ہو گا- آپ ميں تو قوت برداشت اتنی بھي نہيں کہ جو حق پر ہے اسے سکون سے رہنے ديں۔ بلکہ اپ کو کم ازکم بطور انسا ن دوسرے کو برداشت کرنا چاہیے جس طرع يہاں کم يا پبے لبا س لوگوں کو برداشت کياجاتا ہے-اور کسی ہم عمر کو تم کہنا نا تو اسلام نہ اخلاق کے خلاف ہے جب مخاطب کو کوئی اعتاض ہی نا ہو-
پہلے مجھے مولی حضرات سے چڑ تھی جو آپ کے انتہایی پرایویٹ معملات میں دخل درمعقولات کرتے تھے۔ اب آپ لوگوں نے بھی یہ کام شروع کردیا ہے۔ اگر کویی منہ چھپانا چاھتا ہے تو آپ کو کیا مسلہ ہے۔ اور اگر کویی منہ دکھانا چاھتا ہے تو ان لوگوں کو کیا تکلیف ہوتی ہے۔
نادان اور بے وقوف لوگ جب دين اور اس کے اصولی اور بنيادی معاملات پر گفتگو کرنے لگيں تو يہ قرب قيامت کی نشانی ہےـ ان يورپی خواتين سے جاکر پوچھيں جنہوں نے آزادی پر تھوک کر عبايہ اوڑھ لياـ اگر پھر بھی عقل پر پردہ پڑا رہے تو مولانا ابوالاعلی مودودی کی کتاب پردہ پڑھيں تو اميد کہ افاقہ ہوگاـ اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو ڈوب مرنا اچھا ہے
نقاب دنيا کے تمام مردوں پر عدم اعتماد کے مترادف ہے- يقيناً حيا عورت کا زيور ہے ليکن کچھ لوگ نقاب کو ہی حيا کی نشانی سمجھ بيٹھے ہيں- نقاب پوشوں کو اردو کے محارروں کی فہرست سے "جيسا ديس ويسا بھيس” کو نکال کر اس کي جگہ ”جيسا بھي ديس ايک ہي بھيس” کو شامل کرنے کا مطالبہ کرنا چاہيے -
آپ کے خيالات تو ھمارے صدرجنرل پرويز مشرف سے بہت مماثلت رکھتے ہيں - آپ کو تو اس حکومت کا کو ئی مشير محکمہ لبرل ازم يا آزاد خيالی ہونا چاہيئے تھا - آپ چاہتی ہيں کہ جس طرح يورپ ميں عورت کا ايک ايک انگ نظر آتا ہے اسی طرح مسلمان عورت بھی ہو - مگر اسلام ميں پردے کے واضع احکامات ہيں - اگر فرصت ملے تو ابواعلی مودودی کی کتاب ”پردہ” پڑھ ليجئے گا - يا پھر قرآن کی سورتہ النساء کو پڑھ ليجئے گا وہ پوری سورت ہی عورتوں کے حوالے سے ہے -
I do agree with your views . Islam is not confined to just superficial things it goes deep inside soul. As far as I know there is no obligation of hiding face in islam. Veil over face does not guarntee any protection from cruel and piercing distractions. Only true islamic values and society can can protect women from brutal male dominant so called isalmic society.
ميرا خيال ہے مولويوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دينا ہی بہتر ہے- سماجی مسائل کی بحث ان کے ساتھ کرنے سے بہتر ہے آدمی بھينس کے آگے بين بجالے يا ديوار کے ساتھ دو چار ٹکريں مار لے- جو لوگ سعودی عرب کی کھجوروں کی گٹھلياں پھينکنے کو گناہ سمجھيں ان سے برطانوی معاشرہ ميں نقاب کے سماجی اثرات پہ بحث کا فائدہ نہيں- ميں سمجھتا ہوں مسلمان ہونے کے ليے عربوں کی طرح نظر آنا ضروری نہيں- ليکن کچھ لوگ عربوں کی طرح ايکٹنگ کو ہی اچھا مسلمان ہونا سمجھتے ہيں- نقاب اسلام کی ضرورت ہے يا ايکٹنگ کی يہ آپ خود فيصلہ کريں- کوئی پہننا چاہتا ہے تو پہنے ليکن اس کو اسلام کا حصہ نہ بنائيں جس طرح سر سيد احمد خاں داڑھی کو اسلام کا حصہ نہيں سمجھتے تھے-
پردہ کے حدود وہی ہیں جو حج کے موقع پر ہیں باقی سب معاشرتی پیداوار ہے اسلام میں طالبانی سوچ کا کویی تصور نہیں ہے
AS A MUSLIM I THINK ONE THING IS IMPORTANT THAT WE SHOULD FOLLOW ISLAMIC TEACHINGS AND NOT THE TRIBAL TRADITIONS AND THE BIGGEST ENEMIES OF ISLAM ARE "MOLVIES" AS THEY DO THEIR BUSINESS IN THE NAME OF ISLAM.
بہت خوب لکھا ہے آپ نے
يہ نقاب اور پردہ وغيرہ سب بکواس ہے اور پسماندہ ذہنيتوں کی ايجاد ہے- ميں نے يہاں ايک ملا کے بارے ميں سنا ہے کہ اس کی چار بيوياں ہيں اور چاروں بيويوں سے اتنا پردہ کرايا جاتا ہے کہ ان کو اپنے باپ اور بھائيوں سے بھی ملنے نہيں ديا جاتا- صرف فيميل رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے- اس وحشی ملا کی نظر ميں يہی سب سے اصلی اسلام ہے- بس دو نمبر لوگوں کو اچھا جواز ہاتھ لگ گيا ہے کہ جو بھی گندا کام دل ميں آئے کرو کيونکہ اسلام ہے- بجائے اسکے کہ يورپ ميں يہ لوگ اسلامی ممالک ميں غربت، جہالت اور ملاؤں اور جہاديوں کی وحشت کے شکار ہم وطنوں کی نجات کے لئے آواز اٹھائے خود بھی نقاب اوڑھنا شروع کرديتے ہيں۔
ميری ناقص رائے ميں يہ موضوع انتہائی حساس اور سنجيدہ ہے اس کو ہر گز غير سنجيدگی اور ہلکے پھلکے انداز ميں لے کر، ہميشہ کي طرح ايک دوسرے پر تنقيد کرکے آگے نہيں بڑھا جا سکتا ہے۔
اس کے لۓ ہميں آپس ميں دست و گريباں ہونے کے بجائے، دوسروں کو ہماري ہنسي اڑانا کا موقع دينے کے بجائے مکالمے کي ضرورت ہے ۔۔ علماء سے، مجتہدين سے، مذہبی دانشوروں سے اس سلسلے ميں رہنمائی کي ضرورت ہے، کيونکہ اس مسئلے پر کسی بينکر يا کسي تاجر کي رائے کی ضرورت نہيں، ضرورت ہے ان ديني علماء سے رجوع کرنے کی جو قديم و جديد فقہی مسائل سے مکمل آگاہي و دسترس رکھتے ہوں اور ضرورت ہے احسن نتيجے تک پہنچنے کی۔
ہماری ستم ظريفی يہ ہے کہ بدني امراض کے لۓ تو ہم طبيب کے پاس جاتے ہيں اور يہ بات سمجھتے ہيں کہ وہ ہمارے امراض کو ہم سے بہتر جانتا ہے مگر دينی معاملات و مسائل کی بابت ايک عالمِ دين سے پوچھنے کے بجائے خود ہی اس کے بارے ميں اپنی رائے قائم کرليتے ہيں اور اسی کو درست سمجھتے ہيں يا جو باتيں بڑوں بوڑھوں سے سنی ہوتي ہيں بس انہيں کو کافی اور مکمل سمجھ ليتے ہيں، جب کہ ديني مسائل اور ان کے حل ہر دور ميں مختلف ہوتے ہيں۔
ميں سمجھتا ہوں کہ ہميں اس زيرِ بحث موضوع کے حل کے لۓ سنجيدہ اور عقلی بحث کی ضرورت ہے اور اس سلسلے آپ اور ديگر بی بی سی کے احباب بہت کچھ کرسکتے ہيں ۔ ميری تجويز ہے کہ اس سلسلے ميں ٹاکنگ پوائنٹ ميں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو بلايا جائے اور سيرِحاصل گفتگو کی جائے ۔
پتہ نہيں بی بی سی والوں کو اسلام سے اتنی چڑ کيوں ہے ـ آپ ايسا اسلام چاہتی ہے جس ميں سب کچھ جائز ہو مثال کے طور پر نيم عرياں لباس ميں پھرنا، بوساگری ،شراب نو شي،فحش فلميں ديکھنا ،عورت کو اشتہار سازی کے ليے استعمال کرنا ِ.....وغيرہ وغيرہ۔ مہربانی فرما کر افسو س کا مقام ہے انتہا ہی افسوس کا اسلام اور مسلمان پر طنز کر نا ب بي بی سی وا لوں کو بہت مزہ ديتا ہے کيوبکہ يہ بہت پر کشش موضوع ہوتے ہيں آپ جيسے مغرب ذدہ لوگو ں کيليے ـ ميں اميد کر تا ہوں کہ آپ ميرا تبصرہ شائع کريں گے تاکہ ان مغرب زدہ لوگوں کو ميرا پيغام پہنچ سکے جوآپ کی طرح اوپن اسلام چاہتے ہيں
-ايمان پختہ ہونے کہ پعد ہم عرب لباس پہنتی ہے اور اپ جيسے لوگوں کي کڑوی باتيں برداشت کرنے کا حوصلہ پيدہ ہوتا ہے-
محترمہ اس دنيا ميں تو اپ جيسی کامياب عورتيں کو ہم جيسی قدامت پسند عورتوں کے ساتھ رھنا پڑے گا ليکن عالم رواح ميں ہماری منزليں علحيدہ ہو سکتی ہے-
There is not even a single sentence she wrote infavor of western style then why molvi or neem molvis are against this poor soul, who gives these charity and zakat takers a right to enforce their tribal thoughts on us. they have no right to suggest anything because mullahs are just like beggers who take alms and zakats , how can our prayers be answered when beggers are imams I think this is Qurb-e-Qayamat not burqa or women's right
میں ایک مذہبی سکالر ہوں اور عرب فارس اور یورپ کی دنیا سے بخوبی واقف بھی میں وہاں کچھ عرصہ گزار چکا ہوں پردہ کے حوالے سے عرب دنیا میں شدید تعصب نظر اتا ہے جو انکی معاشرتی پیداوار ہے بلکہ وہ تو عورت کے معاملے میں ہی سخت مزاج کے ہیں البتہ بعض عرب نارمل ہیں۔ یورپ کے مسلمانوں کا پروبلم یہ ہے کہ وہ دین کے ظاہر پر بڑی سختی سے عمل کرنا چاہتے ہیں بغیر اسکے کہ وہ اسکی روح کو سمجھیں۔ چہرے پر نقاب کے بارے میں کسی بھی فقہ میں اتینی شدت نظر نہیں اتی جتنی بعض عرب یا پھر برصغیر میں نظر اتی ہے۔ نقاب انسانی تعصب اور تہذیب کی پیداوار ہے نہ حکم شریعیت۔
مصر کے مفتی اعظم شیخ شلتوت سے لیکر ڈاکٹر قرضاوی اور پھر پاکستان میں مولانا مودودی تک یا پھر ایران کے مفتیوں تک کہیں پر بھی پردہ کا نقاب یا پھر شٹل کاک ولا تصور نہیں ملتا۔ عربی زباب میں عورت کے معنی شرمگاہ کے ہیں کہ جنس مونث النساء کا لفظ اردو کے عورت کا معنی دیتا ہے
مسلمانوں میں عبد اللہ ابن وھاب کے پیروکاروں میں پردہ کا تصور متشدانہ ہے یہی وجہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان جو کہ عبداللہ ابن وھاب کی فکری پیداوار ہے عورت کو ایک بے قیمتی شے سمھجتے ہیں انکے نزدیک عورت کو ہمیشہ گھر اور گھرداری سے سروکا رکھنا چاہیے سو تعلیم یا پھر عورت کا معاشرتی کردار کوی معنی نہیں رکھتا جبکہ قران واضح الفاظ میں عورت کو معاشرے کی ایک اہم اکایی سمھجتا ہے ۔۔۔ حتیٰ کہ دختر پیامبر نے بہت سے اجتماعی کاموں میں حصہ لیا ہے اور ان کا معاشرتی کردار واضح ہے ۔تاریخ اسلام میں کہیں پر نہیں ملتا کہ عورت نے عصر پیامبر میں نقاب اوڑھا ہو صحابہ ایک دوسرے کی فیملیوں سے واقف تھے۔ اس وقت کا عرب معاشرہ ایک دوسرے کی عورتوں سے واقف تھا جنگوں میں عورتیں نرس کا کردار اد کرتیں تھیں
سو نقاب پردہ کی ایک اضافی حالت ہے جو صرف اور صرف معاشرتی پیداوار ہے۔ اسلام سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر بات فساد کی ہے تو وہ تو شٹل کاک کے باوجود بھی اگر فساد کا خرہ ہو تو جائز نہیں
ميری تمام مسلمانوں سے گذارش ہے کہ اپنے سے اختلاف رائے رکہنے والوں کےخلاف اتنی گھٹيا اور خسيس زبان کا استعمال کرنا اپنے آپ کو نہ صرف لوگوں کے سامنے ننگا کرنے کے مترادف ہے بلکہ اللہ پاک کی نظر ميں بھی اپنے آپکو گرانا ہےـ
اللہ کے نبی کا پاک ارشاد ہے کہ ميری امت کے علماء ميرے وارث ہيں-
ان کو گالياں دينا بڑے خطرے کی بات ہے
مناؤ جشن چراغاں مگر اس احتياط کے ساتھ
کسی چراغ کی لو سے کسيکا گھر نہ جلے
نفاب کی حمايت يا ُمخالفت مسلۂ نہيںـ بات يہ ہے کہ اگر کوئی عورت پردہ کرتی ہے تو اس ميں کسی دوسرے کو کيا پريشانی ہے؟
ميں ابھی تک اس خوشگوار حيرت ميں ہُوں کہ ميرے انتہائی مُحترم اور عزيز سيد رضا صاحب کا بينکر اور تاجر کا حوالہ محض حُسن اتفاق ہے يا وہ واقعی اس کوتاہ علم اور کج فہم بينکر سے ہی ہمکلام ہيں -
يہی لندن پچاس اور ساٹھ کی دہائی سے کل دُنيا کے مذہبی اور سياسی پناہ گزينوں کی جنت سمجھا جاتا تھا جس نے ہر کس و ناکس کوانساني حقوق اور احترام کے علاوہ اعلٰي تعليم اور مُعاش کے وہ مواقع ديے جو پناہ گزينوں کي اپني جنم بھُوميوں ميں ناپيد يا دسترس سے باہر تھے- ايسا وسيع القلب مُعاشرہ يکايک ان ذاتيات پر کيسے اُتر آيا ، بس يہي وہ بنيادي سوال ہے جس کے جواب ميں اصل مسئلہ پنہاں ہے اور جس کي تشخيص کے لۓ ايک مُجتہد يا فقيہ سے زيادہ ، عوام الناس کي اجتماعي خُود احتسابي کي ضرُورت ہے-
يہ کار خير مغربي مُسلمانوں کےذمہ دار اور باشعُور طبقے سے بہتر اور کون کرسکتا ہے، بس يہي راقم الحرُوف کا حاصل گُفتگو تھا-
محترم آغا رضا صاحب ، بينکر اور تاجر کا حوالہ محض حسنِ اتفاق ہے ۔ اس سے قطعی طور پر آپ کی ذات يا کسی اور کی ذات مراد نہيں ہے ۔ ميرے تو علم ميں بھی نہيں تھا کہ آپ بينکنگ کے شعبے سے وابستہ ہيں ۔ ميں انتہائی معذرت خواہ ہوں اگر آپ نے اس بات کو محسوس کيا ۔ ميرا مقصد صرف يہ تھا کہ بينکنگ يا تجارت کے حوالے سے مسائل وسوالات کے جوابات ايک بينکر يا تاجر بہتر طور پر دے سکتا ہے تو اس سے پوچھا جاۓ اور فقہی سوالات اس کا علم رکھنے والے عالم سے کۓ جائيں تو ہی بہتر ہوگا ۔
عقل کا تو تقاضہ ہے کہ جيسا ديس ويسا بھيس ہونا چاہيے ِ يہ کہاں کا اسلام يا انصاف ہے کہ ابنے آپ کو تو چھپا ليجيے اور دوسروں کا نظارہ کيجيے مزے سے ـ يہ نقاب پوشی چاہے زنانہ ہو چاہے مردانا ہر لحاظ سے قابل نفرت ہے ـ
مُحترم سيّد رضا صاحب ، مُجھے يقين ہے کہ يہ محض اتفاق ہی ہو سکتا ہے ليکن اس کي حيرت انگيز ٹائمنگ کے مدنظر، آپ کے زير توجہ لےآنا مُناسب سمجھا ... جس کيلۓ اب ميں بھي معذرت خواہ ہُوں - خيال رہے کہ ’ايسےوسيع القلب معاشرے کے ان ذاتيات پر اُتر آنے‘ سےميری مُراد برطانوی اسٹيبلشمنٹ کا نقاب پر حاليہ اعتراض ہے - لفظ ’نقاب‘ سميت پُورا جُملہ کسی وجہ سےحذف ہوگيا ہے ... ورنہ ابہام نہيں رہتا -