ننھے میاں کے کارنامے
تو بچو پھر یہ ہوا کہ میں مچان پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا شیر کا۔ ویسے تو میں اس وقت تک پندرہ لگڑ بگے، سات بھالو اور کئی خوفناک پرندے شکار کرچکا تھا اور سانپ تو چاہے کتنا ہی بڑا ہو اس کی گردن پکڑ کر مروڑ دینا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔
مگر یہ والا تو بہت ہی ہیبتناک شیر تھا۔ اس نے گاؤں والوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ کئی بچوں کو وہ اٹھا کر لےگیا تھا اور اس نے ان کو ہڈیوں سمیت کچر کچر چبا ڈالا تھا۔
مگر بچو تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اپنی ہٹ کا کتنا پکا ہوں۔ بس ایک دفعہ جو ٹھان لوں کر کے چھوڑتا ہوں۔ تو اس دفعہ بھی میں نے یہی سوچا کہ اس طرح بیٹھے بیٹھے تو کام نہیں چلے گا۔ مجھے ہی گاؤں والوں کے لئے کچھ کرنا پڑے گا۔گاؤں والوں نے مجھے روکا بھی کہ تو اکیلا کیا کر لے گا ایک آدم خور شیر کے سامنے۔ مگر میں نے کسی کی نہیں سنی اور قسم کھائی کہ اب یا تو یہ خوفناک شیر رہے گا یا پھر میں۔
اچھا تو انکل پھر کیا ہوا۔ جلدی سے بتائیں ناں!
بس بچو ہونا کیا تھا۔ میں مچان پر بندوق تانے اس خوفناک شیر کا انتظار کرتا رہا، کرتا رہا، کرتا رہا، کرتا رہا، کرتا رہا، کرتا رہا۔۔۔۔
انکل آگے بھی تو بتائیں ناں ! پھر کیا ہوا۔
مجھے اونگھ سی آنے لگی کہ اچانک میرے کانوں میں خشک پتوں کے چرچرانے کی آواز آئی۔ میں نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور دیکھا کہ وہی خوفناک شیر میرے سامنے کھڑا ہے۔ میں نے جناب اس کے سر کا نشانہ لیا اور فائر کردیا۔ دھائیں۔ پھر دوسرا فائر کیا۔ دھائیں۔ پھر تیسرا فائر۔ دھائیں۔ پھر چوتھا۔۔۔۔
انکل پلیز آگے بھی تو بتائیں۔ تو پھر کیا شیر مرگیا؟
نہیں بچو! میں نے دیکھا کہ ابا بستر کے کنارے کھڑے مجھے گھور رہے ہیں۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ شیر کہاں ہے۔ شیر کہاں ہے۔ ابا کہنے لگے شیر کے بچے سورج سوا نیزے پر آگیا ہے تو کب جاگے گا۔
مجھے اب تک دکھ ہے کہ میرے ابا کی وجہ سے وہ شیر میرے ہاتھ سے نکل گیا۔ چلو اگلی دفعہ سہی۔ میں چھوڑوں گا نہیں سالے کو ۔۔۔۔
میں دو دن سے پڑھ رھا ہوں۔ آدھی سے زیادہ ختم کرلی ہے اور جانے کیوں اس دوران مجھے شیر والی کہانی کئی مرتبہ یاد آ چکی ہے۔
کسی ستم ظریف نے گزشتہ روز مجھے یہ ایس ایم ایس بھی بھیج دیا ہے کہ اب اس کتاب کا ایک ایڈیشن بچوں کے لئے ’ننھے میاں کے کارنامے‘ کے نام سے آسان زبان میں شائع کرنے پر غور ہو رہا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم وسعت اللہ خان صاحب، آداب عرض ۔۔
سب سے پہلے تو آپ کا بہت شکريہ کہ آپ نے اس ناچيز کی تجويز کو قبول فرمايا اور جنرل مشرف کی کتاب پر بلاگ لکھنا شروع کرديا۔ اميد ہے جيسے جيسے آپ کتاب پڑھيں گے ويسے ويسے اس کے اسرار ورموز کے بارے ميں بھی تحرير کريں گے، جس کی پہلی قسط تو آپ نے ہم لوگوں کے لیے لکھ ہی دی ہے۔ خدا آپ کو اور وسعتِ قلم عطا کرے ۔۔
بہت لاجواب خيال ہے آپ کا ۔۔
اميد کرتا ہوں کہ ’ننھے مياں کے کارناموں‘ پر بھی آپ گفتگو کريں گے۔
بس يہی کہوں گا :
ديوار پہ لکھی ہوئی تحرير ہے کچھ اور
ديتی ہے خبر خلقِ خدا اور طرح کی
اپنا بہت خيال رکھيے گا۔
نيازمند
سيد رضا
برطانيہ
واہ کيا بات ہے! اگر آپ بوڑھے ہیں تو جوان، اگر جوان ہيں تو نوجوان تاحيات رہيں۔ خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے۔ خوش کر دتا جی بادشاہو! بہتر تھا کہ کتاب کا نام ’لائين آف فائر‘ کی بجائے شفيق الرحمان کی اجازت سے مزيد تر بلکہ ’مزيد ترين حماکتيں‘ رکھتے۔ مگر ان کو اجازت کی ضرورت ہی کيا کہ وردي جو ہے اور اگر يہ کہانی ان کی کتاب ميں ملی ہو تو بہتر ورنہ ممکن ہے آنکھ کھلنے پر سامنے بش کھڑا ہو بندوق ہاتھ ميں تھامے۔۔۔
ماشا اللہ آپ کا اندازِ بیان خوب ہے۔ بڑئ اچھی وضاحت فرما دی آپ نے اپنے سادہ انداز میں۔ اسی طرح لکھتے رہئیے۔ اللہ آپ کو سچ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
معصوم بچوں کی خطا کیا تھی؟
وسعت ا نکل، بندر کا واقعہ تو رہ ہی گيا جو ادھر سے ادھر چھلا نگيں تو لگاتا تھا مگر کام ميں تھا صفر اور صفر يعنی انڈہ۔
وسعت بھائي جُگ جُگ جيو، اللہ نظرِ بد سے بچائے۔
پہلےايک لمحے کو بے ساختہ ہنسی آئی اور پھر ملک و قوم کی قسمت پہ دل گرفتگی اور بڑھ گئی۔
سب سے پہلے يہ کوئ بتائے کہ مچان کسے کہتے ہيں؟ آپ کی طبيعت ٹھيک نہيں ہے کيا جو مياں مٹھو کی کتاب پڑھ رہے ہيں اس کتاب کو پڑھنے سے اچھا ہے کہ آپ بچوں کی اختو بختو پڑھ ليتے کم از کم بچوں کو تو اچھی تفريح ملتی۔ يا اگر ٹائم ہی پاس کرنا تھا تو کوئی سڑا سا خواتين ڈائجسٹ ليتے اور سارے افسانے پڑھ ليتے تو خواب ميں بندوق کی بجائے لال گلاب کا پھول ہوتا اور ابا جی گھورنے کی بجائے کہتے کيري آن، مفت مشورہ۔
اب نجانے شکاری شکار ہوا يا شير يہ تو اللہ جانے مگر جنگل کی بے چاری رعايا نتائج بھگتے گی۔
بھیا وسعت کیا آپ کے افکار نے وسعت پائی ہے ۔ آپ جس طرح سوچتے وسیع ہیں اسی طرح طرح وہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں اقتدار کو چھوڑنا پسند نہیں کر تے۔ پہلے کسی نے کیا چھوڑا ہے کہ اب یہ چھوڑے گا۔ بس مجھے تو دن بدن یہاں جینا اور سمجھانا مشکل نظر آتا ہے۔ ابھی تک ہم دہشت گردی اورقومی مفاد کی کوئی جامع تعریف نہ کر سکے۔ وردی نے مزید الجھا دیا۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ اعتدال پسند اور روشن خیال کیا ہوتے ہیں۔ اللہ سلامت رکھے۔
محترم وسعت اللہ خان صاحب
سلام و دعا کے بعد گزارش ہے کہ بھولا بسرا بچپن ياد دلا ديا آپ نے۔ مشاہدے کي داد ديتا ہوں۔ لبنان کي جنگ اور آزاد کشمير کے زلزلہ متاثرين کے حساس منظر کش کا يہ شوخ روپ بھي دل کو چھو کر گُزر گيا۔ نوجوان قارئين کي دلچسپي کے لئے ننھےمياں کے کردار کي وضاحت کي اجازت چاہوں گا۔
ٹيليويژن اور ويڈيو گيمز کي آمد سے پہلے ساٹھ کي دہائي ميں ’بچوں کي دُنيا‘ کے نام سے اُردو کا ايک ماہنامہ شائع ہوتا تھا جس ميں ايک سلسلہ وار کارٹون کہاني چھپتي تھي ’ ننھےمياں کے کارنامے‘۔ ننھے مياں تھےتو نيکر شرٹ اور چھتری کے ڈيزائن کی نوکوں والی ٹوپی پہنے، چھ سات برس کي عُمر کے ايک چھوٹے سے بچے ليکن کام ُہت بڑے بڑے کيا کرتے تھے مثلاً اپنے قد سے دو گنا بڑی دو نالی شکاری بندوق کندھے پر ڈالے اپنے ’انکلوں‘ کي معيت ميں شيروں کا شکار يا خطرناک مجرموں کا تن تنہا تعاقب وغيرہ۔
اُميد ہے اب بات واضح ہو چکی ہوگي۔
دعا و سلام کے ساتھ
اے رضا
واہ! وسعت اللہ صاحب مزا آگيا۔ مجھے يقين ہے کہ اگر ننھے مياں کے کارنامے چھپ گئی تو يہ بچوں کے ادب ميں ہيری پوٹر کا ريکارڈ بھی توڑ ڈالے گی اور يہ ہم پاکستانيوں کے لئ ننھے مياں کا ايک اور کارنامہ ہوگا۔
مزا آ گیا ہے۔ اس سے بہتر تبصرہ ہونا کافی مشکل ہے۔
اور آنکھ کھل گئی سب کچھ کھونے کے بعد مگر ابھی تک عقل سے پيدل۔
وسعت بھائی ننھے مياں کے کارنامے جو بھی رہے ہوں آپ کا انداز بيان اتنا زبردست ہے کہ دل چاہا وہی بچپن کے دن پھر لوٹ آئيں۔ کہانياں کہنے اور سننے والے اور سر فہرست يہی کہانی رہے تو کتنا اچھا ہو۔ کيا کريں کہ بس ايسی ہی گيدڑ بھبھکيوں سے بھر ديا ہے ہماری زندگيوں کو ہمارے ارباب اقتداروں نے۔ آپ کی کہانی کا سب سے دلچسپ حصہ وہی ہے جب آپ شير کا نشانہ لے کر پوری کوشش کرتے ہيں اپنی ہمت مجتمع کرنے کی۔ کاش کہ ہمارے بڑے مياں يہ ہمت کر ہی ڈاليں جيسے آپ نے کہانی ميں کر دکھائی ليکن ابا جان نے ہميں انجام نہيں سننے ديا۔ خير آغاز تو ہو ہی گيا ہے کہانی کا اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔ آپ نے باقی آئيندہ نہيں لکھا ہم پھر بھی منتظر رہيں گے کہ ہميں عادت ہے انتظار کرنے کي، کبھی اچھے وقت کی اور کبھی آئے ہوئے وقت کو دست بستہ ٹالنے کے لئے۔
اچھا ہے لگے رہيں، دعائيں
شاہدہ اکرم
آپ نے چونکہ ابھی آدھی کتاب پڑھی ہے اس ليے ميں اس کہانی کو بھی فی الحال نامکمل ہی سمجھوں گا۔ اميد ہے کہ پوری کتاب پڑھنے کے بعد آپ اس کہانی کا کوئی نہ کوئی نتيجہ ضرور نکاليں گے۔ ابھي 12 اکتوبر سے پہلے کي ورق گرداني کي ہے آپ نے ورنہ شير کا انجام ضرور لکھتے۔ ہوسکتا ہے يہ اصلی شير نہ ہو بلکہ محض انتخابی نشان ہے۔ معلوم نہيں شير اور ابا کا ذکر آپ نے شعوری يا لا شعوری طور پر کيا ہے ليکن ساری کہانی حقيقت کے قريب معلوم ہوتی ہے۔
’مچان کسے کہتے ہيں؟ ‘۔ جواب ميں عرض ہے کہ شکاري کسي بلند درخت پر اپنے ساز وسامان سميت بيٹھ کر، شير پر فائر کرنے کيلئے، ايک پليٹ فارم بنوا ليا کرتے تھے، جسے مچان کہا جاتا تھا۔
بچے اب انکل کي اس کہانی سے تنگ آئے ہوئے ہيں اور انکل نے اپنی بندوق کا رخ شير سے ہٹا کر بچوں کی طرف کر ديا ہے اور بچوں کو دھمکا رہے ہيں کہ انکی کہانی سنو ورنہ ۔۔۔۔