پھانسیوں کا سال
گزشتہ تین ہفتوں سے جب بھی لکھنے کا سوچتا ہوں کوئی بڑی خبر آن پڑتی ہے اور دھیان بلاگ کی طرف نہیں رہتا بلکہ کہیں اور چلا جاتا ہے۔ اس مرتبہ خبر تو ہے اور بڑی بھی ہے لیکن ارادہ کچھ زیادہ مضبوط نظر آ رہا ہے۔
ہوا یوں کہ دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں نے تو گزشتہ کئی سالوں سے دماغ اور دل کو ’ہائی جیک‘ کیا ہوا ہے اور سال کے آخری مہینوں میں یہ کچھ زیادہ ہی ہو جاتی ہیں لیکن حال ہی میں لگاتار ’پھانسیوں‘ نے پریشان کر دیا۔
تقریباً اٹھارہ سالوں سے پاکستان میں ایک لڑکا پھانسی کا پھندا گلے میں لیے موت اور زندگی کے بیچ لٹک رہا ہے۔ نام ہے اس کا مرزا طاہر حسین اور جرم اس کا عدالت کے مطابق قتل ہے۔ مرزا کا بیان ذرا مختلف ہے لیکن اس کی کوئی نہیں سنتا۔ بہت ساری اپیلیں رد کیے جانے کے بعد مرزا کا کیس جنرل پرویز مشرف کی ’عدالت‘ میں پیش کیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ مشرف صاحب اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ ویسے صدر نے آج تک کسی کی سزائے موت معاف نہیں کی۔
اس کے بعد ہمسایہ ملک ہندوستان میں افضل گورو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور ان کے گلے میں پھندا ڈالنے کی تاریخ مقرر ہوئی۔ افضل پر ہندوستانی پارلیمان پر حملے کا منصوبہ بنانے کا الزام ہے جس میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ کشمیر اور دلی میں احتجاج بھی ہوئے اور ان میں افضل کے ننھے منے بچے کے علاوہ کئی دانشوروں اور مختلف طبقۂ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔ افضل کی پھانسی بھی مرزا طاہر کی طرح ملتوی ہوئی اور وہ بھی انتظار کے کرب میں ہیں۔ ان کا معاملہ بھی ہندوستانی صدر اے پی جے عبد الکلام کے سامنے ہے۔
تیسری پھانسی صدام حسین کی ہے جنہیں 1982 میں شیعہ اکثریتی علاقے دجیل میں 148 افراد کی ہلاکت میں ان کے کردار پر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ صدام افضل گورو اور مرزا طاہر کی طرح ایک عام آدمی نہیں ہیں لیکن ان کے گلے پر پھندا عام آدمیوں جیسا ہی لٹک رہا ہے اور عراق کے وزیرِ اعظم نور المالکی چاہتے ہیں کہ انہیں اسی سال ہی پھانسی دی جائے۔
اسی طرح کی خواہشیں مرزا طاہر اور افضل گورو کے لیے بھی بہت سے لوگ رکھتے ہیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ ان میں سے کون اصل مجرم ہیں اور کون بے گناہ یا سسٹم کا شکار تاہم مجھے جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ کسی کو غصے اور جنگ میں مارنا اور ہے ہوش و ہواس میں کسی کو موت کی گھاٹ اتارنا اور۔ پاگل، جنونی اور ایک ہوش مند انسان میں یہ ہی ایک بنیادی فرق ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
عارف شمیم صاحب آپ ہمیشہ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ طاہر حسین کے سیلف ڈیفنس میں یا مقتول کے اپنی گولی سے ہلاک ہونے میں تضاد ہے۔ افضل گروو کو اپنے ملک میں دہشت گردی کے الزام میں پھانسی کا حکم ہوا اور صدام حسین کٹھ پتلی حکومت کی کٹھ پتلی عدالت کا نشانہ بنا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ کوئی معجزہ ان کی جان بچائے۔
عارف شميم صاحب کيا کريں ہر جگہ حالات نے انسان کو بے بس مايوس اور پريشان کر رکھا ہے۔ آپ پھانسيوں کی بات کرتے ہيں عراق اور فلسطين ميں تو پھانسی کی کہاں گنجائيش رکھی گئی ہے وہاں تو ہر دن لوگ مرتے ہيں اور ہر دن قيامت گزرتی ہے۔ ہند و پاک ميں جن لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ان پر کچھ تو الزام ہے مگر عراق ميں اور فلسطين ميں جو روز مارے جارہے ہيں وہ تو بے گناہ ہيں اور دنيا نے يہ بھی ديکھا کہ امريکہ نے اٹھارہ فلسطينيوں کی ہلاکت کے معاملے کی کس بے دردی سے اور کھلے عام دھجياں اڑا ديں۔ پھر آپ کن معاملوں پر افسوس کرنا چاہتے ہيں۔ اگر ايسے لوگ دنيا پر حکومت کرنے لگيں اور ظلم و ستم کا اس طرح کھلے عام مذاق اڑايا جاتا رہا اور ظلم کا ساتھ ديا جاتا رہا تو پھر اس دنيا کا اللہ ہی حافظ ہوگا ويسے ميں بتادوں کہ ہميں نہ ظلم کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی ظلم سہنے کي-
سجاد الحسنين، حيدرآباد دکن
شميم بھائی آج کا بلاگ پڑ ھا اور واقعی يہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں اور ميں کيا ہر صاحبِ دل کے لیے يہ بات دُکھ اور صدمے کا باعث ہی ہو گی۔ اگر کسی بے گناہ کو موت کی سزا ہو، موت جو بجائے خود ايک بہت بڑی حقيقت ہونے کے ساتھ انتہائی تکليف دہ بات ہے اور موت اپنوں کی ہو يا کسی دوسرے کی دُکھ کی بات ہی ہوا کرتی ہے۔ ليکن ہماری دُنيا کے قوانين کُچھ اس قدر عجيب و غريب ہيں کہ کوئی نہيں کہہ سکتا کون سچا اور کون جھُوٹا ہے، کون ،کس کا غُصّہ جھيل رہا ہےاور کون کس کی کس دشمنی کی بھينٹ چڑھا يا کسی سسٹم کی نظر ہو گيا۔ بات صرف اتنی ہے کہ جو بھی ہوتا ہے ہميں اُس معا ملے کی اور اُس کے بعد کے معاملات کی کبھی بھنک بھی نہيں پڑتی کہ جو ہُوا وہ کيا تھا؟ اور جو ہو نے والا ہے اُس ميں کتنی سچائی ہے ،آنکھيں بند کر کے ايمان لانے کو جی نا چاہنے کے باوجود اور کوئی چارہ نا پا تے ہوئے کبھی کبھار بے گُناہ کو گُناہ گار سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہيں اور کبھی گُناہ گار کو گُناہ گار نا ہوتے ہوئے بھی لعنت ملامت کر جاتے ہيں، کون جانے يہ سسٹم کب تبديل ہو گا کہ ہم سچ اور جھُوٹ کے درميان کی باريک لکير کو سمجھ سکيں، بہت غور و خوض کے بعد بھی جب انسان کو يہ بات سمجھ نا آئے تو آنکھ بند کر کے صرف اور صرف اُس ذات پر بھروسے کرنا چاہيے جو صحيح راہ دکھاتی ہے اندھيرے ميں کبھی روشنی کی کرن بن کر،اور کبھی چھوٹے سے جُگنو کی صورت۔ اب يہ دُکھ افضل گورو کی پھانسی ہو، صدام حُسين پر لگاۓ گئے اُن الزامات کی فہرست ہو جو اگر دُنيا کے کسی اور بڑے پر لگائے جائيں تو نا جانے کتنی پھانسيوں کا بيک وقت سزاوار ٹھہرے، يا پھر مرزا طاہر کے وہ اٹھارہ سال جو اُنہوں نے کردہ يا شايد نا کردہ جُرم کے جواب ميں کاٹے جبکہ عُمر قيد کی معياد تو چودہ سال ہوتی ہے تو کس کو الزام ديں سسٹم کو يا پتہ نہيں کس کو۔ يہ تو کوئی نہيں بتا سکتا ہم کوئی نجومی ہيں کيا؟
بس دُنيا کے رنگ ديکھتے ہيں اور سوچتے ہيں کونسا رنگ زيادہ خوبصورت ہے يا بالکل بے رنگ؟ وہ جس سے ہم لا علم ہيں۔
درست لکھا آپ نے يہ سال پھانسيوں کا سال لگتا ہے مگر يہ پھانسياں شايد کسی جُرم کی سزا ہے۔ بھلے ہميں ان پھانسيوں سے اختلاف ہو ، مقدمے سے متعلق شکوک وشبہات ہوں، انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کی شکايات ہوں مگر ان لوگوں کا کيا جائے جو بے جرم و خطا ، کبھی غربت سے ، تو کبھی بے روزگاری سے، تو کبھی عصمت دري کی بدنامی سے بچنے کے لیے، کبھي بيماري سے تھک کر ، علاج نہ کروا سکنے کي ہمت نہ ہونے کے سبب ، تو کبھي ذات برادري کے سخت اصولوں کے سبب اپني مرضي سے جيون ساتھي کا انتخاب نہ کرسکنے کے سبب خود کو کبھی آگ کے حوالے کرتے ہيں ، تو کبھی خود کو پھندا لگا کر تمام غموں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہيں ، تو کبھی خود کوسمندر کے حوالے کرتے ہيں اور کبھی حلق سے زھر کو اتار کر زندگی کا بوجھ اتار ديتے ہيں ۔۔!
انہيں کس عدالت نے سزا سنائی؟ ان کا مقدمہ کہاں چلا ؟ ان کا قصور کيا تھا؟ انہوں نے موت کو کوئی اپنا مسيحا سمجھا انہوں نے کيوں اپنے عذاب و کرب کے لیے اسے پيغامِ شفا سمجھا اور انہوں نے اپنے لیے پھانسی کی سزا منتخب کر کے اس پھانسی کو امرت سمجھا؟
شايد ہم ان سوالوں کا جواب نہيں دے سکتے يا پھر دينا ہی نہيں چاہتے۔
عارف صاحب کہتے ہيں کہ مرزا کا بيان مختلف ہے مگر کوُی اسکی نہيں سنتا- يعنی کورٹس بشمول سپريم کورٹ نے اسے صفائی کا موقع نہيں ديا- بہتر ہوتا کورٹس سے اپنی مرضی منوانے کی خواہش کے اور مجرموں کو مظلوم کہنے کے بجائے عراق فلسطين اور افغانستان کے مظلوموں کے لیے آواز اٹھائیں۔
اگر ان لوگوں کو معاف کر ديا جائے تو مزيد ہلاکتيں ہونے سے اور مزيد تباہی سے بچاؤ ہوگا- صدام لاکھ برا سہی مگر اسکے ساتھ بھی انصاف ہوتا ہوا نظر نہيں آرہا۔ صدام اور افضل گورو کو سياست کی بھينٹ چڑھايا جا رہا ہے- طاہر کے ساتھ بھی نرمی کی جائے تو مقتول کے خاندان کو اس کا صلہ خدا ديگا۔
آپ نے حالات وواقعات کی نزاکت کو سمجھتے ہو ئے بڑا ہی اچھا بلاگ لکھا ہے - اور اتفاق کی بات يہ ہے کہ ميں نے بھی آج ہی اس اہم موضع پر اپنا کالم بھی لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’ سزائے موت کا اصل حقدار کون ! بش يا صدام‘۔ سزائے موت، پھانسی، اور خود سوزی يا اپنی جان لے لينا الگ الگ ہيں - بعض بے گناہوں کو بھی جھوٹی شہادتوں کی وجہ سے سزائے موت ہو جاتی ہے - مگر لمحہ فکريہ تو يہ ہے کہ جو لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے ليتے ہيں يا بھوک افلاس ، بے روزگاری سے اپنے ہی لخت جگر کو قتل کر ڈالتے ہيں - اصل ميں تو اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومتيں روزانہ سينکڑوں قيمتی جانيں ضائع ہونے پر تو فکر مند نہيں ہيں ، مگر افضل گرو ، صدام اور مرزا طاہر جيسے لوگوں کو بچانے کيليے خاصی حرکت ميں ہيں اور صدر مشرف بھارتی وزيراعظم کو فون کرتے ہيں ۔ اور يورپی يونين والے صدام کو موت سے بچانا چاہتے ہيں - کبھی کسی نے کابل اور بغداد کی سڑکوں پر سينکڑوں قيمتی جانوں کو بچانے کی بھی فکر کی۔
عراق اور افغانستان ميں لاکھوں بے گناہوں کا جو خون بہايا گيا کيا ان کے قاتلوں کے خلاف بھی مقدمہ چلے گا اور سزا بھی ملے گی اور کب؟
ويسے تو سب کو ايک دن مرنا ہی ہے اور موت کا دن اور وقت بھی معين ہے۔ ليکن وہ موت جس کادن اور وقت انسان مقرر کرتے ہيں اور رسی کے پھندے يا تلوار يا پھر زہر کے ٹيکہ سے سے آتی ہے کا نام ہم نے سزا رکھ چھوڑا ہے اور يہ انصاف کی ايک قسم ہے- پھانسی کو ہم انصاف کہتے ہيں ليکن پتہ نہيں کيوں انصاف پہ عملدرآمد کرنے والے کو ہم نے جلاد کا نام دے رکھا ہے- اب تک ہم کتنا ہی انصاف کرچکے ہيں ليکن پتہ نہيں امن کيوں نہيں ہو رہا۔ ضرور کچھ خرابی ہے۔ شايد ہم انصاف ہی چاہتے ہيں اللہ کا اجر نہيں۔
آپ جو مرضی کہو جو ہو نا تھا وہ ہو گيا۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔