تم اپنی کرنی کر گزرو
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جائےگا
ابھی مرزا طاہر حسین کی جاں بخشی کی خوشی پوری طرح منائی ہی نہ تھی کہ ساتھی صحافی دلاور خان وزیر کی گمشدگی نے پریشان کر دیا ہے۔ پتہ نہیں اس کے گھر والے کس قدر کرب میں ہوں گے۔
یہ کس قسم کا پیغام ہے۔ اور یہ کون کسے دینا چاہتا ہے۔ اگر یہ صرف صحافیوں کے لیے ہے تو کیا ابھی خبریں بند کر دی جائیں۔ وہ خبریں جنہیں نہ حکومتی ایجنسیاں سننا چاہتی ہیں اور نہ حکومت مخالف شدت پسند۔
دلاور خان وزیر کہاں ہیں اور انہیں کیوں اٹھایا گیا ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا۔ یہ ان کا وہ بدقسمت بھائی بھی نہیں جانتا جو آخری بار ان سے ملا تھا اور جو پہلے ہی ایک بھائی کی موت کا صدمہ برداشت کر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دلاور کو یہ سزا کیوں ملی۔ کیا انہیں یہ سزا بی بی سی کے لاپتہ لوگوں پر پروگرام کرنے کی وجہ سے ملی ہے یا پھر یہ اس خصوصی رپورٹ پر جو انہوں نے حال ہی میں باجوڑ کے مدرسے پر حملہ کے بعد بی بی سی کے لیے کی تھی۔ اس رپورٹ میں انہوں نے حکومت کے دعووں کو بھی غلط ثابت کیا تھا کہ مدرسے میں چھوٹے بچے نہیں تھے۔ دلاور نے مدرسے کے محل وقوع اور عمارت کے سائز کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ایسا کہیں بھی نہیں لگتا کہ اس عمارت کو دہشتگردی کی تربیت کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’ایک تو مدرسہ آبادی کے بہت نزدیک ہے جبکہ قبائلی جنگجوؤں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آبادی سے ہٹ کر تربیتی کیمپ لگاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس عمارت میں اتنی جگہ ہی نہیں کہ 80 افراد تربیت حاصل کر سکیں‘۔
جب چند ماہ قبل جب ہم ملک میں لاپتہ لوگوں کی فہرست تیار کر رہے تھے تو ہمارے علم میں بھی نہیں تھا کہ ہم اپنے ہی ساتھی کے متعلق یہ لکھ رہے ہوں گے۔ اس وقت ہمیں سینکڑوں نام بھیجے گئے تھے لیکن ان میں سے حتمی تصدیق صرف چالیس پچاس لوگوں کی ہو سکی۔ ہم نے اس پر پروگرام بھی کیا اور شاید اس کا کوئی فائدہ بھی ہوا ہو۔ کئی لاپتہ لوگوں کو ظاہر کیا گیا لیکن حکومتی سطح پرنہ اس پر کوئی شرمندگی ظاہر کی گئی اور نہ کوئی تشویش۔ بس یہ بتایا گیا کہ ان لوگوں کو فلاں فلاں الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کے متعلق کیوں نہیں بتایا گیا یہ بیان کرنا حکومتی بادشاہوں نے گنوارا نہیں کیا۔
اب دلاور لاپتہ ہیں۔ خدا کرے کہ اس مرتبہ بھی ہمارے لکھے ہوئے کا کچھ فائدہ ہو اور دلاور کو ظاہر کر دیا جائے۔
حکومت یہ ضرور کہہ رہی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ دلاور کہاں ہیں لیکن یہ نہیں کہہ رہی کہ دلاور ان کے پاس ہیں۔
میں دلاور کی طرح بہادر نہیں ہوں کہ اتنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی اس خطے کی رپورٹنگ کرتا رہوں جہاں سب کو خوش کر نا صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی۔ صحافی حیات اللہ کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔ ابھی تک ان کے قاتلوں کا سراغ تک نہیں ملا۔
دلاور تم نام کے سچے ہو۔ جیتے رہو۔
تبصرےتبصرہ کریں
خدا آپ کو اور تمام سچ لکھنے والوں کو اپنی پناہِ خاص ميں رکھے ۔ مگر مجھے يقين ہے کہ جناب دلاور خان وزير يقينی طور پر دلاوری دکھائيں گے اور کامياب ہوں گے اور ميں سمجھتا ہوں کہ دلاور اگر غائب ہوئے ہيں تو کچھ ڈھونڈنے کو غائب ہوئے ہيں اور ہم سب کو يہ پيغام دے رہے ہيں کہ ۔۔
دوستو ! آؤ زندہ رہيں ہم عزم و يقين سے جب تک سانسيں آئيں جائيں
دوستو ! آؤ بھوبھل ميں چنگاری ڈھونڈيں
آؤ خزاں کی زرد پتاور ميں جو دفن ہوئی وہ نکہتِ باد بہاری ڈھونڈيں ۔
دوستو ! آؤ اپنی انا کا ملبہ کھوديں
آؤ چٹختی دھرتی ميں ، جو اشکوں سے سيراب ہوئی ہے
اميدوں کے موتی بو ديں۔
دوستو ! آؤ خون آلود زمين سے پُھول اُگانا سيکھيں
آؤ محنت اور لگن سے جينا سيکھيں ، عزت سے مرجانا سيکھيں ۔۔
ميری دعا ہے کہ خداوند کريم جلد ہی جناب دلاور خان وزير کو اپنوں سے ملوائے اور وہ جہاں بھی ہوں باخيريت ہوں ۔۔
۔۔آخر ميں اس پيغام کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔۔
’صرف چلتے رہنے سے تو بات نہيں بنتی کيونکہ جو شخص راستے سے بھٹک جاتا ہے وہ بھي تو چل رہا ہوتا ہے۔
ڈر لگ رہا ہے يہ لکھتے ہوئے کہ پاکستانی حکومت کی خفيہ ايجنسياں مکمل طور پہ lose cannon ہو چکی ہيں اور اب ان کو لگام دينے کوئی نہيں رہا -
عارف صاحب ! آپ کے ساتھ کہيں ميں بھی نہ اُٹھا ليا جاؤں۔
تسليم عارف نے خوب کہا تھا
آ سمانوں سے جو فر شتے ا تارے جائيں
وہ بھی اس دور ميں سچ بوليں تو مارے جائيں
اسلام و عليکم بھائي عارف شميم صاحب خدا کرے دلاور خان وزير اپنے گھر والوں کو تندرستی کی حالت ميں مليں اور حضرت يونس کی طرح آدم خور کی گرفت سے بچ جائيں- اندھير نگری کے وزير مشير سب ہی بے حس وبے ضمير ہوتے ہيں۔ جہاں جرنل ايوب کا بيٹا اور پوتا وزير بن جاۓ ضيا کا بيٹا وزير ہو اس قوم کی بے حسی کا اور کون ٹيسٹ ہے جو ہونا باقی ہے۔ ضمير کی خلش والا سابق وزير بھٹو اور اکبر بگٹی کی طرح انجام کو پہنچتا ہے يا جاويد ہاشمی اور سينکڑوں کی طرح پابند سلاسل ہوتا ہے۔ دلاور خان کہ باريش تھے وزيرستان کے تھے اور وطن پرست سچے رپورٹر کہيں ظالموں نے 5000 ڈالر دينے والوں کے سپرد نہ کر ديا ہو۔
شميم صاحب کربناکيوں کی يہ داستاں کب ختم ہوگی يہ کوئی نہيں کہہ سکتا۔ کل ہی کی تو بات ہے انڈونيشيا ميں زبردست مظاہروں کے باوجود امريکی صدر اسلامی شدت پسندی اور اسلامی نظريات پر ريمارک کرنے سے باز نہيں آئے۔ حيرت کی بات تو يہ ہے کہ بش اسلامی نظريات پر جمہوری نظريات کو فوقيت دے رہے تھے اور ان کا دعوی تھا کہ اسلامی ملکوں کے سربراہان ان کے اس دعوے سے اتفاق کرتے ہيں۔ اب يہ کن سربراہوں کی بات تھی يہ تو ہم نہيں جانتے مگر جنرل مشرف کی باتيں سنو تو لگتا ہے کہ وہ بش کی باتوں سے پوری طرح اتفاق کرتے ہيں يا پوری طرح حصار ميں ہيں۔ ورنہ باجوڑ کے بعد متنازعہ فوٹيج دکھا کر معاملے کو دبانے کی کوشش نہيں کی جاتی اور حقائق کا پردہ فاش کرنے والے جيالوں کو اس طرح غائب نہيں کيا جاتا۔ اگر پاکستان ميں بھی ايسا ہوتا رہا تو پھر عراق اور پاکستان کی سيکيورٹی صورتحال ميں کيا فرق رہ جائے گا۔ ايک جانب ايسی وارداتيں ہوتی ہيں اور دوسری جانب حدود بل جيسے معاملوں پر حکمرانوں کے جو بيان آتے ہيں وہ گويا يہ باور کرانے کی کوشش ہوتی ہے کہ
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا/ کافر يہ سمجھتا ہے کہ مسلماں ہوں ميں۔
صرف ايک سوال ہے۔ جو مشرف مرزا طاہر کو رہا کرنے پر مجبور ہوگيا کيا وہ دلاور کو قيد رکھ سکتا بغير ٹونی اور بش کی آشير باد کے؟
ميرے اس سوال ميں وہ لائين موجود ہے جس پر چل کر آپ دلاور کو رہا کروا سکتے ہيں۔ ورنہ کسی بڑی خبر کے منتظر رہئے۔ مگر سمجھ ليجئے کہ يہ مشرف کی کارروائی نہيں ہے- وہ تو حکم کاغلام ہے۔
شميم بھائی حيرت ہے آپ کو ابھی بھی يہ سمجھ نہيں آیا يا آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے ر ہے ہيں يہاں جو سچ کو سچ کہنے کی جُرات کرتا ہے يا مار ديا جاتا ہے يا غائب کر ديا جاتا ہے يہ آج کی دنيا کے زمينی حقائق ہيں سو
جس کو ہو جان و دل عز يز
اُس کی گلی ميں جاۓ کيوں۔
ليکن کُچھ لوگ ہو تے ہيں ايسے آفت کے مارے جو اپنا سب کُچھ اپنی ہتھيليوں پر لیے پھرتے ہيں پھر خواہ وہ جان ہی کيوں نا ہو،ليکن جو خود پر گز رتی ہے وہ تو انسان بھگت ہی ليتا ہے پيچھے والوں کی پريشانی کا اندازہ لگانا بہت مشکل بات ہے جو ہر دم جيتے ہر دم مرتے ہيں۔ کاش کہ يہ ايجنسياں انسانوں جيسے دل اور درد رکھتيں اور انسان کا درد سمجھتيں۔ دلاور وزير صاحب خير خيريت سے گھر واپس آ جائيں لا پتہ لوگوں کا پتہ کرنے والے کو اپنے گھر کا راستہ مل جاۓ
(بی بی سی کی وساطت سے ايک دعا کی درخواست کرنا چاہتی ہوں۔ پنجابی ميں خالہ کو ماسی بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب امّی نے بتايا تھا ماں سی اور ماموں يعنی ماں کا منہ مُجھے ايمرجينسی ميں کل اپنی ماں سی کی شديد بيما ري کی وجہ سے جانا پڑ رہا ہے آپ سب بہن بھائيوں سے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالٰی ميری خالہ کو صحت اور تندرستی والی طويل زندگی عطا کرے اور ہم اُن کی محبتيں طويل عرصے تک وصول کريں۔
سيد رضا صاحب آپ نے سچ ہی کہا تھا۔ دلاور صاحب شايد کچھ ڈھونڈنے کے ليے غائب ہوئے تھے۔ اب وہ اللہ کے فضل سے باز ياب ہوچکے ہيں۔
عارف صاحب آپ حضرات کی تحريريں اور سب کی دعائيں کام آئيں اور دلاور بھائی باخير و عافيت بازياب ہوگۓ۔
مجھے يقين ہے کہ آپ لوگوں کی سچی لگن و شديد احتجاج اس بازيابی کا سبب ہے نا کہ پرنس چارلز اور بلئير کا فون۔
کچھ ربط زمانے سے ذيادہ نہيں رکھتا
ميں اپنے سوا اپنا حوالہ نہيں رکھتا
دلاور صحافي مل گيا مگر دوسرے دلاور جو صحافی نہيں ہيں ان کا کياہوگا۔
بھائی عارف شميم صاحب مبارک ہو آپ کے اور آپ کے ساتھيوں کے شور و غل سے دلاور کی رونمائي کی خوشخبری ملی۔ اللہ آپ سب کو ہميشہ بخيريت رکھے۔ آمين۔
محترم عارف شميم صاحب!
پنجابی زبان ميں ايک ضرب المثل ہے کہ ُ بھيڑيا جب بہت بھوکا ہو تو سب سے پہلے اپنی کھوہ (کھُڈ) کی تلاشی ليتا ہے، مطلب کہ شديد بھوک کے عالم ميں وہ اپنے بچوں کو بھی معاف نہيں کرتا - اور عموما اسطرع کی ضرب المثال انسانی فطرت کی عکاسی کے ليے سالوں کے غورو فکر کے بعد وجود ميں آتی ہيں۔ ميں جانتا ہوں کہ ميرے تبصرے تلخ حقيقتيں بيان کرنے کی وجہ سے بی بی سی کے مروجہ معيار پہ پورا نہيں اترتے اور بہت سے لوگ ان سے شاکی ہيں ليکن اگر لکھنے والا اپنے من کی بات نا لکھ سکے تو اسے لکھنا ہی نہيں چاہئيے اس کليے کو مدِ نظر رکھ کر يہ رائے بھی لکھ بيجھ رہا ہوں - اور اسی کليے کی وجہ سے مقتول و مغفور حيات اللہ جان سے گئے اور دلاور خان کی گمشدگی اور بی بی سی ، صحافی تنظيموں ، اور دوسرے کارآمد دباؤ کی وجہ سے بازيابی اور تمام پريشانی و خوف محض سچ لکھنے، سچ کہنے کا نتيجہ ہے اور دلاور صاحب خوش قسمت ہيں کہ انکی اپنے اہلِ خانہ ميں واپسی ممکن ہوگئی ہے آپ اندازاہ کريں ان لوگوں کا جن کے چاہنے والے اپنے گھر سے شام کو واپس آنے کا کہہ کر کے گئے اور اہلِ خانہ کو انکو دوبارہ ديکھنا نصيب نا ہوااور انکے انتظار ميں انکی آنکھيں پتھرا گئی ہيں اور اُنکا کا قصور صرف اپنے ملک سے اور اپنے دين مذہب اسلام سے محبت تھا۔ جاويد گوندل ، بآر سيلونا۔ سپين
شاید آپ يقين نہ کريں ليکن مجھے دلاور خان وزير کي جلد بازيابی ميں کوئي شک نہيں تھا۔ وجہء يقين اُن کا بي بي سي سے تعلق ہے جو پاکستان جيسے ملک ميں خود ان کےتحفظ کا ضامن ہے۔ حکومت پاکستان کي جرات ہي نہيں ہو سکتي انہيں ہاتھ لگانے کي۔ محض دھمکانا بھي مقصد گمشدگي نہيں ہو سکتا کہ دلاور وزير اپنے ادارے کي پاليسي کے پابند ہيں اور اپني مرضي سے کُچھ نہيں کر سکتے۔ تفصيلات کی عدم موجودگی ميں، راقم الحروف کا خيال ہے کہ وجہ ء گمشدگي ان پر کسی اہم مطلوب شخصيت سے رابطے يا ملاقات کے شُبے ميں، بذريعہ پُوچھ گچھ، کوئی جيک پاٹ ہاتھ لگنے کی اميد ہو سکتی ہے۔
مبارک ہو دلاور خان بازياب ہو گۓ ہيں اگر بروقت ان کے لا پتہ ہونے پر تشويش ظاہر نہ کی جاتی تو حيات اللہ والا دردناک حال نہ ہوجاتا کہيں۔ اللہ سارے صحافی بھائی بہنوں کو اپنے امان ميں رکھے۔
چلیے، تازہ خبر يہ ہے کہ الحمدُللہ دلاور خان وزير بقيدِ حيات واپس پہنچ گئے۔ بی بی سی اور دلاور خان کے گھر والوں کو بہت بہت مبارک ہو۔ بی بی سی نے اپنے رپورٹر کے اغوا ہونے کا جس انداز ميں نوٹس ليا اور جو ھنگامہ کھڑا کيا وہ قابل صد ستائش ہے کہ کسی نے تو خفيہ ايجنسيوں کے نکيل ڈالنے کی کوشش کی اور کم از کم ايک فرد کی حد تک ہی سہی، کامياب تو ہوئے۔ کاش ايسا ہی ہنگامہ حيات اللہ کے اغوا کے وقت بھی برپا کيا جا سکا ہوتا، شاید وہ بھی اس شور شرابے کی بدولت آج زندہ ہوتا۔
لو جی آپ کا بندہ واپس آگیا ہے ۔ مبارک ہو۔ بی بی سی ایک بڑا نام ہے کہ واویلا کرنے سےآپ کے بندے کی جان بچ گئی آگر ہم جیسا کوئی پھنس جاتا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہونا تھا۔