کاش اب قیامت آ جائے
کیا دنیا میں انسانیت ختم ہوچکی ہے؟ انسان مرگیا ہے؟ اخلاقی قدریں مٹ چکی ہیں اور ہم واپس وحشی ہوگئے ہیں؟ اپنے معاشرے کی گھناونی حرکتیں دیکھ کر کیا ایسا نہیں لگتا کہ دور جاہلیہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے؟
کیا ہم اسی معاشرے کے فرد ہیں جس میں تین سالہ بچی کو پنتالیس برس کے مرد کے نکاح میں دیا جاتا ہے؟ ہم ذہنی بیمار ہو چکے ہیں۔ ہماری آنکھیں ناپاک ہیں اور ہمارے دل گندہ ہوگئے ہیں۔ کیا یہ اچھا نہیں کہ ہم سب گندے گٹر میں ڈوب مریں؟
ہم دور قدیم کے باشندوں کی دل دوز داستانوں پر ہمیشہ رونا روتے ہیں لیکن کیا اس کا خیال کبھی آیا کہ ہماری ایسی داستانوں پر اگلی نسلیں ہم پر تھوکیں گی؟ کاش اب قیامت ہی آجاتی۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
بی بی يہ تو کچھ بھی نہيں، ايک بھارتی ٹي وی چينل کا پروگرام crime reporter جسکا سلوگن ہے ”چين سے سونا ہے تو اب جاگ جاؤ” جس ميں ايسے ايسے ہوشربا جرائم رپورٹ ہوتے ہيں کہ جسکو ديکھنے کے بعد انسانيت کی پستی کی تمام حديں پار ہو جاتی ہيں اور انسانيت سے کرائت محسوس ہوتی ہے،
جی بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ یقیناً ایک تین سالہ بچی کا نکاح ایک پختہ عمر سے کرنا ایک وحشت ناک حرکت ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ساری دنیا میں وحشیت و بربریت کا دور دورہ ہے۔ عراق اور افغانستان میں بے گناہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ایک حادثے کا شکار ہوکر جب برطانیہ میں ڈیون پورٹ کے قریب ایک بحری جہاز آن لگا تو مہذب دنیا کے لٹیرے پورے ملک سے امڈ امڈ کر آئے اور لوگوں کا سامان چرانے لگے۔ کاش ان واقعات کی طرف بھی نگاہ کرم اٹھے۔
نعيمہ صاحبہ آدمی نے اپنا صرف جسم ڈھانپا ہے باقی اندر تو وہی جانور ہے نا، کہتے ہيں آدمی نے بڑی ترقی کی ہے (ميں انسان کا لفظ استعمال نہيں کروں گا) ميںکہتا ہوں آدمی وہی ہے صرف ارد گرد کا ماحول تبديل ہوگيا ہے، آدمی نے اپنے انجام کا خود ہی سامان کر ليا ہے يہ خدا کو زحمت کرنے نہيں ديں گےـ
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ اسلام عليکم!اللہ تعالی آپ کو صحت کاملہ عطا کرے - آپ جب بھی لکھتی ہيں بہت ہی اعلی لکھتی ہيں - آپ نے عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا ہے- اور مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ہے - واقعتا جس تيزی سے ترقی ہو رہی ہے ، جديد سائنس نے جہاں انسانوں کو نت نئی آسائشيں اور آسانياں دی ہيں وہيں موت حاصل کرنا بھی آسان تر ہو گيا ہے -اب لوگ انٹر نيٹ اور ميڈيا پر جو کچھ ديکھتے ہيں اس کو اپنی زندگی ميں اپنانا چاہتے ہيں- چونکہ آجکل کے معاشرے ميں جنسيات ايک اہم موضع ہے اور اس وجہ سے ہمارے معاشرے ميں جنسی مريضوں کی تعداد ميں بہت اضافہ ہو چکا ہے - ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے - اور اس کيلئے وہ تمام حدود قيود کو کراس کرنا چاہتا ہے - تہذيب و تمدن کا جنازہ نکل چکا ہے - انسان درندگی کا اعلی نمونہ بن چکے ہيں - انسانيت ختم ہو چکی ہے - اور کسی مدد گار کی مدد کرنا تو جيسے گناہ بن چکا ہے - مگر ان تمام تر حقائق کے باوجود بھی کچھ لوگ ايسے ہيں کہ جن کی وجہ سے يہ دنيا قائم ہے - اللہ ان کو سلامت رکھے -
انٹرنيٹ اور سيٹلائيٹ ٹيليويژن کے اِس دور ميں سِمٹ کر عالمي گاؤں بن چکي اِس دنيا ميں آج انہی حرکتوں کے باعث دو کوڑی کی عزت نہيں رہي ہماری ليکن خود فريبي کي انتہا ہے کہ کمال بےشرمی سے آنکھيں بند کۓ پڑے ہيں کہ کون ديکھ يا سُن رہا ہے -
جب آپ میں اور باقی سب چپ ہیں اور جو کچھ کر سکتے ہیں وہ نہیں کر رہے تو پھر آپ کی بات سچ ہے ۔ ۔ ۔ آپ کے پاس اگر “تپڑ“ نہیں ہے کچھ کرنے کی تو پھر یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کچھ باتیں ڈیفالٹ ہوتیں ہیں انہیں کہنے کی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی
دنيا کی موجودہ صورتحال کو ديکہتے ہوۓ تو يہی کہا جا سکتا ہے کہ دنيا سے انسانيت ختم ہو چکی ہے - کاش اب قيامت ہی آجاتی
عبدالرحيم فريدی
دوحہ قطر
ايک ايسی خبر يقينا افسوس ناک- ايسا عمل گھناونا ہے-ليکن جب تک اس کی مذ مت کر نے والا ايک فرد بھی مو جود ہے دنيا کو با قی رہنا چاہيے -قيا مت پر حق ہے- ليکن ايسے واقعات کو روکنے کے لےء ہم سب کو ملکر کا م کر نا ہو گا - نہ کہ ہم قيا مت کی دعا کر يں - ايسا کر نا شر کی کاميابي ہے نہ کہ نيکی کي- سرور برلن
نعيمہ جی اور قيامت کيا آۓ گی اور کب آۓ گی ؟ جس دن آج کے معاشرے کی غلا ظتوں ميں اس بچی نے آنکھ کھولی قيامت تو اُس کے لۓ اُسی دن آ گئ تھی سُورج بس سوا نيزے پر نہيں آيا اور اگر نہيں آيا تو کيا ہُوا؟ کيونکہ وہ بھی تو مُزکّر ہے؟ مردوں کے اس معاشرے ميں يہ کوئ ايسی انہونی يا انوکھی بات نہيں ،حالانکہ اصولي طور پر اگر مردوں والي بات ہو تو 45سال کے انکل کو اپني بچي سے بھي کم عُمر کے ساتھ نکاح کرتے ہُوۓ کُچھ تو سوچنا چاہيۓ تھا ليکن کيوں؟ سر پر رکھی پگڑی ٹوپی يا شملہ اُونچا رہے ناک اُٹھی رہے بس اور کيا چاہيۓ ؟جن چيزوں ،جن قبيح حرکتوں اورفضوليات کے خاتمے کے لۓ اسلام آيا تھا وہ سب کُچھ تو ابھی بھی اُسی طرح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے آج بھی عورت کو اجناس کی طرح ہی استعمال کيا جا رہا ہے ،تمہارا يہ نقصان ہو گيا يہ والی جنس لے لو اس جنس کا کوئ نام نہيں عورت ہے کوڑيوں کے مول ہے ،آپ کا بيٹا مرگيا ہے يا مار ديا گيا ہے کوئ مسئلہ نہيں يہ ميری بيٹی لے لو بيٹی نہيں ہے تو بھتيجی لے لو، مُجھے چھوڑ دو پليزکيونکہ ميں مرد ہوں ويسے تو ہر بات ميں اپنی بات رکھنا بہت مُجھے بہت پسند ہے ليکن خواہ سزا کے طور پر ہی کيوں نا ہو ميں اپنی ناک نيچی نہيں رکھ سکتا سو ايسے سمے پر ميں کسی بھی قسم کی قُربانی دينے يا لينے سے انکاری نہيں ہوتا ،کيا کروں مرد ہوں اور مردانہ صفات ميں سرِ فہرست مرد کی انا يا male ego ہی ہُوا کرتی ہے سو دُکھی نا ہوں نعيمہ جی کہ قيامت آنے يا نا آنے سے کسی کو بھی کوئ فرق نہيں پڑتا، ہم اور آپ خوامخواہ دُکھی ہوتے رہتے ہيں دُ نيا کو ہمارے دُکھی ہونے سے کوئ مطلب نہيں قيامت کو بھی اپنے وقت پر ہی آنا ہے ہمارے کہنے سے کوئ رُک نہيں جانے والی بس دُعا کيا کريں دُنيا کی بھلائ کے لۓ ،انسانوں اورانسانيّت کی بقا کے لۓ
دعاگو
شاہدہ اکرم
محترمہ!صرف ایک سوال۔۔۔ہمیں سداگلاس آدھا خالی ہی کیوں دکھائی دیتا ہے؟
سدا آدھا گلاس خالی ہی دکھائی دينے کا گِلہ کر رہے بھائی صاحب اگر زيرِگفتگو موضوع پر اپنے نصف بھرےگلاس کي وضاحت بھي فرما ديتے تو مُجھ جيسے کئی کج فہموں کا بھلا ہو جاتا -
شاد خان کی بات سے ميں اتفاق کرتا ہوں مگر اسد مصطفی کا سوال ميرے لیے ايک معمہ ہی رہے گا
قيامت کا اک دن مقرر ہے
نيند کيوں رات بہر نہيں آتی
نعیمہ صاحبہ، آداب
اب اور کيا قيامت آئے گی؟
غم زدہ
سيد رضا
پياری اور نہايت محترم بہن نعیمہ صاحبہ۔ معاشرے کے مکروہ چہرے سے منافقت اور ريا کاری کا نقاب اٹھانے پر شکريہ۔
نيک دل انسانوں واسطے ايسی خبريں قيامت سے کم درجہ نہیں ہوتی ہيں۔ اللہ آپ کا نگہبان ہو۔