| بلاگز | اگلا بلاگ >>

وردی شیر کی کھال

حسن مجتییٰ | 2007-03-03 ،11:58

آج کل پاکستان کی وردی والی سرکار یعنی جنرل پرویز مشرف ایک سے ایک کاسٹیوم پہنے جلسوں سے خطاب کرتے دکھائي دیتے ہیں۔
20070301003738mush_sind203.jpg

کہیں وہ سندھی ٹوپی پہنے پٹواری پروڈکشن ٹائپ لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں بلوچی دستار پہنے سبی کے میلہ مویشیاں میں بلوچ قوم پرستوں کو اپنی مرغوب دھمکیاں دیتے ہیں۔

مانا کہ ہر گیدڑ کا ایک دن ہے لیکن پاکستان جیسے جنگل میں وردی شیر کی کھال ہوتی ہے۔ اوپر خدا اور نیچے جنرل والا حساب۔

ان کے ان دنوں ایسے اندرون ملک دوروں کو جلنے والے انتخابی مہم کا نام دیتے ہیں جبکہ ان کے مصاحبین اسے عوامی رابطے کی مہم بتاتے ہیں۔ جب سے ایوان صدر میں کمپیوٹرز پر جنرل رفاقت کی رفاقت سے مثبت اور مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں، ارباب کی تھری لکڑ تار سے لاڑکانہ سے بینظیر بھٹو کو ہرایا جا سکتا ہے تو پھر انہیں انتخابی مہم کی کیا ضرورت ہوگی بھلا! وہ تو روشنخیالی اور اعتدال پسندی کا پیغام گھر گھر پھیلانے نکلے ہوئے ہیں۔

وہ صبح سکھر شام سرگودھا والے طوفانی دوروں پر ہیں۔

پنجاب میں سر پر وہ اچا شملہ رکھے یادگار پاکستان پر تقریر کر رہے ہیں تو کہیں سواتی ٹوپی پہنے تو کہیں خان ملک کے کاسٹیوم میں دنبوں کے جوڑے کا تحفہ وصول کر رہے ہیں۔ وہ خطابت میں میسولنی، ہٹلر، بھٹو اور عطاءاللہ شاہ بخاری کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ لگتا ہے وہ عوامی رابطے کی مہم پر نہیں شیر کے شکار پر نکلے ہو‎ئے ہیں۔ وہ چلتی پھرتی دربار ہیں۔ جلنے والے کہتے ہیں کہ ان کی مہم میں چمچے ان کے ساتھ ہیں۔ جلنے والے ان کو چمچے کہتے ہیں جو اپنے شاہی دسترخوان سجانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ نسل در نسل چارلس نیپیئر، جنرل منٹگمری، سنڈیمن اور ایوب خان سے لیکر جنرل مشرف تک سب کو بڑی برخورداری سے اچے شملے، پگڑ، دستار اور سندھی ٹوپی پہناتے اور دنبوں کا تحفہ دیتے آئے ہیں۔ ان کے بڑوں سے کسی نے پوچھا تھا آپ ہر دور کی حکومتی پارٹی میں کیوں ہوتے ہیں تو انہوں نے کہا ’ہم نہیں ہوتے، حکومتیں ہی تبدیل ہوجاتی ہیں تو ہم کیا کریں، پتر!‘

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:43 2007-03-03 ,saadia :

    خدا جانے ان دوروں کا خرچہ کیوں کسی کو نظر نہیں آتا۔ لاکھوں کروڑوں یوں ہی اڑا دیتے ہیں۔ یہ پیسے لگا کر سکول کھولے جائیں اور ہسپتال بنائیں جائیں۔ ناجانے ان پڑھے لکھے لوگوں کو یہ نظر کیوں نہیں آتا۔ ذرا سوچیں پورا جہاز اور اس کا پیٹرول۔ اللہ جانے اس پر کوئی کیوں نہیں لکھتا۔

  • 2. 15:52 2007-03-03 ,Jafar Hussain :

    حسن صاحب لگتا ہے کہ آپ کا پاکستان آنے کا مستقبل قريب ميں کوئی پروگرام نہيں۔ گر آنا پڑ ہی گيا تو ذرا بچ بچا کے۔

  • 3. 16:22 2007-03-03 ,جاويد گوندل :

    حسن مجتبٰی، آپ سے بڑے گلے تھے مگر اس بار آپ نے دل خوش کر ديا ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔