’ان گاڈ وی ٹرسٹ‘
یہاں امریکہ کی کیلیفورنیا ریاست سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر پیٹ اسٹارک نے خدا کو ماننے یا نہ ماننے پر کروائے گئے ایک سروے میں بڑی ایمانداری سے جواب دیا کہ وہ خدا کو نہیں مانتے۔
کہتے ہیں کہ پیٹ اسٹارک امریکی تاریخ میں کسی بھی بڑے عہدے پر فائز یا سینیٹ یا کانگرس کے پہلے رکن ہیں جنہوں نے کھل کر اپنے نان تھیسٹ یا لاخدا ہونے کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ جیسا ملک جہاں کے ڈالر پر بھی ’ان گاڈ وی ٹرسٹ‘ یا ’ہم خدا میں یقین رکھتے ہیں‘ لکھا ہو، وہاں ایک امریکی سینیٹر کا برملا اور صاف گوئي سے خدا کو نہ ماننے کا اقرار بڑے دل گردے اور سچائي والی بات ہے۔ صدر بش اور خدا کا امریکہ جہاں بقول ’لاس ایجلز ٹائمز‘ تراسی فی صد لوگ بائيبل کو الوہی کتاب سمجھتے ہیں۔ ابھی کچھ روز قبل کسی ضربخانے سے غلطی سے پچیس سینٹ کے سکے پر ’ان گاڈ وی ٹرسٹ‘ کے الفاظ کنندہ نہیں تھے تو اس سے لوگوں کو بڑی سازشوں کی بو نے لگی تھی۔
اپنے برصغیر میں اندرا گاندھی وہ واحد اعلٰی شخصیت تھیں جنہوں نے اطالوی صحافی اوریانا فلاسی کی طرف سے کئے گئے ایک انٹرویو کے دوران خدا کے متعلق پوچھے گئے سوال پر جواب دیا تھا کہ وہ اسے نہیں مانتیں۔
دنیا میں خدا کو نہ ماننے والے لوگوں کی تعداد کتنی ہوگي؟ میرے اور آپ میں کتنے لوگ پیٹ اسٹارک یا چچا اسماعیل پٹواری کیطرح ہونگے؟ میرے دوست کے ابا چچا اساعیل پٹواری گاؤں میں مشہورِ عام دہریے تھے اور اسکا برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔
کیلیفورنیا وہ ریاست ہے جہاں ہر جگہ اور ہر شہر کا نام حتیٰ کہ لوگوں کے نام بھی عیسائی ولیوں یا سینٹس یا سانتاؤں کے نام پر رکھے گئے ہیں: سان ڈیاگو، لاس اینجلس، سان فرانسسکو، سان فرنانڈو، سانتا باربرا اور سانتا مونیکا وغیرہ۔ ان ہی میں سین ہوزے کا شہر بھی ہے جسے میرا ایک دوست ترنڈہ یوسف شاہ کہتے ہیں کیونکہ ہسپانوی میں ہوزے کا مطلب یوسف ہی نکلتا ہے۔
ہمارے زمانے میں اب امریکہ ہو یا اپنا برصغیر، ’ان گاڈ وی ٹرسٹ‘۔
تبصرےتبصرہ کریں
شکر ہے کوئی تو سچ بول رہا ہے اور دروغ گوئی سے کام نہيں لے رہا۔ ايسے معاشرے پر رشک کرنا چاہيئے جہاں دوغلے پن کا مظاہرہ نہیں کيا جاتا ہے اور مصلحت پسندی سے کام کيا جاتا ہے۔
اگر ہم خدا پر يقين نا رکھتے ہوں تو ہمارے لئے يہ بات انتہائی مُشکل ترين ہوگی کيونکہ ہم نے ايسا کبھی سوچنے کا بھی سوچا نہيں۔
مجتبی صاحب‘
شکر ہے امريکہ ميں کوئی تو ہے جو ڈپلوميسی سے کام نہيں ليتا ورنہ تو ہم اب تک يہی سنتے آئے تھے کہ ہالی ووڈ سے ليکر حکومت کے ايوانوں تک امريکہ ميں ہر جگہ ڈپلوميسی کا بول بالا ہے۔ رہی بات اندرا گاندھی کی تو ہندوستان ميں شدت کے ساتھ مذہبيت ہونے کے باوجود جمہوريت اور سيکيولرزم کا نعرہ کافی معاون ثابت ہوتا ہے خاص کر اليکشن کے دنوں ميں اور ويسے بھی اندرا گاندھی کی روشن خيالی روز روشن کی طرح عياں تھي۔ اس لئے شايد لوگوں نے بلکہ ہندوستانی عوام نے اس بات کو کوئی خاص اہميت نہيں دی ہوگی اور پھر يہاں ہر بات ووٹ بينک کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے اور اندرا گاندھی يہ بخوبی جانتی تھيں کہ اس سے ان کے ووٹ بينک پر کوئی فرق نہيں پڑنے والا۔
اول تو سچائي کے ساتھ جھوٹ بولا گيا اور پھر جو اس کو سچ کہنے کي اخلاقي سپورٹ دي جا رھي ھے وہ مذھبي ٹرم ھے ورنہ خدا کو نہ ماننے والے انسان کو حيوان کي کوئي قسم سمجھتے ھيں جيسے گھوڑا گد ھا وغيرہ لہذا ايسے لوگوں کو انساني حقوق نھيں حيواني حقوق کي تنظيميں بناني چاہئے۔