پت جھڑ کا آخری جھونکا
تم ہی بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ مشرف دور حکومت ہے یا بقولِ شاعر ’پت جھڑ کا آخری جھونکا ہے‘۔ اسکے بعد نجانے بہاریں کیا ہوں گی؟ پاکستان کے عوام کے مقدر میں یا فوجی جنرل لکھا ہوتا ہے یا پھر نواز شریف یا بینظیر بھٹو! اب ہم اس نعرے کو نہیں دہراتے جو نواز شریف کے آخری دنوں سنا گیا تھا: ’لچی سی لفنگي سی، گنجے کولوں چنگي سی‘۔
جس طرح بینظیر بھٹو کے پچھلے دور حکومت کے آخری دنوں میں انٹیلیجنس بیورو (آئي بی) کے سربراہ مسعود شریف یا ایف آئي اے کے ملک رحمان نے بھٹو زرداری مخالفین پر دھرتی تنگ کر رکھی تھی یا نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بریگيڈیئر امتیاز عرف بلا نے۔ سنا ہے پرویز مشرف کے ان دنوں میں انکے یارِ غار اور انٹیلیجنس بیورو کے گاڈ فادر بریگيڈیئر اعجاز شاہ نے مشرف مخالفین کی زندگي اجیرن کر رکھی ہے (سوائے ملاؤں کی زندگی کے)۔
اس کا ایک چیختا چلاتا، منہ بولتا ثبوت سپریم کورٹ، اسلام آباد میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے پیشی کے روز پاکستان سے متعلق انسانی حقوق کے لیے امریکہ میں سرگرم تنظیم آنا کی صدر اور ڈاکٹر آمنہ بٹر کے ساتھ اسلام آباد کی ایلیٹ پولیس کی بدسلوکی ہے۔ آمنہ بٹر پر مختار مائی اور ڈاکٹر شازیہ خالد کے کیسوں پر امریکہ میں آواز اٹھانے اور انکے دوروں کی میزبانی کرنے سے لے کر پاکستان میں عورتوں کے لیے امتیازی قوانین کیخلاف جدوجہد کرنے پر بہت دنوں سے پاکستان کے فاشی انکا راستہ سونگھ رہے تھے۔
آمنہ کہتی ہیں چیف جسٹس افتخار جودھری کی پچھلی سماعت سے ایک روز قبل بریگيڈئير اعجاز شاہ نے انکے آسٹریلیا میں رہنے والے ایک بھائي کو فون کر کے کہا تھا کہ ’امریکہ میں تو ٹھیک ہے لیکن وہ (آمنہ ) جو یہاں کرنے آئي ہے وہ ہم برداشت نہیں کریں گے‘۔ اسلام آباد کی غیرت مند ایلیٹ پولیس نے ایک نہتی عورت پر غیر قانونی احکامات کی تعمیل میں جو کام کر دکھایا وہ باضیمر قوموں کےلیے ڈوبنے کا مقام ہوتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
اسلام آباد ميں ہونے والی پوليس گردی نے حکمرانوں کے چہروں کے پيچھے چپھی سفاکی و بربريت سے پراگندہ سوچ کو بے نقاب کيا ہے۔ آمنہ بٹر ہو يا عاصمہ جہانگير شائد يہ حکومت کی ’ناپسنديدہ‘ افرآد کی لسٹ ميں اپنا اندراج رکھتی ہيں۔ مجھے ياد ہے کہ (بے نظير دور حکومت) اکتوبر 1996ميں دھرنا تحريک اور فروری 1998 (نوازشريف دور حکومت) ميں واجپائی کی لاہور آمد پر ايک مذہبی سياسی جماعت کی طرف سے نکالی جانے والی احتجاجی ريلی پر ايليٹ فورس کے جوآنوں کا وحشيانہ تشدد اور شکار کی تلاش ميں ہر باريش شخص کا کھوج لگانے والی بے لگام سرکاری لاٹھياں کس قدر نفرت انگيز تھيں۔ آپ تو ايک عورت کی بات کرتے ہيں ميں تو ان بزرگ افراد کے خون آلود چہروں کو نہيں بھلا پايا۔ پوليس کے ہاتھوں بار بار مذہبی کارکن، سياسی حريت پسند، وکلا، صحافيوں اور خواتين کا ’فيض ياب‘ ہونا ثابت کرتا ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو، نظام جمہوری ہو يا نيم مارشل لائی، مخالفين کو دبانے کے ليے سرکار کي آخری اميد ہميشہ پوليس ہی ہوتی ہے۔
جب تک اجتماعی غيرت بيدار نہيں ھوگی جھونپڑيوں والے مرتے رہيں گے اور بنگلوں والے تماشے کرتے رہيں گے
حسن مجتبی صاحب آپ نے کہانی کو بالکل گول کر کے لکھا ہے۔ میرا مطلب ہے آپ کس پر تنقید کر رہے ہیں بے نظیر بھٹو پر نواز شریف پر یا جنرل پرویز مشرف پر یا پھر غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ہمدردی میں ایسا کر رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان بی بی سی والوں کو اب کیا ہو گیا ہے کہ ہر بات ہی جیو ٹی وی کی طرح گول کر جاتے ہیں۔ (جیو ٹی وی کا جب مقصد حل ہو جاتا ہے تو وہ کریٹیکل ایشو پر تنقید ختم کر دیتا ہے جیسا کہ جیو پر حملہ اور پھر پرویز مشرف کے انٹرویو کے بعد ہوا۔) خدا را کھل کر بات کیا کریں آپ تو ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔
حسن بھائي آپ نے سنہ95 ميں کہا تھا کہ بينظير کوایک بار 5سال پورے کرنے دو پاکستان کے عوام دوبارہ يہ غلطی نہيں کرينگے مگر وہ ہو نہ سکا اور اب يہ حشر ہے۔ ويسے بھی سندھی ميں کہتے ہيں ’سادھو کی سنگت ميں ۔۔۔ کے درشن‘۔ تو پيارے پاکستان ميں بھی يہی ہونا ہے۔ عوام ميں اٹھ کھڑے کی ہمت نہيں ہے اور ليڈر بکنے کيلئے تيار ہيں بس يہی شغل لگا رہيگا۔
آپ بالکل ٹھيک کہ رہے ہيں حسن صاحب کہ اب پاکستان فوجی جنريلوں کے رحم و کرم پر ہی ہے ھم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہيں۔
بات تو سچ ہے مگر۔۔۔ آپ کا اس ملک کے بارے ميں تجزيہ صحيح ہے، بالکل ايسا ہي ہوا ہے۔تاریخ سے دلچسپی کے باعث اکثر ایسا پڑھا ہے کہ بے چيني، گومگوں کيفيات، ظلم، ناانصافي، تاريکي الغرض سب کچھ جو کسي بھي اندھير نگري ميں ہوتا ہےلیکن پھر تاريک راتوں کے بعد سحر بھي نمودار ہوتي ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان ميں بھي سحر نمودار ہونے کے قريب ہے۔ انقلاب آئے گا، ضرور آئے گا اور چہروں کے ساتھ ساتھ نظام بھی بدلے گا۔خواہ اس طرح کی تسلیاں جذباتی لگنے لگیں لیکن قانون فطرت ديکھتے ہوئے يقين ہے کہ يہ سب کچھ بدل جائے گا يا سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔
آپ کا يہ بلاگ بھی ہميشہ کی طرح غير دلچسپ ہے۔
مجتبيٰ صاحب، با ضمير قوموں کے لئے يقيناً ڈوب مرنے کا مقام ہے ليکن يہ مت بھولئے کہ ہم يہاں پاکستان کی بات کر رہے ہيں۔
معذرت کے ساتھ تسليم کروں کہ آج موضوع کي سنجيدگي کے باوجود آخر ميں ياد کيا رہ گيا، ’لُچی سی، لفنگی سی۔۔۔‘ کل سات اشخـاص کو ٹيکسٹ ميسيج کيا اسے پہيلی کي شکل ميں، چار لوٹ پوٹ ہو گۓ۔ ميری طرح، دو ابھی تک سوچ ميں ہيں اور مادري زبان سے بے اعتناء ساتويں مہربان ترجمے کےمتقاضی ہيں۔ کہاں بيٹھ کر سوچتے ہيں يہ سب کچھ؟
محترم مجتبٰی، آج بھی کئی ايسے افراد مل جاتے ہيں جو کہتے ہيں کہ انگريز کا دور بہت اچھا تھا، غلامی کے باوجود ہميں عبادات کی آزادی حاصل تھی، ہم دروازے کھلے رکھ کر بے خطر اور بے فکر سوتے تھے۔ عموماً بھٹو کے دور کی تعريف کرتے ہوئے ان کے سياسی مخالفين بھی ان کی بصيرت، معاملہ فہمی اور آئين بنانے سميت جنگ کے قيديوں اور کھوئے ہوئے علاقوں کی واپسی والے کارنامے ياد کرتے ہيں۔ فوجی اور باوردي دور ِحکمرانی ميں بننے والے استبدادی قوانين اور اپنے حقوق محدود کئے جانے پر لوگوں کو انہی کے بہ اجازت گزرے ہوئے بی بی اور نواز شريف کےکنٹرولڈ مگر نسبتاً جمہوری ، ادوار اچھے لگتے ہيں اور ياد آتے ہيں۔ ڈاکٹر آمنہ بٹر کے ساتھ غير اخلاقی رويہ ہم سب کے لیے باعث شرم تو ہے ہی، انلايٹينڈ ماڈريشن کے ثنا خوانان کيلئے بھی باعث شرم وعبرت ہے۔ ايسا سلوک تو دھشت گردي روکنے والے ادارے چيکنگ کے دوران خواتين سے نہيں کرتے جو اس دختر قوم سے کيا گيا۔ لگتا ہے، گجر بجنے ہی والا ہے۔
پاک وطن کی سلامتی کے ليے اس بار فوج کی مقدس گائے کي قربانی اشد ضروری ہے کيوں کہ ہر دفعہ عوام ہی نے صدقہ اتارا ہے۔
واہ مجتبی صاحب۔ مولویوں پر چوٹ کرنے سے باز نہیں آئے۔۔۔ بی بی اور بابو خود ساختہ طور پر باہر بیٹھ کر جلاوطنی کے مزے لوٹیں اور فوج سے ڈیل اور امریکہ کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آنے کے خواب دیکھیں تو کوئی بات نہیں۔۔ اور یہ مولوی بے چارہ نظربند ہو کر ، ماریں کھا کر بھی بدنام ہی ہے۔ ایم ایم اے والوں کو چاہیے کہ وہ امریکہ سے نہیں تو فوج سے ساز باز ضرور کر لیں کہ ایک تو ویسے ہی بدنام ہیں اور دوسرے بی بی اس نیک کام میں لگی ہیں تو ان کے کرنے میں کیا حرج ہے؟
ہميں ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
ميرے خيال ميں مشرف حکومت کو پت جھڑ کا آخری جھونکا کہنا سرا سر نا انصافی ہے۔ اگر غير جانبدار ہو کر مشرف حکومت کا تجزيہ کيا جائے تو پاکستان کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ ہميں مشرف کے روپ ميں ايسا ليڈر ملا ہے جو بين الاقوامی نبض کو سمجھتا ہے اور جس کی سوچ اور فہم کے سامنے بڑے بڑے ليڈر بونے نظر آتے ہيں۔ شايد مشرف ناں ہوتا تو پاکستان کا حال تورا بورا سے بھی برا ہوتا۔ اس بات کو زیادہ تر پاکستانی جان چکے ہيں اور يہ بات آنے والے اليکشن ميں سب پر واضح ہو جائے گي۔ اس دفعہ پاکستانی زيادہ ميچور ہيں۔
محترمی ومکرمی حسن مجتبی صاحب، آپ کا فکر انگيز بلاگ پڑھا دل کو بہت اچھا لگا، لگتا ہے جيسے اس قوم پاکستان پر حکمرانی کرنے کے لئے صرف فوج يا پھر مياں اور بی بی رہ گئيں ہيں۔ ہم کسی اور کو موقع دينا ہی نہيں چاہتے حالانکہ عمران خان ہے اور اس ميں وہ تمام صلاحتيں موجود ہيں جو کہ کسی بھی شخص ميں ہو سکتی ہيں مگر ہماری آخری بات يہی ہوتی ہے کہ صرف دونو ں پارٹيوں کو لانا ہے يا پھر بڑے بوٹوں والی سرکار اور يہ سرکار تو ہر وقت تيار کھڑی نظر آتی ہے۔ اس سرکار کو تو جيسے صرف يہی کام رہ گيا ہے۔
ڈاکٹر آمنہ بٹر کے ساتھ جو کچھ ھوا بہت برا ھوا اور شرمناک تھا۔ اس سب کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاھيے اور صدر مشرف سے پوچھنا چاھيے کہ کيا پاکستان کا سوفٹ اميج اسی طرح بنے گا جس کی وہ بات کرتے آرھے ھيں؟