| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کراچی تا کانگو، گنز اینڈ گولڈ

حسن مجتییٰ | 2007-05-28 ،12:50

ابھی میں اس دن سوچ ہی رہا تھا کہ میرے پڑوس کی لائبریری کے وڈیو سیکشن میں پڑی ہوئی ’پیٹرس لوممبا‘ پر فلم کبھی فرصت میں مستعار لیکر آؤں گا تو اسی دن خانہ جنگي زدہ کانگو میں بحالی امن کیلیے جانیوالی افواجِ پاک کے دستوں کی سونے کے عوض کانگو میں متحارب ملیشیاز میں بندوقیں بانٹنے میں مبینہ طور ملوث ہونے کی خبریں دیکھنے کو ملیں۔
blo_hasan_congo_pakarmy203.gif


مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں بہت دنوں سے پاک افواج کی قبلِ مسیح یونانی بادشاہ میڈاس کے ہاتھوں چھوکر ہر چیز کو سونا بنا دینے جیسی قدرت کا قائل ہوں، نہ ہی ایسی رپورٹوں پر حیرت ہوئی کہ کراچی میں گزشتہ بارہ مئي کو چیف جسٹس کے استقبال کیلیے آنیوالے قافلوں پر خدائی خاصہ داروں کے ہاتھوں جی تھری جیسے ہتھیار استعمال ہوئے تھے۔

میں نے سوچا کیا افواج پاک کے مبینہ کانگو میں کارنامے سن کر ان لوگوں کو کوئی حیرت ہوئی ہوگی جو افضل شگری رپورٹ سے واقف حال ہونگے جس میں کراچي جیسے شہروں میں صرف انیس سو نوے کی دھائي شروع ہونے سے قبل تک چھوٹے بڑے ہتھیاروں کی تعداد غالباً ایک لاکھ سے زیادہ اور صرف حیدرآباد میں تیس ہزار کے قریب تھی۔ ظاہر ہے کہ اتنے سالوں میں ان ہتھیاروں نے انڈے اور بچے دیئے ہونگے۔

کل ہم نے کیا دیکھا کہ سب آپس میں خوش بیٹھے تھے۔ مرنے والوں کی ردالیاں ٹائپ لیڈر بھی تو مارنے والے معززین و مصاحبین شہر بھی بغلگير اور فاتح خوانی میں مصروف۔ جب خون کافی بہہ گیا تب ان میں سمجھوتہ ہوا اور ’یہ شہر میرا ہوگیا وہ گاؤں تمہارا ہوا‘۔
-
کراچي میں شہری نیم سرکشی جیسی کیفیت کو سندھ کے لاٹ صاحب حادثے کا نام دے رہے ہیں۔ جیسے ڈرگ روڈ کے پھاٹک پر ’نہ تونے سگنل دیکھا، نہ میں نے سگنل دیکھا، ایکسیڈنٹ ہوگیا ربا ربا‘۔

خونِ خاک نشینان تو رزق خاک ہوا اور فوجی حکمران کی تھرکتی سرکتی کرسی سونا ہوگئی۔ تو پس عزیزو کئی برسوں سے افواج پاک جس چیز میں بھی ہاتھ ڈالتی ہیں، سونا ہوجاتی ہے، وہ کراچی ہو کہ کانگو

کانگو کا تو احساس کراچی میں کرے ہے‘’
برسوں بیتے کہ سندھی شاعر شیخ ایاز نے یہ شعر کراچی کے کیفے گھروں میں بیٹھے ان اردو دانشوروں کیلیے لکھا تھا جو ویسے تو بڑے بین الاقوامیت پسند تھے لیکن انکی اپنی گلی میں گزری ہوئی واردات پر نظر نہیں پڑتی تھی!


تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:14 2007-05-28 ,shahidaakram :

    حسن صاحب آپ کی بات سے تھوڑا سا اختلاف کرنا چاہُوں گی کہ پاک افواج جس چيز ميں بھی ہاتھ ڈالتی ہے وہ سونا نہيں خُون رنگ ہو جاتی ہے۔ اب وہ خُون اپنوں کا ہو يا غيروں کا، دُکھ ہے تو صرف اس بات کا کہ ہم صرف اور صرف بڑی بڑی باتيں بنانا جانتے ہيں اور جب کرنے کا وقت آتا ہے تو آئيں بائيں شائيں کرنے لگتے ہيں۔ ايسے مواقع کے لۓ بہت سے محاورے زبان زد عام ہيں مثلاً
    ہاتھی کے دانت ، کھانے کے اور دکھانے کے اور يا
    اوروں کو نصيحت خود مياں فضيحت۔
    ليکن ياد رہے کبھی کبھار تلملا کرايک مُنّی سی چيونٹی بھی ايک جسيم ہاتھي کا خاتمہ کر ديا کرتی ہے سوہمارے ارباب اقتدار کو چاہيۓ کہ وہ اس بات کو دھيان ميں ضرور رکھيں کہ ہر دن کا سُورج کبھی نا کبھی ڈھلتا ہے۔ اب جوآثار ہيں وہ سُورج ڈھلنے کے ہو چُکے ہيں مگر اس کا کيا کيا جائے کہ ہم ايسے کتنے سُورجوں کے ڈھلنے کے بعد عقل کريں گے کون جانے؟

  • 2. 7:21 2007-06-19 , sydney australia waqas :

    جو سپاہی سرحدوں پر جان دے چکے يا دے رہے ہیں۔ يہ جرنيل ان کی ہی کچھ شرم کريں اور پاکستان پر رحم کھائیں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔