| بلاگز | اگلا بلاگ >>

آپ کا رد عمل ویسا ہی ہوتا؟

وسعت اللہ خان | 2007-06-21 ،15:11

پہلی خبر۔

’بھارت کی شمالی ریاست بہار کے شہر بھاگل پور کے گاؤں چترواہا میں سترہ جون کو تیس کے لگ بھگ ہندوؤں نے گاؤں کے سرپنچ کے اکسانے پر ایک مسجد کے باہر سیرتِ رسول سے متعلق ایک اجتماع کے انتظامات کرنے والے دس مسلمانوں کو حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ زخمیوں میں محلے کی دو خواتین بھی شامل ہیں۔ ہرے جھنڈے پھاڑ دئیے گئے اور روضہ رسول کی شبیہہ والے ماڈل کو بھی نقصان پہنچایا۔

جن زخمی مسلمانوں کو اسپتال پہنچایا گیا انہیں بھی چند گھنٹے بعد بغیر وجہ بتائےاچانک ڈسچارج کردیا گیا۔ پولیس نے مقامی مسلمان کمیونٹی کے احتجاجی مظاہروں کے بعد تین روز کی تاخیر سے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی، جبکہ چار مسلمان متاثرین کے خلاف بھی ایک ہندو لڑکے کو زدوکوب کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد تیس کے لگ بھگ مسلمان خاندانوں نے جان کے خوف سے گاؤں چھوڑ کر بھاگل پور میں پناہ لے لی ہے۔‘

دوسری خبر۔

’پاکستان کے شہر فیصل آباد کے گاؤں بسم اللہ پور میں سترہ جون کو تیس مسلمانوں نے مقامی یونین کونسل کے ناظم کے اکسانے پر چرچ کے باہر عیسائیوں کے ایک اجتماع کا انتظام کرنے والوں پر حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجے میں دو خواتین سیمت دس عیسائی زخمی ہوگئے۔ حملے میں عیسائیوں کے کچھ مذہبی نشانات کو بھی نقصان پہنچا۔ جن زخمیوں کو اسپتال پہنچایا گیا انہیں بھی اسپتال کی انتظامیہ نے مبینہ مقامی دباؤ کے نتیجے میں چند گھنٹے بعد ڈسچارج کر دیا۔ پولیس نے عیسائی کمیونٹی کے تین روزہ احتجاج کے بعد توڑ پھوڑ کرنے والے تیس سے زائد مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی لیکن چار عیسائی نوجوانوں کو بھی ایک مقامی مسلمان لڑکے کو زدوکوب کرنے کے الزام میں مقدمے میں ماخوز کر دیا۔ اس واقعے کے بعد بسم اللہ پور کے تیس عیسائی خاندانوں نے مارے خوف کے عارضی طور پر گاؤں چھوڑ دیا۔‘

پہلی خبر میں نے خود گھڑی ہے۔ جبکہ دوسری خبر حقیقت ہے۔ پہلی خبر اگر درست ہوتی تو کیا آپ کا ردِ عمل ویسا ہی ہوتا جو دوسری خبر پڑھ کر ہوا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:15 2007-06-21 ,ظہيرچغتائی :

    بالکل ويسا ہی ہوتا جناب۔ مذہبی دہشت گردی خواہ کوئی بھی کرے، قابل مذمت ہے۔ اگر يہ دونوں خبريں حقيقت ہوتيں تو دونوں ہی يکساں قابل مذمت ہيں، ليکن چونکہ آپ نے وضاحت کردی ہے لہذا دوسری خبر انتہائی قابل مذمت ہے۔

  • 2. 17:10 2007-06-21 ,کورش ميناش :

    محترم خان صاحب آپ نے اپنے مختصر سے کالم ميں ہر پڑھنے والے کو ائینہ دکھا ديا۔ ميں ذاتی طور پہ یہ سمجھتا ہوں کہ آپ اس دور کے سب سے بڑے کالم نگار ہيں۔

  • 3. 17:49 2007-06-21 ,Sajjadul Hasnain :

    وسعت بھائی، پہلی خبر نے مجھے چونکايا تھا، دوسری خبر بھی چونکا دينے والی تھی، مگر اس حقيقت سے بھی انکار نہيں کيا جا سکتا کہ جہاں جہاں اقليت ہے جہاں جہاں طاقت ہے جہاں جہاں نا انصافی ہے ايسا ہی ہوتا رہے گا۔ اب فلسطين ہی کو ديکھيے کيسے ايک عوامی حکومت کو نکال باہر کيا گيا اور کس منظم سازش کے تحت! پاکستان ميں بھی تو يہی ہوا تھا۔ جب فوج کے ہاتھ ميں طاقت آئی تو پھر منتخبہ حکومت کيسے نکال پھينکی گئی اور وزير اعظم کو کيسے ملک بدر کر ديا گيا۔ عراق کے حکمران کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ ايسے ميں يہی کہا جا سکتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھينس
    سجادالحسنين حيدرآباد دکن

  • 4. 17:52 2007-06-21 ,shahidaakram :

    وُسعت بھائی کُچھ بھی لکھنے سے پہلے ميں اس سوچ ميں پڑ گئی کہ حقيقت ميں يہ واقعہ ميرے ساتھ ہُوا ہوتا تو ميرا ردّعمل کيا ہوتا۔ لگی لپٹی رکھنے اور عالمانہ جواب کے علاوہ سچ يہی ہے کہ غلط بات ہر حال ميں غلط ہی ہے۔ جُرم ہر حال ميں جُرم ہی کہلائے گا، خواہ مخمل ميں لپيٹ کر مارا گيا پتھر ہی کيُوں نہ ہو۔ ہمارا مذہب اس کی بالکُل اجازت نہيں ديتا۔ ليکن اجازت مانگتا کون ہے؟ سب خُود مُختار ہيں اور اپنی مرضی کے مالک بھی۔ ايک انار کی کی صُورتحال ہے جس پر درد مند دل رکھنے والا انسان شرمندہ ہي ہو سکتا ہے۔ انتہائی غلط ہُوا جو بھی ہُوا۔ قابلِ مذمت ہے يہ حرکت اور شرمناک بھی۔
    خير انديش
    شاہدہ اکرم

  • 5. 19:49 2007-06-21 ,tahira :

    خان صاحب لاجواب حقيقت بيان کی ہے۔ سچ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آج کل دنيا کی يہی روش ہے۔

  • 6. 5:41 2007-06-22 ,Mohammed Baqa :

    دونوں قابل مذمت ہیں۔

  • 7. 6:15 2007-06-22 ,Anonymous :

    وسعت صاحب، جو فیصل آباد ميں ہوا، غلط مگر جو برطانيہ نے مسلمانوں کے ساتھ کيا اس کی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس؟ ایک کالم اس پر بھي۔ انتظار رہے گا۔

  • 8. 6:16 2007-06-22 ,اشتياق :

    سب بکواس / پروپگينڈا۔ خان جی سب۔ ايک سے بڑھ کر ايک۔

  • 9. 6:17 2007-06-22 ,محمد فہيم احمد :

    مذہبی دہشت گردی جہاں بھی ہو، جو بھی کرے قابل مذمت اور قابل نفرت ہے۔

  • 10. 8:48 2007-06-22 ,طاہر محمود :

    پہلی خبر پڑھ کر تو میں چونک پڑا تھا لیکن دوسری خبر اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی تھی۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل نہیں ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہر حکومت اقلیتوں کو مکمل حقوق فراہم کرتی لیکن آج تک ایسا نہیں ہو سکا اور یہ طبقہ ظلم سہتا ہوا آ رہا ہے۔

  • 11. 10:18 2007-06-22 ,محمد ابو ا لفضل :

    مجھے دونوں خبريں پڑھ کر ايک جتنا ہی دکھ ہوا ہے۔

  • 12. 11:13 2007-06-22 ,sajid shah :

    بہت زبردست کالم لکھتے ہیں آپ۔۔۔سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

  • 13. 11:24 2007-06-22 ,حميد مروت :

    ظلم جہاں بھی ہو اور جو بھی کرے ظلم ہی کہلاتا ہے۔

  • 14. 12:01 2007-06-22 ,کامران :

    پہلی خبر پڑھ کر میرا کوئی خاص ردعمل نہ تھا کیونکہ انڈیا میں یہ عام سی بات ہے۔ دوسری خبر پڑھ کر بڑا افسوس ہوا کہ پاکستان میں اقلیّت کے ساتھ ایسا بہت کم ہوتا ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اور تیسری ’خبر‘ پڑھ کر یاد آیا کہ وسعت اللہ خان کے اندر پاکستانی عوام، معاشرے، مذہب، اور نظریے کے خلاف جو زہر بھرا ہوا ہے، وہ زہر انہیں کسی بھی مثبت پہلو کے بارے میں لکھنے سے معذور کر چکا ہے۔

  • 15. 13:28 2007-06-22 ,عبدالحفيظ :

    وسعت اللہ بھائی ميرے خيال ميں آپ کا مقصد ہے کہ يہ مذہبی فسادات ہر جگہ ہيں اور ان کو سب ايک ہی نظر سے ديکھيں تو بھائی صاحب آپ نے جو خبر گھڑی ہے اس پر مُجھے حيرت ہو رہی ہے کيوں کہ اگر آپ تھوڑی کوشش کرتے تو بہت خبريں مل جاتيں، مگر آپ کا قصور نہيں کيوں کہ آپ نے کوشش کی ہو گی مگر برابری کی خبر ملی نہيں ہوگی ہر ايسی خبر ميں ظلم زيادہ پايا ہوگا۔۔۔۔!

  • 16. 14:11 2007-06-22 ,ڈاکٹر اعجاز اختر نجمی :

    جناب وسعت اللہ صاحب
    کمال کا بلاگ لکھا ہے۔ يہ بتائيں آپ بلاگ لکھنا چھوڑ کر psychotherapy کيوں نہيں شروع کر ديتے جيسا کہ اس بلاگ ميں آپ نے قارئين کا paradigm shift کيا؟
    شايد ميرا مشورہ آپ کے قارئين قبول نہيں کرنے ديں گے چونکہ آپ يہاں بھی کسی نہ کسی درجے پر psychotherapy ہی کرتے رہتے ہيں اور اگر آپ نے فل ٹايم يہ کام شروع کر ديا تو اتنے اچھے بلاگ کون لکھے گا؟
    حقيقت يہ ہے بقيہ تمام بلاگز آپ کے بلاگ کے ’نظر وٹو‘ لگتے ہيں۔
    والسلام
    ڈاکٹر اعجاز اختر نجمی

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔