’ابے چل ناں‘
ہر باپ کی طرح میرے والد نے بھی جو چند نصیحتیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’ایک ہاں سو دکھ، ایک ناں سو سکھ۔۔۔‘
اس کہاوت کا جیسا چابکدست اور سائنسی استعمال مجھے اپنے سماج میں دیکھنے کو ملا شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔
مثلاً افسر یا وزیر یا اس کا ماتحت یا کوئی چمچہ، سائیل کو کبھی بھی صاف صاف نہیں کہے گا کہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا۔ آدھے سائیل تو موبائیل پر نمبر دیکھ کر ہی کاٹ دئیے جائیں گے۔ بقیہ آدھوں کو یہ بتایا جائے گا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں یا میٹنگ میں جانے والے ہیں۔ یا اپنا رابطہ نمبر دے دیں جیسے ہی وہ آتے ہیں میں آپ کی بات کراتا ہوں۔
آپ کسی سے ادھار مانگ کر دیکھ لیں۔ کبھی بھی انکار نہیں ہوگا۔ بس اس طرح کی گفتگو سننے کو ملے گی۔ ’یار ابھی دس منٹ پہلے ہی اسلم کو میں ایک لاکھ روپے دے چکا ہوں۔ جگر! تو اگر مجھے آدھے گھنٹے پہلے ہی فون کر لیتا تو میں اسلم سے معذرت کر لیتا۔ اوہو۔۔۔میں کوشش کر کے تجھے کل تک بتاتا ہوں۔ ویسے تو اعظم سے کیوں نہیں بات کرتا۔ وہ بھی تو تیرا جگری ہے اور آج کل مال بھی خوب خوب پیٹ رہا ہے۔ اچھا سن اگر سب جگہ سے انکار ہو جائے تو مجھے ضرور بتانا۔ میں اپنی گاڑی یا بھاوج کا زیور بیچ دوں گا اپنے یار کے لیے۔ ابے چل ناں تجھ سے زیادہ قیمتی تھوڑی ہے کوئی بھی شے۔ اچھا ابھی تو میں ایک میٹنگ میں جا رہا ہوں۔ دیکھ کل شام کو فون کر کے پوچھ ضرور لینا۔ ورنہ میں فون کر لوں گا۔۔۔‘
اور آپ کے حصے میں صرف گاڑی کے سائلنسر سے منہ پر پڑنے والا دھواں ہی آئے گا۔ آخر لوگ انکار کرنے یا کوئی واضح بات کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
ميری طرف سے اتنی خالص اور اتنی پر اثر زبان لکھنے پر مبارکباد۔ ميں نے جگر، جگری اور يار جيسے الفاظ اردو کی کسی تحرير ميں پہلی بار پڑھے ہيں، مزہ آ گيا۔ حالانکہ يہ روزمرہ بول چال کا لازمی حصہ ہيں۔ يہ جدت پسندي آپ کا ہی خاصہ ہے۔ لگے رہو وسعت بھائي۔
سچ بات پہ ملتا ہے يہاں زہر کا پيالہ۔
سچ بات پہ ملتا ہے يہاں زہر کا پيالہ
بات تو آب نے بلكل ٹھيك كي ہے۔
بات تو آپ نے بالكل ٹھيك كي ہے۔۔۔
وردی اتارنے سے انکار تو کيا ہے۔ ميڈيا کو سچ کی ڈائريکٹ کوريج کی اجازت دينے سے انکار بھی کيا ہے۔ چيف جسٹس صاحب کو انصاف کی اجازت دينے سے انکار کيا ہے۔ لاپتہ انسانوں کا پتہ بتانے سے بھی انکار کيا جا رہا ہے۔ ہماری اصل حکمران طاقت (کور کمانڈرز) نے اقتدار لوٹانے سے بھی انکار کيا ہے۔ يار دوستوں اور رشتہ داروں کے منافقانہ رويہ کا کيا گلہ کہ سب اپنی جگہ مجبور ہيں اور مروت کے مارے انکار نہيں کرتے۔
ناں کرنا بڑا مشکل ہے مگر ہمت کر کے ناں کر دی جائے تو ٹھيک رہتا ہے۔ مثلاً چيف جسٹس صاحب کی ناں جس کے جواب ميں پوری قوم نے چيف جسٹس کے حق ميں ہاں کہہ دی ہے اور اب اگر سپريم کورٹ نے جسٹس چوہدری کو ہاں اور جنرل کو ناں کہ دی تو بھی اچھا ہو جائے گا۔ اپنا بہت خيال رکھنا وسعت بھائی۔
انکار کی جرات اسی طرح يہاں متعارف نہيں ہوئی جس طرح حقيقی جمہوريت، مگر اب لگتا ہے کہ انکار کے ذائقے کی لذت چکہنے کے دن آگئے ہں، اس لیے مايوسی سے ليتے ہيں ايک چھوٹا سا بريک۔
اصل ميں لوگ انکار سننا پسند نہيں کرتے بحث کرتے ہيں۔ حتی کہ دشمن بن جاتے ہيں۔
ميں نے صاف ہاں يا صاف ناں کی پاليسی اپنائی اور لاکھوں دشمن کمائے۔
انکار کرنے کےلےء سچا ہونا ضروری ہے اور اس کے لۓ شعوراور ہمت درکارہے
ھم امريکہ گھومنے کی غرض سے گئے تو اپنی سگی بہن کے گھر بھی جانا ھوا جوکہ عرصہ دراز سے وہاں ہيں۔ جب کھانے يا چائے کا پوچھا جاتا تو عادتاً بھوک کے باوجود منع کرديتا کہ شايد وہ دوبارہ اصرار کريں اور پھر ميں ہاں کہوں
۔مشکل يہ کہ وہ مان بھی جاتيں۔ اب بھوک نے سکھا ديا کہ يہ پاکستانی معاشرہ نہيں ھے،ہاں تو ہاں نا تو نا۔
و سعت اللہ منفی سوچ والے بلا گ اور کالم لکھنے ميں کمال رکھتے ھيں مگر ان کی منفی سوچ پاکستان تک ھی محدود ھے۔ کاش مغر ب اور برطانيہ پر بھی منفی کالم لکھيں۔ مگر شايد ايسا ممکن نہيں کيونکہ مغر ب تو پرفيکٹ ھے يا وسعت اللہ کی بصارت وسیع نہيں۔
ہميں بدقسمتی سے اسکی تعليم وتربييت ہی نہيں دی گئي اور نہ ملا نے کبھی ايسا سبق پڑھا نہ قوم کو پڑھايا۔
آداب عرض،جناب! يہاں مغرب ميں تو لوگ عام طور سيدھا جواب ديتے ہيں يعنی ہاں يا نا، ميرے خيال ميں يہ جمہوريت کا پھل ہے۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی ہے کہ يہاں پر لوگ زيادہ تر ہاں کہتے ہيں۔ نتيجہ يہ لوگ کام زيادہ کرتے ہيں اور معياری بھي۔يہ بھی سنا ہے کہ
سخي نالوں سوم چنگاجہڑا دھر تے ديوے جواب
اگر اس بات کوبھی اپنا ليں تو بہتر ليکن مثبت رويہ ترقی پسند ہے۔
وسعت صاحب، آپ نے درست کہا۔ ھمارےھاں لوگ انکار کو غير اخلاقی حرکت گردانتے ہوئے اس سے پرہیز کرتے ہيں اور يہ بھول جاتے ہيں کہ دوسروں کوجھوٹی تسلی دے کرانہيں دھوکہ ميں رکھنا زيادہ بڑا گناہ ہے۔ اس لیے اس گناہ سے بچنا زيادہ ضروری ہے۔ تاہم کوشش کرنی چاہيے کہ آپ انکار کرنے کی بجائے دھوکہ ديئے بغير دوسروں کے کام آئيں۔ دوسرں کے کام آنا نہ صرف ہمارا مذہبی فريضہ ہے بلکہ ہماري انسانی ذمہ داری ہے۔ اميدہے کہ آپ ميري رائے سے اتفاق کریں گے۔
اسلام سب سے پہلے جو سکھاتا ہے وہ انکار ہی ہے۔ یعنی (لا) نہیں ہے کوئی معبود
آدمی بنتا ہے انسان ایک لا کے بعد۔
ہمارے لوگ جھوٹي تسليوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہيں کے اب سچ انھيں ہضم نہيں ہوتا پھر یہ تسلياں بھی بڑی شے ہيں زندگی کے ليے۔ خير ہميں کوشش کرنی چاہيے کہ جھوٹی تسليوں کی بجائے دوسروں کی سچے دل سے مدد کی کوشش کريں۔ يہ ہمارا اخلاقی فرض ہے ليکن دھوکے ميں رکھنا گناہ ہے۔ تو دل بڑا کیجئے!!
وسعت بھائی آپ پرانی بات کو نئے انداز سے کہنے کا فن جا نتے ہيں۔ حضرت عمر بن خطاب کے بارے ميں آپ کی تحرير پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کا ذہن تعصب سے پاک ہے۔ آپ کا احترام مزيد بڑھ گيا ہے۔
راست گوئی ميں ہے رسوائی بہت
يہی تو ھما ری بد نصيبی ھے
آخر لوگ انکار کرنے یا کوئی واضح بات کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ کيونکہ لوگ جانتے ہيں کہ
اميد تو بندھ جاتي، تسکين تو ہوجاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کيا ہوتا
وُسعتُ اللہ بھائی، آج آپ کے بلاگ کو پڑھ کر پہلے تو بہت ہنسی آئی ليکن ہے يہ کتنی عجيب اور تلخ حقيقت ہے۔ ايسے ہی کرتے ہيں ہم لوگ اور اتنا زيادہ کرتے ہيں کہ اب تو عادت سی ہو گئی ہے اور عجيب بھی نہيں لگتا۔ شايد فطرت بن گئی ہے يا مجبُوری يا حالات کے پيشِ نظر ہم ايسی فضُول سوچ کے حامل ہو گۓ ہيں ’ابے چل ناں‘ کہہ کر بات کو بدل دينے والے۔ آج کل آپ پاکستان ميں ہی ہيں جبھی ايسی سوچوں اور حالات کو تھوڑے وقفے کے بعد ديکھ کر کُڑھ رہے ہيں۔ سو ميرا بھی ايک کام کريں کہ بہت تکليف ہو رہي ہے يہ سوچ کر کہ ہمارے ارباب اقتدار کيا کر رہے ہيں۔ قلم کی طاقت ہاتھ ميں ہے اور آپ کا لکھا ہُوا آ بھی جاتا ہے تو پليز کفيلہ صديقی کيس پر بھی کُچھ لکھيں يا روشنی ڈ اليں۔ وصی ظفر پر تو اتنا جاندار لکھا تھا کہ بس ،اب ان وزير صاحب کے مُتعلق بھی لکھيں يا وہ جيل ميں وی آئی پی ٹريٹمينٹ کے ساتھ آرام فرماتے رہيں گے؟ جب اتني با اثر عورت کے ساتھ ايسا ہو سکتا ہے تو عام عوام کيا کُچھ نہيں سہتي ہوگي؟ مُجھے اُميد تو نہيں ہے کہ يہ ميرا آج کا لکھا آ جائے گا ليکن اُميد پر دُنيا قائم ہے۔
وسعت اللہ صاحب ! ہميشہ کي طرح اس دفعہ بھی بہت اعلیٰ بلاگ لکھا ہے۔ مجھے اس کو پڑھ کر ايک کہاوت ياد آئی جو گوش گزار کرتا ہوں۔ اگر کوئی جنرل کہے ’ہاں‘ تو اسکا مطلب ہوتا ہے ہاں۔ اگر کوئی جنرل کہے ’ناں‘ تو اسکا مطلب ہوتا ہے ناں اور اگر کوئی جنرل کہے شائد‘ تو وہ اچھا جنرل نہيں ہوتا۔ اب اگر کوئی سياستدان کہے ’ہاں‘ تو اسکا مطلب ہوتا ہے ’شائد‘۔ اگر کوئی سياستدان کہے ’شائد‘ تو اسکا مطلب ہوتا ہے ’ناں‘ اور اگر کوئی سياستدان کہے ’ناں‘ تو وہ اچھا سياستدان نہيں ہوتا۔
اگر کوئی لڑکی کہے ’ناں‘ تو اسکا مطلب ہوتا ہے ’شائد‘۔ اگر کوئی لڑکی کہے ’شائد‘ تو اسکا مطلب ہوتا ہے ’ہاں‘ اور اگر کوئی لڑکی سيدھی ’ہاں‘ کر دے تو وہ اچھی لڑکی نہيں ہوتي۔