جام بی بی خوش نہیں
آج میری ملاقات تربت شہر سے گیارہ کلومیٹر دور جام بی بی سے ہوئی۔جس کا گھر چوبیس روز پہلے ایک پہاڑی سیلاب اپنے ساتھ لے گیا۔وہ اپنی دو بہوؤں ، ایک بیٹے اور سات پوتے پوتیوں کے ساتھ ایک خیمے میں بیٹھی ہوئی ہے۔
یہ خیمہ اسے پانچ روز پہلے کسی این جی او نے دیا ہے۔جام بی بی نے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں وہ اچھے خاصے لگ رہے ہیں اور یہ کپڑے تربت شہر میں رہنے والے اسکے ایک بھانجے نے بھجوائے ہیں کیونکہ جام بی بی اور اسکے ساتھ رہنے والوں کے برتن اور کپڑے اس وقت کہیں بحیرہ عرب میں تیر رہے ہوں گے۔ سیلاب نے ان سب کو بس اتنی مہلت دی کہ دوڑ کے سامنے والے ٹیلے پر چڑھ جائیں۔
جو گھر سیلاب لے گیا وہ بھی جام بی بی کا بنوایا ہوا نہیں تھا بلکہ مسقط میں رہنے والی اسکی بیٹی اور داماد نے جو پیسے بھیجے تھے انہیں جوڑ جوڑ کر یہ گھر بنا۔ کہنے کو جام بی بی کے دو بیٹے ہیں لیکن ایک نکھٹو نکلا تو دوسرا دوبئی میں مزدوری کرتے کرتے ایک شخص کو زخمی کرنے کے بعد تین برس پہلے دبئی کی جیل پہنچ گیا۔
جب سورج سوا نیزے پر آجاتا ہے تو جام بی بی اپنے خاندان کوگویا اپنے پروں تلے لے کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ جاتی ہے اور سائے لمبے ہوتے ہی خیمے میں آ جاتی ہے۔
میں نے دیکھا کہ جام بی بی کے بازو پانچ پانچ کلو کے گھی کے دو ڈبے رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ دس دس کلو آٹے کی دو بوریوں پر اسکی دو پوتیاں کھیل رہی ہیں۔
میں نے جام بی بی سے کہا آٹا، گھی اور خیمہ تو مل گیا اب باقی بھی آہستہ آہستہ ہو ہی جائے گا۔ کہنے لگی
میں اپنی بہوؤں سے کہہ کہہ کے مرگئی کہ یہ سب انہیں لے جا کر دے دو جن کے گھر بچ گئے ہیں۔ خیمے میں تو ہم سب ہی پورے نہیں آتے یہ سامان کہاں رکھیں۔ لیکن میری بہووئیں میری بات ہی نہیں سنتی۔ تم ہی کچھ سمجھا دو شاید تمہاری سن لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
کیا بات ہے بی بی کی جناب۔
وسعت اللہ خان صاحب
اسلام و عليکم کے بعد عرض ہے کہ آج سپريم کورٹ کے چيف جسٹس کی بحالی کے فيصلے اور آپ کی تحرير ميں جام بی بی کا سیلاب ميں سب کچھ کھونے کے بعد بھی دوسروں کے بارے میں خيال رکھنے کا پڑھ کر اميد نظر آتی ہے کہ شايد اب ہمارا ملک بچ جائے۔
خدا آپ کو خوش رکھے۔
اور بھی دکھ ہيں زمانے ميں سياست کے سوا۔
ميرے خيال ميں تو يہ نا شکری ہے۔ مانا کہ اس ملک ميں ايسے لوگوں کی صحيح مدد نہيں ہوتی مگر ايسا ہونے پر اس عورت والا رويہ بھی تو صحيح نہيں ہے۔
بلوچوں کو تو حمکمران پہلے فوجی آپريشن سے مار رہے ہيں، ليکن اب جبکہ بہانہ قدرتی آفت کا آيا تواور حکمرانوں کو کيا چاہيے؟ نام قدرت کا اور فائدہ رياست کا۔ مجھے رياست کی طرف سے بلوچوں کی مدد نہ کرنے کا کوئی حيرانی نہيں ہوئی۔ کوئی بھی اپنے دشمن کی مدد نہيں کرتا ۔
وسعت صاحب کيا ہو گيا ہے۔ آپ نے بھی دوسروں کی طرح الٹا سيدھا لکھنا شروع کر ديا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے آپ کسی بھی حساس موضوع پر نہيں لکھ رہے۔ پيمپرا سے دھمکی ملی ہے کيا؟ چيف جسٹس کو ہی موضوع بنا ليتے۔ يہ جو آپ نے لکھا ہے يہ نعيمہ اور عنبر کے قلم سے ہی اچھا لگتا ہے۔
صاحب يہ آپ کے مہذب شہری جام بی بی کا غم کہاں سمجھ سکتے ہيں۔
وسعت اللہ خان صاحب، آداب عرض ہے۔
’کچھ يوں ہی زرد زرد سی ناہيد آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا‘
آپ کے بلاگ کو پڑھ کر ميں آپ کو صرف يہ بتاؤں گا کہ جھولے ساون ميں ہی اچھے لگتے ہيں، ہجر اور وچھيڑے کے گيت اگر ساون ميں نظر آئيں تو روح تک دھلا ديتے ہيں، واڈھی ميلہ صرف کنک کی کٹائی کے موسم ميں ہی اپنے اندر کشش رکھتا ہے، اور ترنگ کے گيت صرف موسم بہار ميں ہی اپنی آب وتاب دکھاتے ہيں۔ لہذا آپ کا يہ بلاگ بےموسمی ہے، ازراہ مہربانی بےموسمی بلاگ نہ لکھا کريں۔ ماضی کي بجائے حال ميں رہا کريں کہ اسي حال کی بدولت مستقبل کی بہتری تيار کی جاتی ہے۔
سبحان اللہ! کسی نے کيا خوب کہا ہے دانا خاک ميں مل کر گل گلزار بنتا ہے۔۔۔
آپ جو کُچھ دکھانا چاہتے ہيں صرف يہ بتائيں کہ کتنے لوگ ديکھنا چاہ رہے ہيں۔ جام بی بی اور اُن جيسے اور لوگوں کے حالات جو ان دنوں سفر کر رہے ہيں ان آسمانی آفات سے جبکہ آفات سے بچنے کے تو کوئی چانسز نظر ہی نہيں آ رہے۔ اب وہ خُود کُش حملے ہوں يا خُود کُش حملہ آوروں کی مزيد حملوں کی خبريں کہ جام بی بی کے ساتھ جو ہُوا تو اُس کے لیے جن کو ذمّہ دار ٹھہرايا جا سکتا ہے وہ ہمارے بس ميں نہيں جبکہ انجانے دہشت گردوں کا سوچنا بھی ايک خوفناک بات ہے۔ اس وقت تو مُجھے صرف يہی بات ڈرا رہی ہے کہ نہ جانے اور کيا کُچھ ہونے جا رہا ہے۔ جام بی بی پھر بھی خُوش قسمت ہيں کہ سب کُچھ جانے کے بعد زندگی تو ہے ليکن کو ن جانے کہ ہم کس وقت کيا گنوا بيٹھيں؟