| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ماحول ہڈی جھپ اے

وسعت اللہ خان | 2007-08-09 ،13:16

مقابلے بازی نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ یہاں ہمیں سے مراد ہے الیکٹرونک میڈیا۔ بالخصوص پاکستانی الیکٹرونک میڈیا۔ مقابلے بازی نے کئی اصلاحات کے معنی مسخ کر دئیے ہیں۔
blo_wusat_emergency_150.jpg

مثلاً بریکنگ نیوز۔ بدھ آٹھ اگست کو ایک کلیدی ٹی وی چینل نے یہ بریکنگ نیوز دی۔۔۔
’ہاتھی کے بچے کو گڑھے سے نکال لیا گیا۔‘

مجھے یقین ہے کہ اس چینل نے اس سے پہلے غالباً یہ بریکنگ نیوز بھی دی ہوگی کہ ہاتھی کا بچہ گڑھے میں گرگیا۔

چینلز پر جو خبری پٹی چلتی ہے اسے مقامی اصطلاح میں ٹِکر (Ticker)
کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی چینل پر بیک وقت دو متضاد ٹِکر چل رہے ہوتے ہیں۔

پہلا ٹِکر:
آج سہہ پہر چار بجے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان ہوگا۔ چوہدری شجاعت
دوسرا ٹِکر:
ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ چوہدری شجاعت۔

مقابلے بازی کے شوق میں ایک چینل نے بریکنگ نیوز دی کہ صدر نے ایمر جنسی کے نفاذ کی منظوری دے دی۔

دوسرے چینل نے ایک ہاتھ بڑھ کے خبر دی۔ صدر نے رات گئے ایمرجنسی کے اعلان پر دستخط کر دئیے۔

تیسرے چینل نے دو قدم اور آ گے جا کر خبر دی۔ اسلام آباد میں ایمرجنسی کے نفاذ سے پہلے قانون نافذ کرنے والے دستوں نے اہم مقامات پر پوزیشن سنبھال لی۔۔۔

اور پھر بارہ چودہ گھنٹے کے کنفیوژن کے بعد میڈیا کے بیٹسمین یہ کہتے ہوئے اپنے اپنے پویلین میں لوٹ گئے

’حکومت نے ایمرجنسی نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔‘

نہ کوئی وضاحت نہ کوئی معذرت۔

سرائیکی کا ایک شعر ہے:

’ہر جا سیاسی گپ اے
ماحول ہڈی جھپ اے‘

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:25 2007-08-09 ,ظہيرچغتائی :

    آپ کے سرائيکی شعر کا دوسرا مصرعہ سمجھ نہيں آيا۔ شعر کا مطلب بھی ساتھ ہی لکھ ديتے تو اچھا تھا۔ بعض کالم نگار بھی يہی حرکت کرتے ہيں اور اپنے اردو کے کالموں ميں فارسی کے شعر لکھ ديتے ہيں جو سر کے اوپر سے گزر جاتے ہيں۔
    جہاں تک نفس مضمون کا تعلق ہے تو آپ نے اپنا اعلٰی صحافتی معيار برقرار رکھا ہوا ہے۔ سنسنی پھيلانے ميں بی بی سی بھی پيچھے نہيں رہی جس نے ايمرجنسی پر فورم بھی شروع کروا ديا۔
    آپ نے نہايت خوبصورتی سے ميڈيا کی پھرتيوں کو بے نقاب کيا۔ بلکہ ميں تو يہ کہوں گا کہ بعض کی شديد خواہش تھی کہ کاش ايمرجنسی لگ ہی جائے تاکہ ہم پھر نئے جوش و خروش سے تبصرے کر سکيں۔ بعض کو صدر مشرف پر باقاعدہ غصہ آ رہا تھا کہ اب تک ايمرجنسی لگا کيوں نہيں رہے۔

  • 2. 14:31 2007-08-09 ,shahidaakram :

    سب سے پہلے تو مبارکاں کہ وسعت بھائی آپ اپنے پرانے ڈھنگ ميں واپس آگئے ہيں۔ اب يہ کرشمہ حالات کا ہے يا لگتا ہے آپ شايد واپس لندن آ چکے ہيں۔ وجہ جو بھی رہی ہو موضُوع حسب معمُول زبردست چُنا ہے۔ واقعی بريکنگ نيوز جو کبھی حقيقت ميں دہلا ديتی تھی کے نا جانے کيا ہو گيا ليکن اب تو زور سے ہوا چلنا بھی بريکنگ نيوز بنا ديا جاتا ہے۔ ايک دوسرے سے سبقت لے جانے کی اس دوڑ ميں ہمارے ميڈيا والے وقت اور حالات کی نزاکت کو بھی نہيں سجھتے اور بس صرف اپنے نمبر بنانے کے چکر ميں پہلے ميں، پہلے ميں کا اصُول اپنائے ہُوئے ہيں۔ پچھلے دنوں پاکستان ميں ہونے والے حالات پر ايسی ايسی بريکنگ نیُوز لگائی گئيں کہ جن کا کوئی جواز نہيں بنتا تھا ليکن اس کا کيا کیا جائے کہ جس کے ہاتھ ميں طاقت ہے وہ کُچھ بھی کر سکتا ہے۔ اب وہ طاقت خواہ خبروں کی ترسيل ہی کيوں نا ہو، حالانکہ يہ ايک انتہائی نازک بات ہے۔ ملک سے دور ہوتے ہوئے ملک کے متعلق ہر چھوٹي بڑي خبر کو پُر تشويش انداز ميں ديکھتے اور سُنتے ہيں۔ سو ايسے ميں اس طرح کی خبريں لگانا بغير تحقيق کیئے تکليف اور پريشاني کا باعث بنتی ہيں۔ گو ايمر جنسی کی خبر کچھ ايسی غلط بھی نہيں تھی ليکن اندازِ بيان عجيب ہے۔ جب ايمرجينسي لگ جاتي تو بتا ديتے کون منع کرتا، ليکن اُميد ہے ميڈيا اپنی دوڑا بھاگی کی اس خبری رپورٹوں کو درُست کرنے کی کوشش کرے گا ليکن وہ بھی کيا کريں چينل کا پيٹ بھی تو بھرنا ہوتا ہے اور اپنا بھی تو پھر کيا ہو؟

  • 3. 14:57 2007-08-09 ,ABU UL HUSSAN ALI LAHORE :

    صدر صاحب نے میڈیا کا کندھا استعمال کر کے ایمرجنسی کا ٹریلر چلا دیا۔ آخر کار میڈیا آزاد ہے لیکن پیمرا تو آزاد نہیں۔ صدر جرگے میں جانا نہیں چاہتے تھے اب امریکہ اور مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی جواز تو بنانا تھا۔ بھلا ہو کونڈولیزا رائس کا جن کی کال نے پانسا پلٹ دیا اور ہم ایک اور ایمرجنسی سے فی الحال بچ گئے۔

  • 4. 15:14 2007-08-09 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    وسعت اللہ خان صاحب واہ کيا بات ہے۔ واقعی ماحول ہڈی جھپ اے۔ رات فون پر کونڈولیزا رائس نے 17 منٹ کی کال کي اور آنکھيں دکھائیں کہ فی الحال ايمرجنسی والی چھوڑنی پڑي۔

  • 5. 15:16 2007-08-09 ,علی نقوی :

    کچھ نہ کچھ تو ضرور تھا ورنہ ترديد آنے ميں اتنی دير نہ لگتی۔

  • 6. 15:50 2007-08-09 ,گلفام مصطفی :

    وسعت اللہ صاحب، آپ کا بلاگ بہت زبردست لگا، خصوصاً آخر میں لکھے گئے شعر نے خوب مزہ کیا۔

  • 7. 17:34 2007-08-09 ,Ali :

    وسعت صاحب۔ ہمارے پاس کافی لوگ ہیں جو میڈیا کے پیچھے پاتھ دھو کے بلکہ نہا دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ اب جنگل کے بادشاہ سلامت ہاتھی کو گڑھے میں پھینکیں، انڈے دیں یا بچے دیں، میڈیا کا تو فرض ہے عوام کو ’سچی‘ خبریں دیتے رہنا۔

  • 8. 20:05 2007-08-09 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم وسعت اللہ خاں صاحب، آداب
    بہت سچ لکھا آپ نے۔ نجی مصروفيات کی وجہ سے کچھ روز کراچی ميں قيام رہا۔ جب فرصت ملتی تو ہوٹل کے کمرے کا ٹی وی ديکھنے کی کوشش کرتا تو نت نئے ناموں اور ڈيزائنوں کے نيوز چينلز پر صرف سنسی خيز خبروں اور افواہوں کے سوا کچھ نہيں ہوتا تھا۔ جبکہ ميں باہر نکلتا تو کوئی سنسی نظر نہ آتی تھی۔ حد يہ کہ ہوٹل جہاں ميرا قيام تھا کے آس پاس شايد ايک دن سيوريج لائن گيس کی وجہ سے پھٹ گئی اور کبھي دھماکوں تو کبھي سي اين جي ٹينک کے پھٹنے کی خبريں آنے لگی۔ مجھے باہر جانا تھا ميں نے اپنے ڈرائيور سے پوچھا تو اس نے کہا سر سيوريج لائن پھٹی ہے ميں آپ کو ليکر چلتا ہوں۔ ميں نے سوچا ان نيوز چينل سے باخبر تو يہ ڈرائيور ہے۔ خبروں ميں مقابلے کے رحجان اور ايک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی انتہائی ضروری ہے، جس ميں آپ جيسے صحافی حضرات کو اپنا کردار بھرپور طريقے سے ادا کرنا چاہيئے۔

  • 9. 5:49 2007-08-10 ,اسد اعوان :

    ميڈيا کا کردار واقعتاً بہت تشويشناک ہے۔ لگتا ہے کہ تبصراتی پروگراموں کے ميزبان کسی کے کنٹرول ميں نہيں۔ وہ مہمان کا نقطۂ نظر سننے کی بجائے اپنے ذاتی خيالات تھوپنے کی تگ و دو ميں مصروف ہوتے ہيں۔ ايمرجنسی کے نفاذ کی خبر کے حوالے سے تو لگ رہا تھا کہ يہ لوگ حکومت پہ ايمرجنسی لگانے کے ليے دباؤ ڈال رہے ہيں کہ اب لگا بھي دو۔

  • 10. 7:15 2007-08-10 ,محمد عمران ریاض خان :

    پاکستان میں موجود اکثر نجی ٹیلی وژن چینلز صرف ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کے لئے اس قسم کی غیر مصدقہ اور غیر سنجیدہ خبریں نشر کر رہے ہیں۔ لیکن شائد وہ اس کے دور رس نتائج سے بے خبر ہیں کہ اس کا براہ راست اثر عوام میں ان کی مقبولیت اور اعتماد پر پڑے گا۔

  • 11. 8:39 2007-08-12 ,Dr Alfred Charles :

    وسعت صاحب! آپ جيسے صحافت کے ماہر و مشاق کھلاڑی سے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اس ايمرجنسی ايمرجنسی کے تازہ کھيل کے پيچھے کيا کارستانی تھی اس کو قاريئن کے ليے بےنقاب کرتے۔ ايمرجنسی کی بريکنگ نيوز بھی کسی خاص مقصد کے تحت اڑائی گئی ہوگي۔ ايسے خفيہ فيصلے عمل درآمد ہو جانے سے قبل ہرگز افشاں نہيں ہوا کرتے۔ کيا کوئی شير آيا شير آيا جيسی خفيہ کہانی تو پوشيدہ نہيں؟

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔