قصۂ محمود
محمود احمدی نژاد نے ایوانِ صدر میں داخلے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ سارے قیمتی قالین تہران کی مساجد کو بانٹ دئیے اور ملاقاتیوں والے کمرے میں سے عالیشان فرنیچر اٹھوا کر لکڑی کی عام کرسیاں ڈلوادیں۔
احمدی نژاد کے ذاتی اثاثوں میں انیس سو ستتر ماڈل کی پےژو کار اور جنوبی تہران میں والد کے ترکے سے ملا ہوا چالیس برس پرانا گھر شامل ہے۔ یہی گھر صدارتی رھائش گاہ بھی ہے۔
دفتر آتے وقت احمدی نژاد کا ایک بیگ بھی ساتھ آتا ہے جس میں لنچ کے لیے زیتون اور پنیر والا وہ سینڈوچ ہوتا ہے جو ان کی بیوی روزانہ ڈرائیور کے حوالے کرتی ہیں۔ لنچ صدر اپنے عملے کے ساتھ کرتے ہیں۔
احمدی نژاد نے صدارتی طیارہ قومی فضائی کمپنی کو بطور کارگو جہاز استعمال کرنے کو دے دیا ہے۔ جب انہیں کسی وفد کے ساتھ بیرونِ ملک جانا ہوتا ہے تو فضائی کمپنی کا کوئی بھی طیارہ استعمال کر لیتے ہیں۔ جبکہ اندرونِ ملک عام مسافر بردار طیارے کی اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں۔
ایران سے برصغیر نے ہزاروں برس کے دوران بودوباش، خوردونوش اور لسانی، ثقافتی و مذہبی اقدار سمیت بہت کچھ لیا ہے لیکن بہت عرصے سے یہ لین دین معطل ہے۔ اب وہاں سے تیل اور پیکٹ بند کھجور امپورٹ ہوتی ہے اور یہاں سے زائرین ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
محمود احمدی نژاد تو وہ کر رہے ہيں جو عظيم قومی قائدین کرتے ہيں۔ آج مزا آ گيا اس مرد درويش کی زندہ زندگی بارے پڑھ کر ورنہ تو لائن آف فائر لکھنے والے بھی ہيں اور ان کے مخالفين بھی جو سپيشل فلائٹيں بھی ليتے ہيں اور بلٹ پرف گاڑياں بھی استعمال کرتے ہيں اور کھانے کو ہر قسم کا مال جائز تصور کرتے ہيں۔
عجيب سی بات ہے۔ ايسا لگ رہا ہے کہ انداز خلافت علي۔ ليکن ياد رہے ان کی سادگی اور حق کی بات اثر رسوخ رکھنے والے لوگوں کو ہضم نہيں ہوتی تھی۔ انہيں ہوشيار رہنا چاہيے۔ دوسری بات، آپ کے خيال ميں کيا ہمارے اونچے لوگ کوئی سبق ليں گے۔ صاحب يہ آپ کی خام خيالی ہے۔ دل کے بھلانے کو غالب يہ خيال اچھا ہے۔
کاش پاکستان کو بھی ایسا حکمران مل جائے۔ احمدی نژاد ایک عظیم آدمی ہیں۔ میں بش کو برا نہیں کہتا کیونکہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اپنے ملک و قوم کےلیے کر رہا ہے لیکن ہمارے حکمران تو امریکہ کو خوش کرنے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لیے اخلاقی اقدار بھی پامال کر رہے ہیں۔
اگر يہ باتيں درست ہيں تو پھر تو واقعی يہ اسی طرز عمل کی جھلک ہے جو چودہ صدياں پہلے رياست مدينہ ميں پيغمبر اسلام ميں لوگوں نے ديکھا تھا۔ ايسے ہي نجات دہندہ طرز عمل سے فلاحي معاشرے تشکيل پاتے اور ناقابل شکست ہو جاتے ہيں کيونکہ ايسا رويہ لوگوں کے دلوں ميں خود بخود جگہ بناتا جاتا ہے اور ميرے خيال ميں بانی انقلاب اسلامی امام خمينی کی بھي يہی خواہش اور خواب تھا۔ کاش ميرے وطن پاکستان ميں غريبوں کے ٹيکسوں سے جمع ہونے والي قومی دولت اور کرسي اقتدار کے گرد جھپٹتے نوچتے وردي بے وردي نام نہاد رہنما اگر اس طرز عمل اور کردار کا عشر عشير ہی اپنا ليں تو يہاں بھی عوام اپنی عزت نفس اور قومي وقار کي بحالي پر سکھ کا سانس لے سکتے ہيں۔
واہ واہ جی خوش کر ديا مگر آپ کا آخری پيراگراف ان کے سر پہ سے گزر جائے گا جن کو آپ بتانا چاہ رہے ہيں۔
ميری سمجہ ميں نہيں آتا کہ آخر صدر احمدی نژاد نے ايٹمی پروگرام کيوں شروع کيا ہے۔ جتنا پيٹرول ايران کے پاس ہے وہ اس سے بجلی بنا سکتے ہيں مگر ايران ميں آئے دن پيٹرول مارکيٹ سے غائب ہوتا ہے۔ صدر احمدی نژاد اسرائيل کے خلاف بولتے رہتے ہيں جبکہ اسرائيل کبھی ايران کے خلاف ايسے بيان نہيں ديتا۔
جب صدر اتنی سادہ زندگي گزارے گا تو عوام کو اپني تنگدستي کا افسوس نہ ہوگا ليکن صدر قارون بن جائے تو دولت والے بھي اپنے آپ کو غريب سمجھتے ہیں۔
آداب عرض!وسعت بھائی بہت خوب بلاگ چھيڑا ہے۔ جب ميں کسی پرکشش شے کو ديکھتا ہوں تو حاصل کرنے کو جی چاہتا ہے اور اگر چيز ہی نہ ہو پھر موجودہ سائکل ميں گھومتا ہوں۔ کسی بھی شے کو حاصل کرنا يا اس سے نفرت کرنہ ميری ذہنی کيفيت ہے۔ غريب بن جانا نہایت آسان اور سادہ سا کام ہے ليکن ترقی کرنا بہت زيادہ محنت، صبر، برداشت سننا سيکھنا اور عمل کرنے کا نام ہے۔ غربت دور کرنے کو ايٹم بم بنانا نہيں منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر رول ماڈل کہے تم سب غريب رہو تو پھر ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا کی بھی ضرورت نہيں البتہ بلا وجہ نفرت، بيان بازی اور جنگ کر کے دنيا کو تباہ کر دينا اور وہ بھی شريف لوگوں کو کم سے کم ميں ايسے رول ماڈل کی پيروی کرنا نہيں چاہوں گا۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ کہ جن کو ایسے حکمران مل رہے ہیں۔ جن کے پاس صرف علم ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ ایسے انسان بہت کم آتے ہیں دنیا میں اور جو آتے ہیں ان کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں کو کھو دیا جاتا ہے۔ ویسے اک بات تو لازم ہے کہ جس طرح کی عوام خود ہوگی اسی طرح کے حکمران ہوں گے۔ ہمیں اپنے صدر کے کرتوتوں پر رونا نہیں چاہیے کیونکہ جیسے ہم خود ہیں اسی طرح کے ہمارے حکمران ہیں۔