یہ مشرف کا جادو ہے
حال میں ایک ایسی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں صدر مشرف کے سینکڑوں حامی موجود تھے۔ یہ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے تقریب تھی۔
ان لوگوں کو ہمارے ہائی کمیشن نے ہی مدعو کیا تھا، لیکن پہلی مرتبہ ہے کہ میں نے صدر کے اتنے جذباتی قسم کے حامیوں کو ایک ہی مقام پر پایا۔ جس سے بھی بات کی اس نے صدر کی تعریفیں کیں۔ کسی نے کہا میں ان کا بہت بڑا فین ہوں، کسی نے کہا کہ وہ ہی سب سے اچھے لیڈر ہیں پاکستان کے لیے تو کسی نے کہا وہ بالکل کرپٹ نہیں ہیں۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ صدر کی ہر بات کو سچ سمجھتے تھے خاص طور پر یہ بات کہ پاکستان کی صورتحال پر تنقید کرنے والا کوئی بھی پاکستانی پاکستان کا غدار ہے۔ صدر نے ان سب لوگوں کو اس بات کا قائل کر دیا کہ میڈیا غیر ذمہ داری سے کام لے رہا ہے اور وہ ہی ملک کا امیج خراب کرتا ہے۔ جن لوگوں سے میری بات ہوئی انہوں نے صدر کی تعریفیں کیں اور کہا کہ ان کی وجہ سے پاکستان کی معیشت مضبوط ہے اور وہ پاکستان کے امیج کے لیے اچھے ہیں۔
یہ تمام افراد پاکستان کے سیاستدانوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور ان کو پاکستان میں سیاسی اور جمہوری عمل کے بارے میں کوئی خدشات نہیں تھے۔
میرے ذہن میں کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔
کیا بیرون ملک رہنے والے یہ پاکستانی صحیح کہہ رہے ہیں۔ وہ فوجی صدور کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ ان کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کے دور میں پاکستان میں استحکام ہے اور ان کے ادوار میں بیرون ملک رہنے والوں کے لیے پاکستان کے دورے اور شاپنگ ٹرِپس آسان ہو جاتے ہیں؟ یا کیا برطانیہ میں رہتے ہوئے ان کو قانون کا تحفظ حاصل ہے لہذا انہیں پروا نہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق یا عدلیہ کی صورتحال کیا ہے کیا بیشتر بیرون ملک پاکستانی کچھ دیر بعد ایسی رائے رکھنے لگتے ہیں یا پھر یہ صرف صدر مشرف کی شخصیت کا جادو ہے
یہ سب سمجھنے میں میری مدد کریں اور لکھیں کہ آخر ایسا کیوں ہے
تبصرےتبصرہ کریں
عنبر خيری صاحبہ! حيران ہوں کہ آپ جيسی باخبر شخصيت قارئين سے يہ سوال کيوں پوچھ رہی ہے اصل بات يہ ہے کہ ايک ايسی تقريب جس کا اہتمام پاکستانی کيمونٹی کواکٹھا کرنے کے نام پر ہائی کميشن نے کيا ہو اور اس بات کا بھی انتظام و انصرام کيا ہو کہ شرکاء کيسے اور کن خيالات کے حامی ہونے چاہئيں تو کيا توقع کی جانی چاہئيے۔ اگر آپ ڈاکٹر مليحہ لودھی سے اس قسم کے سوالات کريں تو ايسے ہی جوابات ملنے کی توقع ہے۔ ايسی تقريبات ميں سب اچھا ہے کی رپوٹيں دينے والوں نے اپنے مکتبہ فکرکے لوگوں کا بندوبست کيا ہوا ہوتا ہے۔ يہی سوال ذرا بھوک کے ستائے ہوئے افراد سے پوچھئے جن کو پورا چاند بھی روٹياں نظر آتيں ہيں۔ يہ سوال ايسے لوگوں سے پوچھيں جن کو گيس، آٹا، تيل نہيں مل رہا تو ٹھيک ردعمل سامنے آسکے گا۔ في الحال تو آپکی بيان کردہ اسٹوری سے پتہ چلتا ہے کہ مفلوک الحال لوگوں کے مقابلے ميں آسودہ حال لوگ جنہيں بطور اہتمام خاص يہاں موج ميلے کے ليے جمع کيا گيا تھا انہوں نے مراعات يافتہ ہونے کا حق ادا کيا۔ اميد ہے اب آپکو اپنا جواب تلاش کرنے ميں آسانی ہوجائے گی۔
شاید جناب صدر کی خدمت ميں ھی يہ شعر عرض کيا گيا ہے:
خرد کا نا م جنوں رکھ ديا , جنوں کا خرد جو چاھے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ميں نے جب سے ہوش سنبھالہ ہے بہت سے لوگ کہتے ہيں سياستدانوں کو گولی ماردی جاءے اور يہ سوچ اب بھی ہے ۔ مجھے تہعجب ہے کہ يہ سوچ زيادہ تر پنجاب کے لوگوں ميں ہی ہے۔ شايد سندھ، سرحد اور بلوچستان کے لوگوں کی اکثريت اسلۓ ايسا نہيں سوچتی کہ ان ميں سياسی شعور نھيں يا پھر زيادہ ہےِ
بات لوگوں کی فکر کی نہيں ہے ، بلکہ معاملہ کچھ اور ہے ؛ بيرون ملک پاکستانی خاص کر وہ لوگ جو کم عمری مين وہاں گۓ يا ان کی پيدائش ہی بيرون ملک ہوئ ہے؛ لہذا ان کو معذور سمجھنا چا ہۓ؛ رہی صدر صاحب کی بات تو بی بی سی کے وسعت اللہ خان کے کالم کفايت کرتے ہيں؛
بیرون ملک پاکستانیوں پر الزام نہ لگائیں- ہماری اکثریت مشرف کو سمجھ چکی ہے اور یہ ہم ہی ہیں جو یہاں اس کے خلاف مظاہرے بھی کر رہے ہیں- ہمیں پاکستان میں جمہوریت چاہیے-
دور کے ڈھول سہانے
جادو وادو کچھ نہیں۔ یہ تو صرف "شاہ سے زیادہ شاہ کا مصاحب" والا معاملہ ہے۔سیدھی سی بات ہے، کہ مذکورہ تقریب میں ایمبیسی والوں نے ہی لوگوں کو مدعو کیا تھا۔ لہذاوہ صرف ان ہی لوگوں کو مدعو کریں گے جو صدر صاحب کی حمایت میں ہی بولیں گے۔ وہ کب چاہیں گے کہ ایسی کسی تقریب میں ان کی سبکی ہو۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آج بھی لاکھوں انسان ہٹلر کو پسند کرتے ہیں۔ خود ھمارے ہاں ضیا کے شیدائی بھی بہت ہیں۔ لیکن اس سے سیہ کو سفید نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک برطانیہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کا سوال ہے ان کے معاشی مفادات اور سماجی رشتے ہمیشہ سے فوج کے ساتھ رہے ہیں انہیں بلوچستان کا پتہ ہے اور نہ وزیر ستان کا۔ وکیل، عدلیہ اور میڈیا توفوجی گھرانوں سے وابستہ افراد کی نظروں میں گھر کے نوکر کے بچے ہوتے ہیں ضرورت پڑنے پر انہیں منع کیا جائے گا۔
يہ انسان ايک جيتاجاگتاطلسم ھے
کیا کہہ سکتے ہیں مشرف کے بارے میں ، انہیں خود ہی خیا آنا چاہیے۔ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں جا رہے ہیں۔
جب آپ جيسی جہاں ديدہ اور سمجھ دار خاتون ايک ہی محفل ميں دھوکے ميں آ گئيں تو عام لوگوں سے شکوہ کيا- وہ تو عمران خان اور ايم ايم اے والوں کو دھوکہ دے گۓ- ضيالدين صاحب کي راۓ بھی لے ليجيۓ اور محتاط بھي رہيے گا- کہيں دو تين ٹکا ہی نہ دے انکا کوئی چمچہ-
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ مير ہوئے
اس کي زلفوں کے سب اسير ہوئے
خیری صاحبہ، اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ لوگ کیوں نا مشرف کی حمایت کریں۔ وہ اپنے ملک سے دور بیٹھے یورپ کے انسانی حقوق کے مزے میں ہیں۔ وہ اگر یہاں ہوتے تو ان کو پتہ چلتا کہ سیر سے کتنے پکتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ یورپ میں اجنبیت محسوس کر رہے ہیں اس لیے جب بھی پاکستانی ہائی کمیشن ان کو ایسے تقاریب میں بلا رہا ہوتا ہے تو وہ پاکستانی حلومت کے مشکور و ممدوح بن جاتے ہیں۔
ایک اور وجہ اس کی یہ ہے کہ “قافیے” تو ضرور ہر جگہ آپ کو ملیں گے۔
ــ“ مشرف” کی غلامی پہ رضا مند ہوا تم
۔۔مجھے گلہ تم سے،“ مشرف” سے نہیں ہے۔
مشرف کو پسند کرتاہوں اس سے آگے کيا کہوں۔ مشرف نے کرپشن کو کافی ختم کياھے۔ اصل کرپٹ تو ھمارے سياستدان ھيں۔
شخصيت کسی قاعدے قانون کے بغير نہيں ہوتی۔ چوہدری وجاہت حسين صاحب کو بھاری نعرہ برگيڈ کے ساتھ تو واپس کر ديا گيا تھا ليکن نہ جانے کتنے برگيڈ مہنگائی سے بلکتی عوام کے پيسے سے پہلے پہنچ چکے ہوں گے ورنہ برطانيہ ميں رہنے والے کبھی کسی ڈکٹيٹر کی تعريف نہيں کر سکتے۔ برائے مہربانی ہم لوگ چين سے يہاں رہ رہے ہيں، ہمارے اوپر مشرف کی حمایت کا الزام نہ لگائيں۔ شکريہ!!!
بی بی، صحافت اپنی رائے دینے کا نام نہیں بلکہ اکثریت کے احساسات کو اپنے خوبصورت اور اثر انگیز لفظوں میں لکھنے کا نام ہے۔ جس طرح ایک غیر ذمہ دار صحافی نے ایک قیدی کے فرار کو ایٹم بم کی چوری سے جوڑ دیا اسی طرح آپ نے بھی چند درباریوں کی واہ واہ کو ایک آمر کی مقبولیت سے جوڑ دیا۔ ہوسکتا ہے اس مضمون کے لکھنے پر آپ کو کہیں سفیر لگا دیا جائے۔ اسی کو لابی انگ کہتے ہیں۔ ہم وسعت اللہ خان کو پڑھتے ہیں جو پچانوے فیصد پاکستانیوں کی آواز ہیں۔ ہم اتنے بھولے نہیں ہیں۔