اب کے بھی برف نہیں پگھلی
پاکستان میں نئی جمہوری حکومت سے جہاں سولہ کروڑ عوام نے اپنی امیدیں وابستہ کی ہیں وہیں تقریبا ڈیڑھ کروڑ کشمیری بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس بار برف پگھلےگی اور ساٹھ برس پرانے قضیے کا جمہوری حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جائیگی۔
ظاہر ہے کہ سب کی نظریں حکمران جماعت کے قائد پر ٹکی تھیں کہ ان کا پہلا بیان اس حکومت کا پالیسی بیان ہوگا جو مستقبل کے لئے نئے روڈ میپ کا تعین کرے گا۔
جنرل مشرف کی کشمیر پالیسی سے اعتدال پسند اور بھارت نواز سیاسی جماعتیں متفق تھیں کیونکہ اس سے انہیں اپنے پیروں کے نیچے زمین کھسکتی نظر نہیں آرہی تھی اور ان کی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا تھا۔ مگر جمہوری دور کے آغاز سے بیشتر کشمیریوں کو حوصلہ ملا کہ اپنے آپ کو جمہوریت کا چمپیئن کہلانے والے رہنما تاریخ کاگہرائی سے مطالعہ کرکے پہلے کشمیر پرخوب ہوم ورک کریں گے اور قوم کو اعتماد میں لے کرنئی پالیسی کا تعین ہوگامگر ایسا اب کی بار بھی نہیں ہوا اور نہ قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہی سمجھی گئی۔
آصف زرداری نے اپنے پہلے بیان میں کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کا مشورہ دے کر نہ صرف حکومت کی پالیسی وضع کی بلکہ جنرل مشرف کی پالیسی کی تصدیق کرتے ہوئے کشمیر تحریک چلانے والے ہزاروں نوجوانوں کی تضحیک بھی کی۔
ہوسکتا ہے کہ ان کے اس بیان سے بعض کشمریوں کے جذبات مجروح ہوئے ہونگے مگر جو لوگ تاریخ کے شاگرد ہیں ان کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
زرداری کا کوئی قصور نہیں! اگر ہے تو پہلے خود کشمیر کی لیڈرشپ کا جن کی نظریں ہمیشہ پاکستان پر ٹکی رہیں اور وہ معصوم عوام کو ساٹھ برس کھلونے دے دےکر بہلا تےرہے ہیں۔
پاکستان نائن الیون کے بعد حواس باختہ ہے۔ گو کہ وار امریکہ پر ہوا مگر جو حالت پاکستان کے اندر ہے وہ پوشیدہ نہیں۔ افغان یو ٹرن اور ماڈریٹ اسلام پھیلانے کی پالیسیوں کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو آئے دن خودکش حملوں کی صورت میں اٹھانا پڑرہا ہے۔
کشمیر میں دور اندیش اور حقیقت پسند لیڈرشپ ہوتی تو ڈیڑھ کروڑ عوام کا بار بار یوں سودا نہ ہوا ہوتا اور نہ ایک کمزور ترین ملک پر اتنا بوجھ ڈالا گیاہوتا جو امریکہ سے آئے ہوا کے ایک جھونکے کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں نے مدد مانگی بھی تو پاکستان سے جو بقول ایک پاکستانی مبصر کے اپنی ساکھ بچانے کے لیے کشمیریوں کوسولی پر چڑھاتا رہا۔ پاکستان نواز لیڈروں کا اس ملک پر تکیہ کرنے کا معاملہ سمجھ میں آتا ہے لیکن انتخابات کی تیاری میں بھارت نواز جماعتیں بھی آجکل پاکستانی رہنماؤں کے قریب رہ کر عوام کو پھر بے وقوف بنارہی ہیں۔ یہ جماعتیں یک زبان ہوک بھارت کے ساتھ الحاق کو حتمی اور مکمل قرار دے رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف ان جماعتوں کے رہنما اعلیٰ ایوانوں میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان رہے ہیں تو دوسری طرف سلیف رول اٹونومی اور جزوی آزادی کا نعرہ دے کر اور پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر اپنے پروفائل بڑھانے لگے ہیں۔
کشمیریوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ہر بار بکنے پر تیار ہوتے ہیں اور چند مفادات کے حصول کے لیے آسانی سے ان عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
بھارت نواز سیاسی جماعتوں کا استحصال ایک طرف تو دوسری طرف پاکستانی رہنماؤں کی جذباتی تقرریں سن سن کر عوام ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہے کہ کشمیر کے لیے ایک ہزار سال تک گھاس کھانے والے رہنما انہیں تنہا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ حالانکہ کشمریوں کو بخوبی سمجھنا چاہے تھا کہ گھاس کھانے والے رہنما خود اپنے ملک کو منقسم ہونے سے بچا نہیں پائے۔
بعض رہنماؤں نے کشمیر کو اسلحہ اور بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا مگر جب خود پر آن پڑی تو آناً فاناً یو ٹرن لے کر اسے کولڈسٹوریج میں ڈالنے کی باتیں کرنے لگے۔
موجود حالات اور دنیا کے بدلتے منظر نامے کے پیش نظر اگر کوئی کشمیری اب بھی نوزائید پاکستانی جموریت سے کوئی آس لگائے بیٹھا ہے تو شاید وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ زرداری حادثاتی پارٹی کے قائد بنے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے شوہر ہونے اور بھٹو خاندان کے ڈی فیکٹو وارث ہونے کے ناطے انہیں یہ منصب ملا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ راتوں رات دانش مندی اور مدبری کا مظاہرہ کریں گے۔ ان کے سامنے بڑا چلینج اپنی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانا ہے کیونکہ انہوں نے جس طرح بےنظیر بھٹو کے کیمپ کو دور اٹھا کے پھینک دیا ہے اس کے نتائج کو زیادہ دن روکا نہیں جاسکتا۔ پھر وہ ایسی حکومت کے سرے کو تھامے ہوئے ہیں جس کی ڈور کئی ہاتھوں میں ہے۔
کشمیری لیڈرشپ کوایک اور موقعہ فراہم ہوا ہے کہ وہ پھر گہرائی سے ہوم ورک کرے اور مسئلے کے حل کا ایسا منصوبہ مرتب کرے جو دوسروں کی بیساکھیوں کے بجائے اپنی بنیاد پر چلنے کی بساط رکھتا ہو ورنہ نجانے اگلےساٹھ برسوں میں رہنمائے قوم کتنی بار ڈیڑھ کروڑ کو چند ٹکوں کے عوض بیچیں گے اور وہ بکتے رہیں گے۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ کی تحرير سے دانستہ يا غير دانستہ طور پہ مسئلہ کشمير کے مکمل حل کی بجائے خود مختار کشمير يا ُاسٹيٹس کو، بر قرار رکھنے کا تاثر ابھرتا ہے ـ ايسی صورتحال وقتی طور پہ بھارتی ترجيجات کيمطابق مگراکثريتی کشميری عوام کی خواہشات اور پاکستانی توقعات کے برعکس ہے - پاکستان اور حريت پسند کشميری ليڈر شپ سے قطع نظر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ آيا ايسي پاليسيز اور مندرجہ بالا حل کشميری عوام کی اکثريت کو قابلِ قبول ہوگا؟ کيا کشميری عوام ہميشہ کے ليئے بھارت ميں اقليت بن کر رہنے کو قبول کر ليں گے؟ جبکہ بھارت کی پہلی بڑی اقليت مسلمانوں کيساتھ بھارتی حکومتوں کے سلوک کا ريکارڈ ، بھارت ميں اقليتی مسلمانوں کي حالتِ زار اور گجرات ميں بھارتی مسلمانوں کی حاليہ قتل و غارت بھی کشميری مسلمانوں کے سامنے ہےـ بے شک خواہشات اور ممکنات ميں بہت واضح فرق ہوتا ہے مگر يہ بھی حقيقت ہے کہ خواہشات من پسند ممکنات کے ليئے محرک ثابت ہوتی ہيں اور بلا شبہ کشميری عوام کی واضح اکثريت کشمير کا الحاق پاکستان کے ساتھ چاھتی ہے اور اس خاطر اس عظيم جدو جہد ميں کشميری مسلمانوں نے اسقدر قربا نياں دی ہيں ـ اور کشمير کا پاکستان کے ساتھ الحاق پاکستان کی تکميل و مضبوطی کا باعث بنے گا ـ اور بدقسمتي سے اگر ماضی ميں نا عاقبت انديش لوگوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا تو بھی اسکے بطن سےايک آزاد مسلمان رياست نے جنم ليا ہے ـ قوموں کی تاريخ ميں پچاس ساٹھ سال کے عرصے ايک لمحے کی حيثيت رکھتے ہيں اور کيا عجب کہ اگلے پچاس سالوں ميں پاکستان خطے کی نماياں قوت ہو جسميں کشميری مسلمان بھی باعزت زندگی گزار سکيں جو بھارت کے ساتھ شامل ہونے سے تو بہر طور بہتر ہے
خير انديش
جاويد گوندل ـ بآرسيلونا ، اسپين
بلاگ آپ نے اچھا لکھا ہے ليکن اگر پہلے چار پہروں تک محدود رہتا تو بھي مکمل ہوتا اور زيادہ اچھا بھی دکھائی ديتا
نعيمہ جي بلوچستان ميں مزاحمتی تحريک شروع ہو گئ ہے اور پاکستانی فوج انکو کچلنے کے لۓ بلوچستان ميں سرگردان ہے - پاکستانی فوج ميں اتنی دم کہاں کہ وہ بلوچستان وزيرستان اورکشمير کے تينوں محاذوں پر ايک ساتھ لڑے - پاکستان کی عافيت اسی ميں ہے کہ کشميريوں کو بيچتے رہيں اور بھارت کو ٹرخاتے رہيں اور بلا چون و چرا بلوچوں اور پٹھانوں کو کچلتے رہيں
مخترمہ نعيمہ صاحبہ ! آداب !
اس ميں بے چارے کشميری بھائيوں اور ان کے بے بس رہنماؤں کا کيا دوش ؟ ڈوبتے لوگ توہميشہ تنکے کو بھی سہارا سمجھ بيٹھتے ہيں - ويسے بھی پاکستان کشمير کا براہ راست فريق ہونے کی وجہ سے اخلاقی طور پر ان کی مدد کا پابند تھا اور ہے - 11/ 9 کے بعد صرف پاکستان ہی کی نہيں ، ساری دنيا کے طرز سياست ميں تبديلی آگئ ہے اور تب کا پاکستان تو آج خود کسی بيساکھی اور سہارے کا متلاشی ہے ورنہ اپنی شہ رگ سے کوئ کيونکر تغافل برت سکتا ہے؟