میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے
چند روز قبل گاؤں میں ناشتے کے وقت پتہ چلا کہ بجلی نہ ہونے کے باعث لسّی دیر سے بنی ہے۔ پہلے مٹکے میں ہاتھ سےدودھ بلویا جاتا تھا اب بجلی کی مشینیں آ گئی ہیں اور کم ہی گھروں میں پرانی چاٹیاں موجود ہیں۔
میرے گاؤں مچھیانہ میں بھی ملک کے دیگر دیہات کی طرح بجلی، سڑک، ٹیلیفون اور دیگر سہولتوں کے آنے سے لوگوں کے طرز زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یہ تبدیلی تو حالیہ سالوں میں دھیرے دھیرے ظہور پذیر ہو رہی تھی لیکن اس کی اہمیت کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب چند روز قبل گاؤں میں ناشتے کے وقت پتہ چلا کہ بجلی نہ ہونے کے باعث لسّی دیر سے بنی ہے۔ پہلے مٹکے میں ہاتھ سےدودھ بلویا جاتا تھا اب بجلی کی مشینیں آ گئی ہیں اور کم ہی گھروں میں پرانی چاٹیاں موجود ہیں۔ میرے ذہن میں جوگاؤں کا پرانا تصور تھا اس میں آنکھ کھُلنے پر صحن سے آتی ہوئی دودھ بلونے کی آواز نقش تھی، لیکن اب ماحول بدل چکا ہے۔
ایک تو گاؤں میں زیادہ تر لوگ چھت تلے سوتے ہیں۔ پھر فلش سِٹسم کی وجہ سے منہ اندھیرے کھیتوں کی سیر کی ضرورت بھی ختم ہو چکی ہے۔ مجھے بتایا گیا اب تو لوگ ہاتھ سے چارا کترنا بھی بھول گئے اور ہرگھر میں بجلی کے ٹوکے موجود ہیں۔ اگر بجلی جانے سے پہلے کسی وجہ سے چارا نہ کترا جائے تو پھر ’جانور اور انسان ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہتے ہیں‘۔ بجلی کی صورتحال اگر ایسی ہی رہی تو شاید لوگوں کو ایک بار پھر پرانے طریقوں سے واقفیت پیدا کرنا پڑے گی۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب چودھری صاحب، کیا آپ گاؤں کے لوگوں کو بجلی کے جھٹکے دینا چاہتے ہیں۔ بجلی نے ہمیں بہت جلد سست اور کام چور بنا کر رکھ دیا ہے۔ بجلی والے ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔پاکستان میں لوڈشیڈنگ بڑھ رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ بجلی کا بڑھتا ہوا استعمال اور بجلی بنانے کے ذرائع سے دوری ہے۔ اس صورتحال میں کہوں گا کہ بجلی جانے کی صورت میںجانور اور انسان کو ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔
اسد چودھری صاحب
حيران ہوں، دل کو روؤں کہ پيٹوں جگر کو ميں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو ميں
کہاں کی چاٹيياں، مدھانياں اور ٹوکے سے چارے کی کٹائی۔ اکثر لوگوں کی انگلياں اور انگوٹھے کٹ جانے کی وجہ يہ ہاتھوں سے چلنے والے ٹوکے ہی تھے-
جہاں تک گاؤں ميں بجلی آنے اور آ کر نہ آنے والی بات ہے تو بھائی اس حوالے سے تو بجلی اور جمہوريت جڑواں بہنیں لگتی ہيں۔ آئيں نہ آئيں قيمت تو عوام کو ادا ہی کرنی ہوتی ہے-
لگتا ہے کہ يہ بلاگ آپ نے اپنے پچھلے بلاگ پر معززقارئين کے ’چوندے چوندے‘ تبصرے پڑھنے کے بعد لکھنے کا فيصلہ کيا ہے!
میں بورے والا کے قریب ایک گاؤں میں رہا ہوں اور بجلی کے پہلے زمانے سے لطف اندوز ہوا ہوں۔
یقین کریں وہ اب سے بہت بہتر تھا۔
گھروں کی تعمیر سے لے کر کھیتی باڑی تک سب کچھ خود ہوتا تھا۔ کہیں کوئی ڈیزل، پٹرول یا سی این جی نہیں تھا۔ اور لوگ دولت اور صحت کے مسائل سے آزاد سکون کی نیند سوتے تھے۔ لیکن اب سکون کی جگہ مصیبتوں نے لے لی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر بجلی پورا مہینہ رہے تو کیا آپ بڑے بڑے بےل دیکھ کر کھانہ ہضم کر سکیں گے۔ اس کا ایک حل چوری ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ہمیں پرانے اور اچھے طرز زندگی کی طرف لوٹنا چاہیے۔
سلام جناب، میں تو بجلی کو محبوبہ سمجھتا ہوں جو آج تک سب مشہور زمانہ عاشقوں کو ملی ضرور ہے لیکن تھوڑی دیر کے لیے۔ اس لیے بجلی جانے کا غم نہ کرمیرے دوست۔ تو بھی شکر کر کہ محبوبہ رکھتا ہے۔
اسد صاحب -
آپ نے حاليہ دنوں ميں کونسی کتاب يا ناول پڑھ ليا ہے کہ ماضی کے مزاروں کےگرد ہی گھومتےنظر آرہے ہيں ؟ يہ درست ہے کہ بيشتر لوگوں کوگزرا زمانہ اور بچپن کا وقت ذمہ دارياں سرپر نہ ھونے کی وجہ سےبہت سہانہ دکھتا ھے۔ ہميں يہ بھی سوچنا چاھيے کہ موجودہ ايجادات کی وجہ سے انسان کی زندگی آسان بھی ھوئی ھے - يہ الگ بات ھے کہ بہت سی چيزوں کے غلط استعمال نے انسان کی زندگی بعض حوالوں سے اجيرن بھی کردی ھے - اسد صاحب آج کل کے پيش آمدہ دنياوی حالات نے بہت سوں کو بہت سے حوالوں سے نئی علتوں اور پريشانيوں ميں مبتلا کرکے يہ سوچنے پر مجبور کرديا ھے کہ گزرا زمانہ گو سادہ اور عام آدمی کيلۓ مشکل ہی سہی پر امن و امان والا تھا جہاں پيسہ ہی سب کچھ نہ تھا اور باعزت روزی کما کر زندگی گزارنے والوں کی قدر تھی - ليکن اب فقط سوچنے سے نہ گزرا وقت واپس آسکتا ھے اورنہ ہی آج کے حالات بدل سکتے ھيں - ھميں آج کے برے بھلے جيسے بھی حالات ھيں ان ميں سے ہی خوشی کے کچھ لمحے نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کيلۓ بھی کشيد کرنے پڑيں گے کہ ميري نظر ميں يہی حقيقی زندگی اور بحثيت انسان ہمارا فرض ھے - اميد ھے کہ آپ کا اگلا بلاگ زندگی کے روشن پہلو دکھا کر ھم سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھيرنے والا ھوگا -
آپ کی اور سب پڑھنے والوں کی خيريت کيلۓ دعاگو
وحيد
اسد علی چودھری صاحب
نامعلوم نام سے ميرا نامہ چنّنے پر شکريہ نام او بقيہ حصہ لوڈ شيڈنگ کے نذر ہوگيا-
ويسے تو دل ڈھونتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن مگر کيا کيا جاۓ امريکہ کی دوستی ميں يہ تو ہو گا-
خود ساختہ فيڈ مارشل کی امريکہ دوستی ميں دريا بيچے گۓ مستقل بيچ ديا گيا واپڈا بنايا گيا ون يونٹ بنايا ڈھاکہ کاٹنے کی بنياد رکھي- ضياالحق نے کلاشنکوف ہيروئين اور انڈسپلن ديا القائيدہ يا مجاہدين کے نام پر دھشت گرد پيدا کيۓ-
اور اس حلف اور آئين سے منحرف مشّرف نے خود کش حملہ آور دیے افغانستان کے ساتھ محاذ بنايا اپنی خود نوشت ميں اپنی گواہی خود دی عدليہ کو بدنام کيا فيصلہ ماننے سے انکار کيا اور اپنی ہی حکومت کے خلاف ايمرجنسی لگا کر عدليہ کو معزول کر ديا-
اب دودھ ميں مدھانی ڈاليں ہاتھ سے بلوئيں جب دودھ ہی پاؤڈر سے بنے گا تو نکلے گا کيا؟
آپ نے ياد دلايا تو مجھے ياد آيا
کہ ميرے ديس سے اٹھ گيا خدا کا سايہ
اسلام وعليکيم۔ اسد صاحب بس اتنا کہوں گا کہ اس وقت سے پہلے والے وقت بہت اچھے تھے اور لوگ بھی اچھے تھے اور ان لوگوں کے دل بھی صاف تھے اور اب يہ حال ہے کہ ہر انسان کے دل ميں چور ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کی کمی کيوں نہ ہو جبکہ بجلی ہم استعمال تو کر ليتے ہیں مگر بل جمع نہیں کرواتے۔ اگر کروائیں گے تو
2 يا 3 مہينے بعد۔ جب تک عوام حکومت کا ساتھ نہیں دےگی تب تک نہ عوام کا کچھ ہو سکتا ہے نہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ خوشحال ملک وہی ہے جو عوام اپني حکومت کا ساتھ ديتي ہے۔
اللہ ہمارے ملک کو ہميشہ سلامت رکھے۔ آمين۔
طالبِ دعا
ملک امتياز اعوان
اسلام وعليکم:اسد صا حب بس اتنا کہوں گا کہ اس وقت سےپہلے والے وقت بہت اچھےتھے اورلوگ بھی اچھے تھےاوراّن لوگوں کے دل بھی صاف تھے اوراب يہ حال ہے کہ ہر انسان کے دل ميں چور ہے ہمارے ملک ميں بجلی کی کمی کيوں نا ہو جبکہ بجلی ہم استعمال توکر ليتے ہيں مگر بل جمع نہيں کرواتےـ اگرکروايں گے تو
2 يا 3مہينےبعد ـ جب تک عوام حکومت کا ساتھ نہيں دےگی تب تک نہ عوام کا کچھ ہو سکتا ہے نا ملک ترقی کر سکتا ہےـ خو شحال ملک وہی ہے جوعوام اپني حکومت کا ساتھ ديتي ہے
اللہ ہمارے ملک کو ہميشہ سلامت رکھے:آمين
طا لبِ دعا
ملک امتياز اعوان
چوہدری صاحب، آداب! خاکسار نے اپنے ابتدائی پانچ سال مکمل اپنے پِنڈ ميں گزارے ہيں- اُس وقت ہمارے پِنڈ تک ابھي بجلی نہيں پہنچی تھي، جو پنڈ سڑک کے کنارے تھے وہيں پر بجلی پہلے مہيا کی جاتی تھي- ہمارا پنڈ تقسيم سے قبل سکھوں کا پِنڈ ہوا کرتا تھا، گھر کے تمام دروازوں لکڑی کے تھے اور ان پر ايسی اعلی ڈيزاننگ ہوتی تھی کہ سکھوں کو داد ديۓ بغير کوئی چارہ نہيں، مين گيٹ اسقدر بڑا اور ايسی شکل کا تھا جيسے کسی قلعہ کا ہوتا ہے، گھر ميں ايک بڑا دالان ہوتا تھا اور اسکی چھت پر ہوا اور روشنی کيلۓ ايک درميانہ سائز کا سوراخ بنايا گيا تھا، جب مينہ پڑتا تو ميں چھت پر جاتا اور سوراخ پر چٹني بنانے والي کونڈی کو رکھ ديتا تاکہ دالان کے اندر مينہ نہ پڑے- چونکہ ميرے ابا جی لاہور ميں ملازمت کرتے تھے اسليۓ ميں خود کو کافی آزاد سمجھتا تھا- کھيتوں ميں پاني لگانے کي باري پير کي رات کو اکثر آتی تھي، بعض دفعہ ميں دادا جی کے ساتھ کھيتوں کو پانی لگانے ڈيرے جاتا تھا جو کہ پنڈ سے پانچ کلوميٹر کے فاصلے پر تھا، اس دوران لالٹين ميرے پاس ہوتی تھي، آٹا بنانے کيلۓ ”خراس” استعمال ہوتے تھے، خراس ميں آٹا پيسنے والے کے بيل اپنے ہوتے اور ان بيلوں کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا ديۓ جاتے، اس دوران ميں ان بيلوں کو ہانکنے کيلۓ بنی کاٹھی پر بيٹھ جاتا اور گول دائرے ميں خوب جھولے ليتا- گرميوں کی دوپہر ميں خواتين کپڑے دھونے کھالے پر جايا کرتی تھيں جبکہ ميں وہاں کھالے ميں ڈُبکياں لگاتا اور کپڑے سوکھنے کيلۓ اردگرد کے کھيتوں ميں گھاس پر ڈال کر اپنے کچھ ”ہونے” کا تاثر پيدا کرتا- سرديوں ميں کماد کی فصل ہونے پر گُڑ بنانے کيلۓ بيلنا ہوتا، ساري رات گُڑ نکالا جاتا اور گرم گرم گُڑ کھانے کے مزے ليتا- شام کو لوگ ايک جگہ اکٹھے ہوتے اور مختلف موضوعات پر باہم تبادلہ خيال کرتے، اس محفل ميں ”حقہ” ڈھول کا کام ديتا تھا اور اکثر کسان حقہ کے دو چار سُوٹے لگانے کيلۓ آ بيٹھتے، فدوی کو يہ شرف بھي حاصل ہے کہ اللہ بخشے دادا جي کو ميں بعض حقہ دھر کر ديا کرتا تھا جبکہ حقہ ميں پانی ڈالنا تو ميری ڈيوٹی ہوتی تھي- بعد ازاں پنڈ ميں بجلی آگئی اور کسانوں کو آرام پرست اور سست بناديا، صوتی آلودگی کا آغاز ہوگيا اور پرسکون ماحول کا جنازہ نکل گيا، لوک گيتوں، ماھيوں، ٹپوں، ککلي، وغيرہ کی جگہ پاپ ميوزک اور فلمی گانوں نے قبضہ کرليا- آج بھی ميں اپنے پِنڈ جاتا ہوں ليکن تب جب کوئی غمی خوشی کا موقع ہو يا پھر زمينوں کے معاملات جاننے کيلۓ دورہ کرتا ہوں- اب تو پنڈ، پنڈ رہا ہی نہيں ہے يہی وجہ ہے کہ زيادہ جی نہيں کرتا جانے کا- بہرحال چونکہ ہر عروج کو زوال ہے لہذا اميد ہے کہ ہميں نہ سہی ہماري آنے والی نسليں ايک بار پھر پِنڈ کی طرف لوٹ آئيں گي---
جناب چوہدری صاحب بندہ ناچیز بھی زندگی کے بیس سال گجرات کی تحصیل کھاریاں کے گاؤں نور جمال میں گزارنے کے بعد اب اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی میں ایک رپورٹر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ آپ مچھیانہ کی جن بیماریوں کا ذکر آج کر رہے ہیں یہ بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب کوئی نئی بات کیا کریں۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ کيوں خوش نہیں اپنےگاؤں کی ترقی پر؟ خود تو ناروے بيٹھے ہيں اور جب گاؤں والے خوش ہيں تو آپ کيوں ’گزرا ہوا زمانہ آتا نہيں دوبارہ‘ہو رہے ہيں؟ جبکہ يہی کام بجلی والے لوڈ شيڈنگ کر کے آپ سے اچھی طرح کر رہے ہيں۔ کيا يہ اچھی بات نہيں کہ لسی ميکر آنے کی وجہ سے وقت کی بچت ہو جاتی ہے؟ پيسوں کی تو ہوتی نہيں کسی سے، گاؤں والے چار تين انگليوں ميں اچھے لگتے ہيں آپ کو جو ٹو کے کے حمايتی بن رہے ہيں اور يہ کوئی بری بات تو نہيں، جانور انسان کا منہ تکنا مصروف زندگی ہے۔ خير اب اگلا بلاگ ’ميرےگاؤں ميں ٹی وی، فريج، استری آئی ہے‘پر نہ لکھ لينا!