| بلاگز | اگلا بلاگ >>

’نامعلوم‘ دہشت گرد

حسن مجتییٰ | 2008-04-11 ،16:57

وہ ایسے نامعلوم دہشت گرد ہیں جنکا سب کو معلوم ہے کہ کون ہیں پھر بھی ’نا معلوم‘ بتائے جاتے ہیں۔
blo_hasan_karachi_150.jpg

کراچی سٹی کورٹس کے سامنے وکیلوں کے چیمبرز طاہر پلازہ کی چھٹی منزل پر کمرہ نمبر چھ سو گیارہ میں وکیل الطاف عباسی سمیت چھ لوگوں کو ان کے دفتر کی کھڑکی سے کیمیکل پھینک کر زندہ جلا دینا کس کا طریقہء واردات ہو سکتا ہے، سب کو معلوم ہے لیکن ’قاتل نامعلوم‘۔

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو انیس سو اسی کی دہائي میں کراچی میں لکڑیوں کے ٹالوں میں سوئے ہوئے پٹھانوں کو زندہ جلا دینا سب جانتے ہیں کہ کس کی واردات تھی۔ شاہ فیصل کالونی نمبر ایک میں اپنے ہی بچپن کے دوست اور ساتھ کرکٹ کھیلنے والے پٹھان بچے کو اس کے کنبے سمیت لکڑیوں کے ٹال میں زندہ جلانے والے ’شرفاء کمیٹی‘ والے کون تھے بھلا اب حقیقی کہ غیر حقیقی؟ ’نامعلوم‘ سب ’نامعلوم‘!

کراچی پریس کلب والی دہشتگردی سے لے کر آج تک کراچی میں چھیاسی لوگ ٹارگٹ کلنگ کا ناشانہ بن چکے ہیں۔۔۔ انہیں کس نے مارا؟ ’نامعلوم‘۔

دہشتگرد ظالم بھی ایسے کہ زندہ جلا کر سوختہ تن لاشیں لیکر انکے جنازے بھی خود پڑھواتے ہیں۔
جلا کر مارے جانے والے بھی جانے پہچانے مشرف مخالف وکلاء تھے۔ لیکن قاتل نامعلوم؟

بقول فراز:
’کون اس راز کو جانے گا
ہم ساری لاوارث لاشیں
کون ہمیں پہچانے گا‘

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 8:58 2008-04-12 ,Annie Syedha :

    ’نامعلوم‘ کو ’معلوم‘ بنانے کے ليے جو مردانگی چاہیے حسن صاحب! وہ بازار سے نہیں ملتی، میں خود حيران ہوں کہ ميڈيا کی
    آزادی کے نعرے لگانے والے چينلز بھی کمزور پر ہی دانت تيز کرتے ہیں۔ ارباب اور ’شير‘ صاحب کی ٹھکائی لگانے والے تو ’معلوم‘ اور انسانوں کو زندہ جلانے والے ’نامعلوم‘ ! واہ کيا ’سيلف سينسرشپ‘ ہے!

  • 2. 11:11 2008-04-12 ,اسماء پيرس فرانس :

    نامعلوم۔۔۔ استعفی کا حال بھی ايسا ہے جيسے اکثر میں اپنے بچوں کی وفاداری پرکھنے کے ليے گھر کے دروازے کے پاس جا کر کہتی ہوں ’میں گھر سے نکل رہی ہوں‘۔ بچے دوڑ کر آ کر مجھے کہتے ہیں، ’امی نہ جاؤ‘، تو میں بھی فوراً واپس آ جاتی ہوں۔ ابھی ايک خبر استعفی لگنے کی آتی ہے، بيچ ميں دوسری کوئی خبر بھی نہیں پڑھنے ديتے کہ اگلی ہی شہہ سرخی ميں واپسی۔۔۔

  • 3. 12:21 2008-04-12 ,بی جے :

    ايک۔۔ دو اور۔۔۔ سب خاموش۔ قاتل نامعلوم۔۔
    مجتبی اگر آپ نے اس طرح لکھنا بند نہ کيا تو میں مزيد آپ کے کالم اور بلاگ پڑھنے سے استعفيٰ دہے دوں گا۔
    شام تک جواب آيا تو استعفيٰ واپس۔ اچھا اگر نہیں آيا تو بھی واپس!

  • 4. 12:38 2008-04-12 ,Javed Kalim :

    ’منزل نہیں رہنما چاہيے‘ کا فلسفہ کيسے حلق سے اترے گا۔ پٹھانوں کے ساتھ ہزاروں سندھي بلکہ خود مہاجر بھی تو جذبہ ’حق پرستي‘ پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ويسے بھی حساب سيدھا ہے، زيرو سے سٹارٹ ہوتا ہے اور نائن پہ خاتمہ۔ بس زندگی سارا ’نائن زيرو‘ کا ہی تو کھيل ہے۔

  • 5. 17:59 2008-04-12 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائي! يہ نامعلوم دہشت گرد اور معلوم شرفاء کون ہيں ہر کسی کو معلوم ہے۔ اگر معلوم نہيں تو متعلقہ ذمہ داروں کو اور مطلب پرست قائدين کو اور مفاد پرست غير ملکی سفراء کو۔ يہ سب کچھ اتنی ڈھٹائی سے ہو رہا ہے کہ سب لوگ سمجھتے ہيں کہ انہوں نے شہروں کے ساتھ ساتھ انسانی دماغوں کو بھی يرغمال بنا رکھا ہے۔ يہی نامعلوم لوگ معصوم افراد کو قتل کر کے شہر کو قتل وغارت ميں ڈبو کر چور مچائے شور جيسا رويہ اپناتے ہيں، حتي کہ مردے بھی ہائی جيک کر ليتے ہيں۔ انہی نامعلوم افراد کے خلاف متاثرين ورثا کہہ اٹھتے ہيں کہ ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہيں۔ سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ يہ معلوم مافيا والے کب تک ’نامعلوم‘ رہیں گے؟

  • 6. 19:10 2008-04-12 ,آصف کاردار :

    جناب حسن صاحب، ہم لوگ دراصل شخصيت پرستی ميں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ہم بحیثيت انسان اپنی ذمہ داری سے بہت دور جا چکے ہیں۔ ہمارے نذديک ان نام نہاد ليڈروں کی اہميت زيادہ ہے جو ہمیں اپنے مقاصد کے ليے جب چاہتے ہیں استعمال کر ليتے ہیں کيوں کہ وہ ہماری اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں۔ ہم اگر اتنی خدا پرستی کرتے تو شايد ہماری ايسی حالت نہیں ہوتي۔ يہی وجہ ہے کہ ہم ان انسان دشمن لوگوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ہم بذات خود اس کے ذمہ دار ہیں۔

  • 7. 20:09 2008-04-12 ,shahzad :

    واہ جی واہ! بہت اچھا لکھا آپ نے مگر یہ یہاں کا المیہ ہے کہ قاتلوں کو سزا نہیں، حکومت ملتی ہے۔ جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوگی یہ سب تو ہوگا۔۔۔

  • 8. 22:03 2008-04-12 ,suleman khan :

    اسلام و عليکم حسن بھائی۔ آپ نے ٹھيک لکھا ہے۔ بس ايک بات ميری سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ يہ کہ میں بچپن سے سنتا آيا ہوں کہ اوپر والے کی لاٹھی بےآواز ہے۔ يا کہا جاتا ہے کہ اوپر والے نے ڈھيل دی ہوئی ہے، ان کو دنيا میں ہی ديکھا دے گا۔ مگر میں اب يہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کراچی میں يہ سب ہوتے ہوئے آج پندرہ سال کا عرصہ ہوگيا۔ میں شروع میں خود اس تنظيم کا کارکن رہا ہوں۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ يہ لوگ ملوث ہیں مگر بدنام ’نامعلوم‘ افراد ہوتے ہيں۔ آخر ان کی ڈور کب کچھے گي؟

  • 9. 3:54 2008-04-13 ,آصف کاردار :

    جناب حسن صاحب،
    يہ جو کچھ ہوا وہ ہمارے قومی مزاج کی عکاسی ہے۔ ہم دراصل خدا اور انسانيت کی اطاعت سے زيادہ ان نام نہاد ليڈروں کے طابع ہیں جو ہماری اس کمزوري سے ہميشہ فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔ جب تک ہم شخصيت پرستی چھوڑ اصولوں کا ساتھ نہیں ديتے ہم اسی طرح گمراہ ہوتے رہیں گے اور يہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے معصوم جانوں کے ضياع پر اسی طرح آنسو بہاتے رہیں گے۔

  • 10. 9:51 2008-04-13 , ماجد کاظمی :

    جناب حسن صاحب میں آج تک آپکی لکھی ہوئی اکثر تحريروں سے اکتر اتفاق نہیں کر سکا مگر آج جس دليری سے آپ نے ايک فاشِسٹ تنظيم کے بارے میں جو لکھا، میں آپ کو داد تحسين دئیے بغير نہ رہ رسکا اور کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور ہوگيا۔ پورے پاکستان بالخصوص کراچی کے لوگ اور ٰحق اور سچ کي آوازٰ ميڈيا والے اس ’نامعلوم‘ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کو ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نام دے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ مگر اب وقت آگيا ہے کہ اس مصلحتی نام کو چھوڑ کر اصل نام ہی عوام کے سامنے لايا جائے تاکہ اس تنظيم کی عوامی طاقت کو کم کر کے اسے تنہا کيا جائے اور اس تنظيم کی صورت میں ايک عذا ب جو کراچی پر مسلط ہے اسے ختم کيا جا سکے۔

  • 11. 10:36 2008-04-13 ,وزيراسلم خٹک ، ابوظہبي-يو اے ای :

    آداب! حسن صاحب پاکستان میں ايسا ہی ہوتا ہے۔ صرف کراچی ہی میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہر جگہ اسٹيبلشمنٹ کچھ لوگوں اور گروہوں کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے۔ يہ دونوں ايک دوسرے کے مفادات کا بطور خاص خيال رکھتے ہیں۔ ليکن کبھی نہ کبھی خدا کو اپنی خلقت پر رحم آہی جاتا ہے تو ان خلق خدا کے دشمنوں میں ٹکراؤ کی صورت بہرحال پيدا ہو ہی جاتی ہے۔ اسٹيبلشمنٹ ان کو بدمست ہاتھی سمجھ کر اپنا رستہ صاف کر ديتی ہے اور تب ہی ہم يہ سن ليتے ہیں کہ مقتول مجرم پوليس کو پچاس سے زائد مقدمات میں مطلوب تھا (يعنی وہ پچاس جرائم تک ناقابل دست اندازی تھا)۔ جب تک کراچی ميں اسٹيبلشمنٹ اور ان گروہوں میں عہدو پيماں پر عمل ہوتا رہےگا خلق خدا ذليل ہوتی رہےگی اور مجرموں کے دامن صاف۔ اس لیے ہمیں مايوس ہونے کی بجائے کسی صورت ان میں طلاق کی نوبت آنے کی دعا مانگنی چاہيے۔ شايد پھر لوگ سن لیں کہ مجرموں کے جرائم کی تفصيل اتنی لمبی ہے کہ لکھی نہیں جا سکتی۔ لہذا مختصراً وہ وغيرہ وغيرہ مقدمات میں مطلوب تھے۔
    خيرانديش
    وزير اسلم خٹک، ابو ظہبی

  • 12. 10:54 2008-04-13 ,Rehan :

    بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ برطانوی حکومت کو سب معلوم ہے۔۔۔ پھر بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔

  • 13. 20:26 2008-04-13 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    حسن مجتبٰی صاحب
    :شايد ابنِ انشا نے امريکہ کے بارے ہی لکھا تھا
    ’کل چودھويں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تيرا
    کچھ نے کہا يہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تيرا
    ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے
    ہم چپ رہے، لب سی لیے، مقصود تھا پردہ تيرا‘

    سب جانتے ہیں امريکہ بذريعہ جنرلز آف جی ايچ کيو۔۔۔ اگر غلط نہیں تو۔۔۔

  • 14. 20:33 2008-04-13 ,Anonymous :

    نامعلوم اپنے قائد کے فرمان کی بجاآوری کر رہے ہیں۔ قائد تحريک صدر بش کے اس قول کو عملی جامہ کا فريضہ پورا کر رہے ہیں جس کے تحت ’جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے‘۔ اس کی وجہ شايد يہ ہو کہ پاکستان میں اقتدار تک پہنچنے کے ليے بذريعہ واشنگٹن جانا پڑتا ہے۔۔۔

  • 15. 22:45 2008-04-13 ,sarfraz sial :

    حسن بھائی آپ نے بھی تو بھائی کا نام گول کر ديا ناں؟

  • 16. 23:30 2008-04-13 ,انور حسين :

    افسوس اس بات کا ہے کہ ہم انسانی خون کو بھی سياسی اور لسانی تعصب کی عينک سے ديکھتے ہیں۔ کراچی 1972 سے میں بھی لہو لہان ديکھ رہا ہوں۔ لسانی فساد، سانحہ علی گڑھ، بد ترين بابری آپريشن، ستائيس دسمبر کو بينظير کے قتل کے بعد درجنوں انسانوں کا زندہ جلا ديا جانا۔ کيا بےگناہ انسانوں کے خون کا رنگ يا زبان علیحدہ علیحدہ ہے؟ اگر نہیں تو ہم ان کے قاتلوں کی شناخت میں کيوں سنجيدہ نہیں؟

  • 17. 8:14 2008-04-14 ,ظہور احمد سولنگی :

    حسن بھیا یہ سب کو معلوم ہے کہ قاتل کون ہے۔ بس بےبسی ہے۔ ایک انجانا خوف۔ ویسے بھی ان قاتلوں کے بارے میں تو پورے ملک کو پتہ ہے۔ حد تو یہ ہے یہی لوگ بعد میں تعزیت کرتے ہیں اور ہلاک شدگان کے لواحقین سے ہمدردی جتاتے ہیں۔ کاش ہمارے اندر اتنی ہمت آجائے کہ ان کو بتائیں یہاں انسان بستے ہیں کوئی جنگلی جانور نہیں۔ پتہ نہیں مظلوم قوم کب بیدار ہوگی اور ان ظالموں سے اپنا حساب لے گی۔

  • 18. 9:54 2008-04-14 ,Ishtiaq Ahmed :

    حسن صاحب آپ کی تحریر پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ بھی ایک سیاسی لیڈر بن گئے ہیں۔ جذبات سے بھرپور تحریر بلکہ تعصب سے بھرپور۔۔ آپ کیا آگ کو اور بھڑکانا چاہتے ہیں؟ آپ کو صرف یہی لاوارث لاشیں یاد آئیں؟
    اگر یاد کروانا ہے تو ان ہزاروں کو بھی یاد کریں جو انیس سو اسی میں اورنگی میں زندہ جلائے گئے تھے۔۔۔ میرے بھائی بات نکلی گی تو بہت دور تلک جائے گی۔۔۔ صرف یہ گزارش ہے کہ تعصب پسند نہ بنئیے بلکہ ایک محب وطن صحافی بنئیے۔۔۔

  • 19. 10:05 2008-04-14 ,ظہير چغتائی :

    محترم حسن صاحب اب آپ اپنی سکيورٹی کا خصوصی انتظام کر لیں۔ دکھتی رگوں کو اس طرح بےخوفی سے چھيڑنا کوئی آپ سے سيکھے۔ ليکن احتياط بہتر ہے۔

  • 20. 10:08 2008-04-14 ,shafeeq :

    سچ لکھ کر آپ نے تو حد کر دی۔

  • 21. 12:06 2008-04-14 ,Khurram :

    حسن صاحب خدا کے لیے تعصب کی آگ نہ لگائیں۔

  • 22. 10:38 2008-04-15 ,shoaib :

    حسن صاحب میں آپ کے جذبے اور آپ کی جرآت کو سلام کرتا ہوں جو ایسی فاشِسٹ تنظیم کو بےنقاب کیا ہے اور ساتھ ہی ان سولہ کروڑ عوام پر نادم ہوں جو سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔ بس ایک آپ ہیں اور ایک عمران خان جس نے اپنے ضمیر کے سامنے اپنے آپ کو سرخرو کیا ہے اور یہ اِشو سامنے لایا ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔