دبئی چلو سیاست
کسی زمانے میں پاکستان کی دیواروں، ٹرکوں اور بسوں پر بینرز اور پوسٹرز لگے ہوئے ہوتے تھے اور چاکنگ نظر آتی تھی 'چلو چلو رائے ونڈ چلو'، 'چلو چلو کراچی چلو'، 'ادھر چلو ادھر چلو'۔۔۔
لوگ ایسے گھن چکر اور کنفیوژن میں پھنس گئے تھے کہ وہ کہاں کہاں تک چلیں۔ اسی دور میں ایک قوالی بھی مشہور ہوئي تھی 'مدینے چلے آؤ۔۔۔ مدینے چلے آؤ'، یعنی کہ بڑا چل چلاؤ کا عالم تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب 'دبئي چلو بوم' ختم ہونے لگا اور پاکستان میں خلیج سے پھر بےروزگار بن کر واپس آنے والے لوگوں سے سڑکیں اور ویہلے بندوں کے تھڑے والے ہوٹل بھرنے لگے تھے۔ ایسی واپسی اور اس سے پہلے والے دور کو میرے ایک سیالکوٹ کے دوست نے یوں بیان کیا تھا۔ کہنے لگا 'پہلے جب ہمارے شہر کے لوگ باہر ہوتے تھے تو میرے محلے میں قصائی گوشت آکر رکھتا تھا تو چند دو گھنٹوں میں اسکا سارا گوشت ختم ہوجاتا تھا اور اب سارا دن بیٹھ کر اس پر سے مکھیاں اڑا رہا ہوتا ہے۔'
لیکن آج کے پاکستان میں سیاستدانوں کا دبئی چلو بوم آیا ہوا ہے۔ اٹھارہ فروری کے انتخابات سے آصف زرداری اور نواز شریف کی سیاسی بےروزگاری ختم ہونے سے 'چلو چلو دبئي چلو بوم' پھر واپس آگيا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن مجتبییٰ صاحب، سلام قبول ہو! آپ نےواقعی ’چلو چلو رائے ونڈ چلو‘، ’چلو چلو کراچی چلو‘، ’ادھر چلو ادھر چلو‘۔۔۔ سے لے کر سارے ’چلو‘ گنوا دئیے ہیں۔ بس اب دھڑکا ہے کہ آخري ’چلو‘ کچھ يوں نہ ہو جائے: بھائی جان قدردان فلم ختم ہوئی۔ کھٹيا کھڑی ہوئی، صف لپيٹو۔۔۔ نہیں تو ہم آتے ہیں۔۔۔ صف اور کھٹيا کے ساتھ تمہیں بھی لپيٹنے۔۔۔ نہ سمجھو گے تو داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔