| بلاگز | اگلا بلاگ >>

پیریں پے جاؤ !

یا تو یہ حال تھا کہ الیکشن کمیشن نے اٹھارہ فروری کے انتخابات سے پہلے جب میاں برداران کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کئے تو میاں برادران نے مارے غیرت کے اعلی عدلیہ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا کیونکہ وھاں وہ پی سی او ججز بیٹھے ہوئے تھے جنہیں میاں برادران غاصب ججز سمجھتے ہیں۔ یا نوبت با ایں جا رسید کہ دونوں بھائی دو نومبر کی عدلیہ کی بحالی کے لئے تین نومبر کے پی سی او ججز کو بطور کڑوی گولی قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔
blo_shehbaz_nawaz203.jpg


اس سے قبل میاں برادران کو ملک چھوڑنے کی کڑوی گولی نگلنی پڑی۔پھر بقول انکے ایک ناجائز صدر کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کا تلخ فیصلہ کرنا پڑا۔پھر حکومت میں شامل ہونے کا کڑوا فیصلہ کرنا پڑا اور پھر اسی صدر سے حلف لینے کا زھر پینا پڑا۔

ان سب تلخ فیصلوں کے بعد مسلم لیگ ن جو اب مسلم لیگ ( مجبور) میں تبدیل ہوچکی ہے صدر مشرف کے ہوتے ہوئے پانچ برس تک پنجاب اور مرکز میں احتجاجاً حکومت کرنے کا تلخ فیصلہ بھی کرلے تو تعجب نہ ہوگا۔

جو کام زرداری اور ہمنوا بخوشی کررہے ہیں وھی کام مسلم لیگ ( مجبور) پہلے بڑک مار کر کرنے سے انکار کرتی ہے اور پھر اسے کڑوی گولی کہہ کر نگل لیتی ہے۔

میاں برادران کے علاقے گوالمنڈی کا محاورہ ہے
'چنڈ مار کے پیریں پے جاؤ'
( ترجمہ آپ خود کرلیں)۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:00 2008-05-06 ,Dr Alfred Charles :

    وسعت بھائي! ہائے نيرنگی سياست کی بےاصولياں اور ہم بے بس پستے ہوئے عوام الناس!

  • 2. 17:50 2008-05-06 ,اسماء پيرس فرانس :

    ميں نے تو ترجمہ کر ليا ہے، سندھی بلوچی اور پٹھان کيا کريں گے؟

  • 3. 18:09 2008-05-06 ,sana khan :

    مسلم ليگ مجبور بننے کی ناکام کوشش کرے يا کسی سٹار پلس کے ڈرامے کی ابلہ ناری جو بعد ميں ويمپ بن جاتي ہے، ہميں کيا۔ ان لوگوں کا تو کام ہی يہی ہے۔ ’نام بڑے اور درشن چھوٹے‘۔ کافی ہندی ہوگئی ليکن ابھی مجبور ہوں، ترجمہ کرنے ميں ’چنڈ مار کے پیریں پے جاؤ‘، ترجمہ ’موجاں موجاں نگاڑايہ ڈوھولنا‘ کا ہوتا تو آسانی ہوتی ليکن شايد اس کا مطلب ’پہلے ڈنڈا مار کے پھر پيروں پر گر جانا‘، مطلب ’دردِ سوری‘!!

  • 4. 20:08 2008-05-06 ,اے رضا :

    کبھی ’ٹام اور جيری‘ کے قصے تو کبھی سارس اور لومڑی کی کہانی۔ بات غلط نہیں کہتے آپ۔۔۔ ليکن آزما ديکھنے ميں کيا حرج ہے؟ بالخصوص جب کوئي متبادل بھي نظر نہ آئے۔ ويسے لاہوريوں کے ہاں ايک محاورہ اور بھي ہے کہ جھوٹے کےگھر تک پہنچو۔ يعني اس کا بلف کال ہونے دو۔ يہ نہ کہے، ’تُسي کرن اي نئیں دِتّا‘ ( ’آپ نے کرنے ہي نہ ديا، میں تو چاند لا رہا تھا‘)

  • 5. 21:50 2008-05-06 ,منير حسين :

    ميان برادران کے خلاف تعصب کا موقع آپ کہاں جانے ديتے ہیں، چاہے وہ سونے کے بن کر کيوں نہ آجائیں۔ ججوں کی بحالی اگر پي پی پی کا ايشو ہوتا تو آپ نے واہ واہ کرنی تھي۔ کيوں کہ يہ مسئلہ ايک پنجابی نے اٹھايا ہے اس ليے آپ کو يہ مسئلہ نہیں لگتا۔

  • 6. 6:40 2008-05-07 ,hassan muruza :

    کیا پاکستان کے تین چیف مکمل طور پر آزاد ہیں؟ کیا تینوں چیف صاحبان کا تقرر سیاسی طور پر صدر اور وزیر اعظم کے ذریعے نہیں ہوتا؟ کیا تینوں چیف صاحبان سیاسی طور پر تقرری حاصل کرنے کے بعد آزادانہ طور پر کام کر سکتے ہیں؟ کیا بقیہ صاحبان اللہ کی طرف سے موقع ملنے کا انتظار نہیں کریں ‏گے؟ پھر اللہ جسے چاہے عزت دے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ تینوں محکموں کے (چیف آف آرمی، چیف جسٹس اور چیف آف الیکشن کمشن) کو اپنے چیف بذریعہ محکمہ جاتی سینیارٹی کے تحت ان ہی کے محکمہ کی کمیٹی کو اختیار دیا جائے، البتہ تقرری کے دستخط صرف دستوری طور پر صدر کے ہوں یا و‌زیر اعظم کے بطور ربر سٹیمپ کے۔ تو انشااللہ پھر آئندہ کبھی بھی تینوں چیف صاحبان سیاسی اور عوامی تنقید کا نشانہ نہیں بنیں گے اور نہ ہی آئندہ دوبارہ کبھی پاکستان میں ایسی صورتحال جنم لے گی۔ اور نہ ہی آئندہ کوئی جرنیل آ سکتا ہے اور نہ ہی آئین کو کوئی بار بار توڑ سکتا ہے۔

  • 7. 7:54 2008-05-07 ,Mahjabeen khan :

    وست صاحب، ’يہ پبلک ہے سب جانتی ہے‘ کہ کب کون نظريہ ضرورت کے تحت جھکتا ہے اور کڑوی سے کڑوی گولی نگلتا ہے۔ بس يہ سياست دان ہی عوام کو کاکا سمجھتی ہے!

  • 8. 11:17 2008-05-07 ,وحيد :

    وسعت صاحب ! اس سٹوری لائن کے ساتھ تو ’چنڈ کھا کے پيريں پےجاؤ‘ زيادہ مناسب حال رہے گا۔

  • 9. 13:51 2008-05-07 ,sana khan :

    کاش کچھ پشتو ميں ہوتا، ايک لفظ سمجھ نہیں آ رہا۔ شايد مطلب ہو ’جھاڑو مار کے پيروں سے جاؤ‘؟

  • 10. 15:24 2008-05-07 ,نجيب الرحمان سائکو :

    پيارے وسعت صاحب، آداب! جس خوبصورتی اور دريا کو کوزہ ميں بند کرتے ہوئے آپ نے ن ليگ کی نفسيات معزز قارئين کے سامنے رکھي ہے وہ سنہری حروف ميں لکھنے کے قابل ہے۔ جس جماعت کی بنياد ہی بيک وقت آمريت وملائيت پر کھڑی ہوئی ہو اس سے ايسی ہی اميد رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہيں ہے۔ ’مجبور ليگ‘ کي چنڈ مار کے پيريں پے جاؤ کی دو زندہ حقیقتیں اور مثالیں يہ بھی ہیں جن ميں پہلي يہ کہ جب نوازشريف نے صدرِپاکستان جناب محترم پرويزمشرف صاحب جو اس وقت آرمي چيف تھے، کے طيارہ کو اترنے نہ ديا گيا تو چيف صاحب نے جوابی کارروائی کی اور اس کے ردعمل ميں مياں صاحب نے ذاتي جان ومال کی حفاظت کی غرض سے ’معاہدہ‘ کرنے ميں ذرا بھی دير نہ کي، اور دوسری حقيقت يہ کہ چونکہ ’مجبور ليگ‘ دن دہاڑے سپريم کورٹ پر حملہ میں پانی کی طرح صاف شفاف طور پر ملوث ديکھی گئی جبکہ آج ’عدليہ کی آزادي‘ کا ڈھنڈورا پيٹنے ميں پوری دنيا ميں اس کا کوئی ثانی نہيں ملتا۔ حاصل کلام ان کا يہ فلسفہ سياست ہے کہ ’کدی تولہ تے کدی ماشہ‘ اور سب سے بڑھ کر ’چنڈ مار کے پيريں پے جاؤ‘۔ آخر ميں مودبانہ عرض کرتا چلوں کہ ن ليگ کو ’مجبور ليگ‘ صرف اور صرف چاروں صوبوں ميں يکساں مقبول، قيام پاکستان سے آج تک سب سے بڑی اور نظرياتی سياسي پارٹی پاکستان پيپلزپارٹی نے ہی بنايا ہے۔ جیے بھٹو! سدا جیے، آمين!

  • 11. 16:03 2008-05-07 ,جاويد گوندل-بارسيلونآ، اسپين :

    مگر ايک بات قابلِ غور اور حقيقت کے قريب ہے کہ برادرانِ شريف ميں شرافت و غيرت کی چنگاری ابھی باقی ہے جو کبھی بھی شعلہ بن سکتی ہے، جبکہ پاکستانی جرنيلوں، بيوروکريٹس، اخبار مالکان اور سياستدانوں ميں يہ جنس خال خال ہی ملتی ہے۔ اب وجہ کچھ بھی ہو سکتي ہے۔ جمہوريت سے محبت يا آمر مشرف سے بغض؟ يہ آنے والا و قت بتائے گا۔

  • 12. 19:42 2008-05-07 , Wazir Aslam Khattak , UAE :

    آداب! مسلم ليگ ن فی زمانہ واقعی ايک مجبور جماعت ہے۔ اس جماعت کي سب سے بڑي خوبی اس کا عوام کي دکھتي نبض پر ہاتھ رکھنے کا فن ہے جس کے سہارے اس کو بلاشبہ پاکستان کی دوسری بڑی سياسی پارٹی کا اعزاز حاصل ہے۔ اب عوام کی اميديں بھر آتی ہیں يا ان پر پانی پھرتا ہے۔ مسلم ليگ کو اس سے فرق پڑنا نہیں جب تک کہ جذبات کی رو میں بہنے والا مايوس پاکستانی زندہ اور پيپلز پارٹی اور ہر معاملے میں اس کے مشکوک کردار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قابل غور بات ہے کہ مسلم ليگ نے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کا فن پيپلز پارٹی سے مستعار ليا ہے مگر خود پيپلز پارٹی جو اب بھی بلاشبہ وفاق کی علامت اور سب سے مقبول سياسی جماعت ہے بہت سرعت سے عوام (جو کبھی اس کی طاقت کا سرچشمہ ہوا کرتے تھے) سے فاصلہ رکھنے کی راہ پر گامزن ہے۔ محترمہ بينظير صاحبہ کی غير طبعی موت سے پہلے پيپلز پارٹی امريکی مفادات کا تخفظ کرنے والوں کا ايک ٹولہ ہی تو معلوم ہوتی تھی۔ مگر محترمہ کی ہلاکت کے نتيجہ ميں ہمدردی کی لہر نے پيپلز پارٹی کو شايد آخری موقع فراہم کيا۔ اگر زرداری صاحب، بھٹو صاحب مرحوم کی پارٹی کو پھر عوام کی آواز دے سکے تو ٹھيک ورنہ مسلم ليگ ہی مستقبل کی واحد وفاقی سياسی پارٹی ہو سکتی ہے کيونکہ موجودہ سياسی داؤ پيچ ميں مسلم ليگ کی ہر پسپائی کو لوگ اس کی مجبوری کا ہی نام ديتے ہیں۔ مخلص۔

  • 13. 23:08 2008-05-07 ,Imran Khan :

    وسعت بھائی، کیا مثال دی ہے آپنے! مثال دینے میں آپ کی مثال نہیں ملتی۔ آپ کی دانشمندی کا تو میں بیسویں صدی سے شیدائی ہوں۔۔۔!

  • 14. 2:49 2008-05-08 ,جانگڈا :

    بولو جی تم کيا کيا ’نگلو‘گے؟ يہی مرکزی خيال ہے وسعت جی کے بلاگ کا۔ افسوس کی بات يہ ہے مياں صاحب کی ايسی کوئی مجبوری بھی نہيں جو زرداری کو کئی ايک لاحق ہیں۔ مياں صاحب نے انتخابات میں سب کی توقعات کے برخلاف کہیں زيادہ نشستیں حاصل کیں، ليکن اس کے باوجود وہ شکست کھانے والوں کو کڑوی گولياں نگلوانے کی بجایے خود اس کام پر لگ گئے۔ ايک اعتبار سے انتخابات میں فاتح کی حيثيت سے سامنے آنے والی ن ليگ نے این آر او زدگان کا دامن يوں تھاما ہے کہ ’تو چھڑے تو چھڑے میں نا ہی چھوڑوں‘ کا گمان ہوتا ہے۔ عوام سے قوت لے کر پيش قدمی کی بجائے پسپائی سے ايک بار پھر يہ تاثر پيدا ہو رہا ہے کہ اگر غلطياں انسان کو سکھاتی ہیں تو مياں صاحب کو ابھی ڈھيروں غلطياں کرنے کی ضرورت ہے۔

  • 15. 11:14 2008-05-08 ,محمد انس علی رضا :

    منير حسين صاحب نے صوبائيت کی بات کر کے مزہ کرکرا کر ديا۔ يہاں دن رات اخبارات کے کالم سے ليکر ميڈيا کے شوز تک ہر جگہ پي پی کے خلاف زہریلا پروپيگنڈہ کيا جا رہا ہے مگر پی پی نے کبھی لسانيت کی بات نہیں کي۔ شاید يہی وجہ ہے کہ پی پی ايک قومی جماعت ہے اور مجبور ليگ سينٹرل پنجاب تک محدود۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔