ایکچولی آپ ڈونٹ نو!
اگر آپ کسی بھی برطانوی یا امریکی یونیورسٹی میں داخلے کے لئے انگریزی بطور غیر ملکی زبان کا ٹوفل یا آئی ای ایل ٹی ایس امتحان دینے کے لئے بیٹھیں اور اس طرح کی انگریزی لکھیں تو آپ کتنے نمبر حاصل کر پائیں گے۔
یا اگر آپ کسی انگریزی مباحثے میں اس طرح کی زبان استعمال کریں گے تو باقی شرکا آپ کے سر کو پیپر ویٹ یا سامنے پڑے ہوئے گلاس سے نشانہ بنانے کے بارے میں کتنی دیر نہیں سوچیں گے؟
"Well, now a days I am facing so much masail that my
zindagi become a takleef deh joke.But I have to samna it. There is no choice baqee hay."
میں اور آپ غلط انگریزی بولنے سے کتنے خوفزدہ ہوتے ہیں۔کس طرح اپنے تلفظ اور گرائمر کودرست رکھنے کے لئے محنت کرتے ہیں۔کہیں ہماری جہالت نہ سامنے آجائے۔کہیں ہم مذاق کا نشانہ نہ بن جائیں ۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
لیکن جب ہم اردو یا اپنی ہی کوئی مادری زبان بولتے ہیں تو اس وقت ہمارے اندر وہ خدشات کیوں جنم نہیں لیتے جو انگریزی کا ایک بھی جملہ منہ سے نکالنے سے پہلے ہمارے گرد سانپ کی طرح کنڈلی ڈال لیتے ہیں۔
ایکچولی آج کل کی دنیا میں کمپٹیشن اتنا کٹ تھروٹ ہوگیا ہے کہ اپوننٹ کو لائٹلی نہیں لینا چاہئیے۔جب تک ہماری پروڈکٹ کمپیٹیٹوو نہیں ہوگی۔اٹ از امپوسیبل ٹو سروائیوو ان دس ماحول۔میرے کو میری مدر کی یہ بات یاد آرہی ہے کہ جب تک ہم ٹرتھ فل نہیں ہوئیں گے۔ہمارے ورڈز کو کوئی امپورٹینس نہیں دے گا!۔
تسی اس طرحاں کرو کہ لیفٹ ٹرن لے کے جدوں راونڈ اباؤٹ کروس کروگے تے یو ول فائنڈ اے پان والا کھوکھا۔دیٹ بندہ نوز می ویل۔او تواہنوں میرے ہاؤس ول گائیڈ کردیوے گا۔میرا گھر از ویری ایزی ٹو فائنڈ۔تسی مس ہی نئی کرسکدے!
تبصرےتبصرہ کریں
اونسٹلی بہت ہی ريلسٹک بلاگ لکھا ہے آپ نے، ورنہ ديز ڈيز مين تو لوگ ریلايز ہی نہين کرتے کہ وايل سپيکنگ وہ کتنی لينگويجز کو مکس اپ کر جاتے ہين اور سنتے ہوئے واٹ سوايور کوئی کليو نہيں ملتا کہ سپيکر ايکچولی کيا پٹ اکراس کرنا چاہتا ہے ميرے خيال ميں اپنی اب اس آرٹيفيشل ماينڈ سيٹ کو اپنی مدر ٹنگز کو پروموٹ کرنے کی خاطر الٹ کيا جانا چاہيے۔
چيرز
ڈونٹ فيل بيڈ ۔ دودھ ميں پانی ملانا از ڈفرنٹ اور پانی ميں دودھ ملانا از ٹوٹلی ڈفرنٹ تھنگ ـ فرسٹ ون از کالڈ ملاوٹ اينڈ سيکنڈ ون از کالڈ کچی لسی !
دراصل ہم زبان سمجھ کر نہيں بلکہ لوگوں کو متاثر کرنے کا ذريعہ سمجھ کر استعمال کرتے ہيں
ماہرين نفسيات اس بات پر متفق ہيں کہ بچہ کو اگر اسکي ’ ماں بولي‘ ميں کوئي سبق پڑھايا، لکھايا، بتايا يا سنايا جاۓ تو وہ بہت جلد بچے کی يادداشت ميں ڈيرہ جما ليتا ہے اور تادير محفوظ رہتا ہے۔ اس ميں کوئی شک نہيں کہ جوں جوں دنيا ’گلوبل ورلڈ‘ کی شکل اختيار کرتی جا رہی ہے توں توں انگريزی کی افاديت بتدريج بڑھتي جا رہي ہے۔ برطانيہ يا امريکہ ميں کسي يونيورسٹي ميں داخلہ کيلۓ زيادہ مشکل صرف اردو ميڈيم سکولوں ميں پڑھنے والوں کو پيش آتي ہے۔ برطانيہ يا امريکہ ميں کسي يونيورسٹي ميں داخلہ کيلۓ انگريزی کورسز کی ريکوائرمنٹ دراصل وہی حيثيت رکھتی ہے جو پاکستان ميں مقابلے کے امتحانوں ميں دو دو سو سے بھی زائد نمبرز پر مشتمل "انٹرويو" کی ہوتی ہے يعنی "ھيرا پھيري، رشوت، مال پاني وغيرہ"۔ فارن کنٹريز کو اس بات کا بھی علم تو ہوتا ہی ہوگا کہ پاکستانی طالبعلم پيدائشی انگريز نہيں ہيں لہذا انکی اتنی انگريزی ہی کافی ہے کہ وہ اپني بات اوکھے سوکھے ہوکر انڈرسٹينڈ کروانے اور کرنے ميں کامياب ہوجائيں۔ جب طالبعلم انگريزی ماحول ميں پہنچ جاتا ہے تو وہ خودکار طريقے سے انگريزی سيکھ ليتا ہے لہذا ٹوفل شوفل وغيرہ انگريزی کورس کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے۔ خاکسار نے جين آسٹن کا ناول ’سينس اينڈ سينسيبِلٹي‘ اور ہرمن ميلول کا ناول ’موبي ڈک‘ انگريزی ميں مطالعہ کيے اور دو ماہ ميں مکمل پڑھے کيونکہ ڈکشنری کا استعمال بہت کرنا پڑا تھا۔ اسکے بعد فدوی نے انگريزی بُکس کے اردو تراجم پڑھنے شروع کيۓ جس سے بات بھی فرسٹ اٹيمپٹ ميں پلے پڑ جاتی اور دنوں ميں کتاب مکمل پڑھ لی جاتي۔ ايک سب سے بڑا رولا ملک کے نصاب ميں بے دريغ زبانوں کا استعمال ہے، اردو، فارسي، عربي، انگريزي، پنجابي، براہوي، سنسکرت، ہندی وغيرہ کے الفاظ اکثر بہتات ميں کتابوں ميں ڈالے گۓ ہيں جس کی وجہ سے طالبعلم ايک ہی وقت ميں بہت سی زبانيں سيکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے نتيجتًا ايکسپرٹ کسی بھی زبان ميں نہيں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مضامين کو يا تو انگريزی زبان ميں ڈھالا جائے يا پھر انگريزي کتابوں کے مستند تراجم کرکے انہيں اردو ميں ڈھالنے کا کام تيز کيا جائے۔ ليکن ذرا احتياط سے کہ انگريزی سيکھتے سيکھتے کہيں اپنا کلچر، ثقافت، روايات، ورثہ، اور اقدار ہی نہ کہيں گم کر بيٹھيں۔
Your are great Mr. Khan... dil kusk kar dita'
ايسی اردو انگلش کھچڑی پڑھکر مجھے ميري پھوپھياں ياد آگئیں اور اپني بولتی بند ہوگئی کيونکہ ميں خود بغير سمجھے بولتی ہی رہتی ہوں بعد ميں جب ميری امی سے وہ مظلوم بندے شکايت کرتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ ميں کتنا فضول بولتی ہوں ليکن کيا کرے چپ بھی رہا نہيں جاتا، کہتے تو سب ہيں کہ ہر بات منہ پر ہي کہ ديني چاہيۓ جب عمل کرو اس بات پر تو بھی مسلہ، وہاٹ ايور !
ابھی تک اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا عام آدمی سے لے کر وزرا تک انگریزی میں تقریریں داغتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں۔ اشتہار تختہ سے لے کر سنگ میل تک سب کچھ انگریزی میں ہے،
ہمیں ’ایمرجنسی‘ کا تو پتہ ہوگا لیکن شعبہ حادثات کا کم افراد کو ہی علم ہوگا، جب ہر کوئی زبان کو ہی ترقی کا معیار قرار دے دے تو لوگ تو احساس کمتری کا شکار ہو کر جہاں تک ممکن ہے اپنے آپ کو انگریزی کا عالم ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔
خان صاحب، بات دير سے کہی ہے مگر کہی ضرور پتے کی ہے، يہ معاملہ صرف پاکستان ہی تک محدود نہيں ہے بلکہ انڈيا ميں بھی آدھی سے زيادہ آبادی کے ساتھ يہی مسئلہ درپيش ہے۔ آپکے بلاگ کا موضوع منفرد نہيں مگر انوکھا ضرور ہے۔
خيرانديش سجاد الحسنين حيدرآباد دکن
بڑے بھائی، یہ یقینناً لمحہ فکریہ ہے، ہمیں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا پتہ نہیں کیوں ملاوٹ شدہ اردو لکھتے وقت کوئی ندامت نہیں ہوتی، کیا اس میں آج کل کے الیکٹرانک میڈیا نے بھی بڑا کردار اد کیا ہے؟
Wow. kitna good likha. Dil garden garden ho gaya!
جہاں ہم ہر چیز میں ان کے غلام وہاں زبان میں بھی سھی