'سبحان اللہ '
سن دو ہزار تین
تیس مارچ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اسلام آباد جانے کے لئے اپنے تین بچوں کے ہمراہ میٹرو کیب میں بیٹھ کر اپنی والدہ عصمت صدیقی کے گھر سے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایرپورٹ روانہ ہوئیں ۔ڈاکٹر عافیہ کے بڑے بچے کی عمر چار برس اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ تھی۔لیکن وہ ایرپورٹ نہیں پہنچ سکیں اور راستے میں ہی غائب ہوگئیں۔
اگلے روز امریکی نیٹ ورک این بی سی نے خبر دی کہ ڈاکٹر عافیہ کو اسامہ بن لادن کے لئے فنڈز ٹرانسفر کرنے کے معاملے میں پاکستان میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔اسی دن پاکستانی وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات نے انکار کیا کہ عافیہ کسی سرکاری ادارے کی حراست میں ہیں۔دو اپریل کو انہی فیصل صالح حیات نے کہا کہ عافیہ گرفتار نہیں مفرور ہیں۔تیس دسمبر کو انہی فیصل صالح حیات نے اعجاز الحق کے ہمراہ ملاقات کے لئے آنے والی عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی سے کہا کہ عافیہ کو رھا کردیا گیا ہے۔آپ گھر جا کر انکی کال کا انتظار کریں۔
تیرہ اگست دو ھزار آٹھ
پاکستانی دفترِ خارجہ نے امریکی حکومت سے ڈاکٹر عافیہ کے تین بچوں کی نظربندی پر احتجاج کرتے ہوئے انکی وطن واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔اور امریکہ سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نیویارک کی ایک عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنے والی قیدی عافیہ صدیقی کے حقوق کا احترام کرے۔
سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ
غیرت ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
( استاد داغ دھلوی مرحوم سے نہایت معذرت کے ساتھ)
تبصرےتبصرہ کریں
’فصلِ دل اب کے برس بھي کاٹي جائے گي
پھول روندے جائيں گے مٹي بچا لي جائے گي‘
مودبانہ رقم طراز ہوں کہ سياستدانوں بالخصوص بيک وقت آمريت وملائيت کي پيداوار سياستددانوں کی تو بات ہي نہ کي جائے کہ انکي دال روٹی کا دارومدار تو صرف انکے بيانات، جذباتی نعروں، تقريری جوش، تصوير اتروائي، فلم بنوائي، بارش ميں سڑک پر کھڑے ہوکر پاني نکلوانے کے عمل سے مشہوري کروانا، اور سنگِ بنياد رکھنے تک ہي محدود ہوتا ہے۔ اسي طرح ملاں کی روٹی کا دارومدار بھی صرف اسلام اسلام کے بيانات تک ہی محدود ہوتا ہے عملی طور پر چاہے يہ غيراسلامی حرکات کے مرتکب ہی کيوں نہ ہوتے ہوں۔ اصل پکڑ کے قابل وہ لوگ ہيں جو ان کی باتوں پر بغير سوچے سمجھے لبيک کہتے ہيں اور بلاغوطہ لگائے انکے کہے کو 'حرفِ آخر' سمجھ کر غوروفکر کی تکليف گوارا کرنے سے بچ جاتے ہيں۔ اسی ضِمن ميں منٹو کے 'سياہ ماشے' سے ايک اقتباس درج ہے:
’لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کيلیے پوليس نے چھاپے مارنے شروع کيے تو لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھيرے ميں باہر پھينکنے لگے۔ کچھ ايسے بھی تھے جنہوں نے اپنا ذاتی مال بھی موقع پا کر اپنے سے عليحدہ کرديا تاکہ قانونی گرفت سے سرے سے ہی بچ سکيں۔ ايک آدمی کو بہت مشکل پيش آئي، اسکے پاس شکر کی دو بورياں تھيں جو اس نے لوٹی ہوئی تھيں۔ ايک بوری تو اس نے رات کو کنويں ميں پھينک دی ليکن جب دوسری بوری اٹھا کر کھوہ ميں پھينکنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گيا۔ شور سن کر لوگوں نے کھوہ رسياں ڈال کر آدمی کو باہر نکالا ليکن وہ باہر آکر مرگيا۔ دوسرے دن لوگوں نے استعمال کيلیے پانی نکالا تو وہ ميٹھا تھا، اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے اور "سبحان اللہ سبحان اللہ" کا ورد ہو رہا تھا۔‘
اھلیان قاف لیگ کی شان میں عرض کیا ھے
'شرم تم کو مگر نہیں آتی'
سبحان اللہ، پاکستان صدر نے اپنی کتاب ميں فرمايا کہ ہم نے اپنے پاکستانی بچے امريکہ کے آگے بيچے ہيں جنکی انہوں نے منہ مانگی قيمت وصول پائی ۔۔۔
عافيہ صديقی ہماری ماں بيٹی بہن ہی تو ہے اور اسکے معصوم بچوں کے دام وصول پانے والوں کو عوام نے مسترد کر ديا ہے، ہماری بہن و بيٹی کو کس جرم ميں انسانی حقوق نسوانی آذادی کے علمبرداروں نے گوليوں سے چھلنی کرنی کے بعد قيدميد رکھا؟ امريکہ کی عدليہ تو آذاد ہے؟ ہماری بہن اور اسکے بچے کب آذاد کرے گی امريکی آذاد عدليہ ؟ يا پھر انسانی حقوق ہم پر لاگو نہی ہوتے ڈاکٹر عافيہ صديقی امتحان ہے تمام آزاد اقوام کا، ڈاکٹر عافيہ صديقی کو سلام۔
’ آج آکھاں وارث شاہ نوں
کتے قبراں وچوں بول۔۔۔‘
آج کہاں ہيں
حقوق نسواں کے عم بردار
برنی صاحب اور وہ لاھور کی وکيل صاحبہ کو کوئی خبر کرو۔
مگر حضور يہاں امريکہ کا پيار نہيں مار ہے۔
کوئی NGO نہيں بولےگی
بولی تو خلق خدا
وسعت صاحب، يقين کيجئيے، جب سے يہ خبر سُنی ہے، اہلِ اقتدار کی بے غيرتی و بے حِسی اور قوم کي بے بسی پر دل خُون کے آنسو رو رہا ہے۔ مادرِ وطن کی بيٹی کی عزت وناموس اور قومی احميت بيچ کھانے والوں کے لئے يہ ڈُوب مرنےکا مقام ہے۔ وہ تواللہ بھلا کرے اُس غير مُلکی صحافی کا جِس نے افغانستان ميں واقع ايک امريکی جيل ميں قيد عافيہ صديقی کی شناخت اور اُن کے قيدی نمبر تک کی معلُومات فراہم کر ديں، وگرنہ پتہ بھی نہ چل پاتا کہ عافيہ زندہ ہے بھی يا نہيں۔ اُس کے بچوں کا ابھی تک کوئی اتا پتہ نہيں۔ جہاں تک ہمارے دفترِ خارجہ اور غيرت کا تعلق ہے، ماضی قريب ميں اسفند يار ولی کا نواز شريف کو ديا گيا يہ مشورہ ياد آگيا کہ ’غيرت اور مصلحت کے درميان صرف بال برابر فرق ہوتا ہے‘ ۔
جناب وسعت!
بي بي سي کے اگلے بلاگ کا عنوان ھونا چاہئیے’ضياء کا گھوسٹ‘ ، جو پاکستان کا پيچھا چھوڑنے پر کسي صورت راضي نہيں کہ اس کی جسمانی باقيات يعنی مگرمچھ کے آنسو بہاتے فرزند اور روحاني باقيات يعني فوج ، ن، ق ليگ سے تو يہی اميد تھی۔ مگر لگتا ہے صالح حيات کے ساتھ ہی بھٹو کے جيالوں کا گھوسٹ بھی اس رقص ميں شامل ھوگيا ہے۔
Even if she does belong to Alqaeda she should not be treated like this, and that too from a country which wants others to call it a champion of human rights...
And don't blame Q League; it is only a matter of time and you will come to know that there is queue of Pakistani politicians who are desperately waiting for American blessings and want to obey them and go beyond of all limits.
اگر ڈاکٹرعافيہ پر الزامات ہیں تو ان کے بچوں کا کيا قصور ہے؟ کيا ان معصوم بچوں کے لیے بھی آواز اٹھانے کی کسی کو نہيں سوجھي؟ کيا ہی اچھا ہو وسعت صاحب کے بلاگ کو وسعت ملے اور ان معصوم بچوں کا ذکر ہو تو شايد کوئی ان کی رہائی کے لی بھی آواز اٹھائے!
This is the collaboration in the war against terror. This is the commitment level of General Musharraf, the government and the armed forces along with the 'agencies'. This is the American standard of human rights. This is the value of a Pakistani citizen and ultimately the status of Pakistan.
كيا ہم اس حد تك قرض مي ڈوبےہوئے ہیں کہ اپنی ماں اور بہنوں کو بیچ رہے ہیں؟ تو كيا ہمیں جشن آزادی منانا چاہئیے؟
"Ek baat mene observe ki hai Wusat sahab: aap kabhi bhi USA or UK ki Govt par tanqeed nahi karte hain, Pakistan mein to logon ki be-hissi par aap ko bara afsos hota hai, par USA ki na-insaafi aap ko dikhai nahi deti, ya aap unki taraf se andhe hain? I guess aap ko salary issi baat ki milti hai ke aap Pakistani logon main apni tehreeron se intishar phailayen. Par mere dost, aap iss tarah se apni achhi baat ki ifadiat bhi kho denge... Agar aap neutral hain to please ek or mazmoon shaya karen jis mein abhi jo tanqeed Pakistani Govt par ki hai woh USA Govt par bhi karen...
جب قوم بيغيرت تو رہنما بھی ہم جيسے اگر کسی کی بہن يا بيٹی ايسے گم ہو تو ميں انڈيا اور افغانستان يا امريکہ کو پسند کرونگا اگر ايسا ہی تو بنايا کيوں تھا؟