| بلاگز | اگلا بلاگ >>

دعوؤں پر دعوے

اصناف:

عارف شمیم | 2008-10-03 ،16:56

گولی آسٹریا میں چلی اور اس کی گونج تقریباً آدھی دنیا میں سنائی دی۔ جی ہاں آسٹریا۔ہنگری کے بادشاہ آرچ فرانز فردینند کو ایک سرب قوم پرست گیوریلو پرنسٹپ نے 1914 میں ساراژیو میں گولی ماری اور اس کی سزا لاکھوں لوگوں کو بھگتنا پڑی۔
20070802172353masked_militant203.jpg

اسی طرح سن دو ہزار ایک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ساتھ طیاروں کے ٹکرانے سے نیو یارک کی صرف وہ دو بلند بالا عمارتیں نہیں گریں بلکہ دنیا میں امن، بھروسہ اعتماد سب کچھ گر کر چکنا چور ہو گیا ہے۔ بلاگ کا نیا سلسلہ 'کرب بلاگ' اسی کرب کی ایک کڑی ہے۔

امریکہ کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ مر چکے ہیں اور مر رہے ہیں۔ کینیا اور تنزانیہ میں امریکہ کے تباہ ہوئے سفارتخانوں اور نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے سے شروع ہونے والی جنگ عراق، افغانستان اور پاکستان تک پھیل چکی ہے۔

افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجوں کی موجودگی کی وجہ سے اب جنگ کا زیادہ زور پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں پر آ گیا ہے۔ خصوصاً پاکستان کے وہ علاقے جہاں کہا جاتا ہے کہ القاعدہ یا شدت پسند گروہوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ یہی بہانا بنا کر امریکی پاکستان میں آ کر فضائی اور زمینی کارروائیاں کرتے ہیں اور اب تک ان کارروائیوں میں کئی ایک (معصوم اور شدت پسند) ہلاک ہو چکے ہیں۔ لاشیں کسی کی بھی خون تو ایک ہی طرح کا ہوتا ہے۔ پتہ نہیں یہ کسی کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔

ٹینک آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بھانج ہوتی ہے

کہتے ہیں کہ جنگ میں پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں بھی یہی ہوا۔ سچ سب سے پہلے مرا۔ آج تک اس جنگ کے متعلق بنیادی سوالوں کے جواب نہیں ملے اور شاید ماضی قریب میں بھی کبھی نہ ملیں۔

آج سے تقریباً تین سال قبل جب جولائی 2005 میں لندن میں بم چلے تو پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ 'ہماری فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے القاعدہ کے عمودی اور متوازی روابط کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔'

_44406039_203troops-ap.jpg

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب پاکستان میں القاعدہ کی کوئی کمانڈ، باہمی روابط اور پروپیگنڈا سٹرکچر نہیں ہے۔'

سابق صدر کے اس دعوے پر میں کچھ نہیں کہوں گا کہ وہ کتنا سچ ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو حملے کس پر ہو رہے ہیں اور پاکستان کی فوج اب اپنی پوری طاقت کے ساتھ کس کے ساتھ برسرِ پیکار ہے۔

دوسری طرف فوج کی طرف سے بھی تقریباً ہر روز یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آج ہم نے اتنے 'طالبان' مارے ہیں۔ یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور اگر صرف گزشتہ ایک دو ہفتوں کی اخباری شہ سرخیوں کو ہی دیکھا جائے تو یہ تعداد روزانہ بیس سے تیس کے درمیان بنتی ہے۔ شہ سرخیوں کا کچھ خلاصہ ملاحضہ ہو: 25 طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ، بیس جنگجو ہلاک، اسی ہلاکتوں کے دعوے کی تردید، 20 طالبان ہلاک، 25 اہلکار اغوا، پینتیس طالبان کی گرفتاری کا دعویٰ اور، ہر خبر میں دوسری پارٹی کی طرف سے اس کی تردید، ہم نے اتنے مارے اور ہم نے اتنے مارے، یہ علاقہ ہمارے قبضے میں ہے اور یہ علاقہ ہمارے قبضے میں ہے، بیت اللہ محسود سخت بیمار ہے، نہیں بیمار نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔

بات یہیں پہ نہیں ختم ہوتی۔ اس نمبروں کی جنگ میں حال ہی میں پاکستانی فوج نے صرف قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری آپریشن میں پانچ سو سے ہزار شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعوٰی کیا ہے۔ اسی طرح کی ہلاکتوں کے دعوے سوات، مہمند، کرم ایجنسی اور وزیرستان کے متعلق بھی ہوتے رہے ہیں۔

اگر پاک فوج کے پاس میجر مراد ہے تو پاکستانی طالبان کے پاس مولوی عمر۔ فوراً مولوی عمر کا فون آتا ہے کہ 'ایسا کچھ نہیں ہوا الٹا ہم نے فوجیوں کو مارا ہے اور وہ لاشیں چھوڑ کے بھاگ گئے ہیں۔' جتنا فوجی ترجمان کہے گا تقریباً اتنا ہی نمبر مولوی عمر کے منہ سے نکلے گا۔ کئی مرتبہ تو لگتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے ٹیلی کرتے ہیں اور پھر صحافیوں کو فون پر بتاتے ہیں۔

جو بھی ہو یہ دعوے اور ان پر دعوے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ پتہ نہیں یہ سچ ہیں کہ جھوٹ لیکن یہ ضرور سچ ہے کہ روز روز کی درجن بھر ہلاکتیں پہلے سے ہی ڈرے ہوئے میرے جیسے کمزور دل لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرتی جا رہی ہیں۔

چند روز پہلے میں نے اپنے ایک نامہ نگار سے پوچھا کہ یار تمہارے علاقے سے ہر وقت جنگ و جدل کی خبریں آتی رہتی ہیں کیا ادھر کبھی کوئی پیار نہیں کرتا، تو اس کا جواب تھا: 'سر پیار تو بہت کرتے ہیں مگر ہم اس کو رپورٹ نہیں کر سکتے۔'

کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ تو یار جنگ کی بجائے محبت ہی کر لو۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:54 2008-10-03 ,نجيب الرحمان سائکو :

    اُدھر دعوؤں پہ دعوے، اِدھر بلاگوں پہ بلاگ۔ جبکہ سب کے خصوصاً فدوی کے تبصروں کی موڈريشن سِرے سے ہی ندارد۔ واہ رے ميرے بی بی سی يار!

  • 2. 18:27 2008-10-03 ,shaukat chaudry :

    يہ سب نورا کشتی ہے

  • 3. 19:12 2008-10-03 ,فيضان توصيف صديقی :

    محترم وہاں تو محبت کی سزا بھی موت ہوتی ہے۔ اس بات پر ايک شعر ياد آ رہا ہے
    نہيں مروں گا کسی جنگ ميں يہ سوچ ليا
    اب کی بار ميں محبت ميں مارا جاؤں گا

  • 4. 19:18 2008-10-03 ,Zaman Ali Sydney Australia :

    دل کا کھلونا ہائے ٹوٹ گیا
    کوئی لٹیرا آ کے لوٹ گیا

    یہ تو ابتدا ہے میرے بھائی، آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔

  • 5. 20:06 2008-10-03 ,faheem :

    جس ديس ميں محبت جرم اور قتل عبادت بن جا ئے وہاں دھرتی کی کوکھ کيوں نا اجڑے دوستو۔

  • 6. 22:23 2008-10-03 ,محمد شکيل :

    ميں تو اتنا کہوں گا کہ جس طرح شروع ميں پڑھا کہ ہم کب سچ بوليں گے جب پانی سر سے گزر جاۓگا اور کچہ کہنے سے پہلے سب کچہ ختم ہو جاۓ گا،اب تو سچ بول دو کم از کم ملک پر قربان ہونے والوں کو پتہ چلے کہ ايک ايسا کھيل جس کی ابتدا 11-9 سے ہوئی اور جس کی ابتدا کرنے والے کون تھے،کسی کو نہ پتہ چلا اور شايد ديگر رازوں کی طرح کبھی نہ پتہ چل سکے اور اس کی وجہ سے شروع ہونے والی جنگ ہماری دھليز پر آگئ، ہميں مارنے کی تيارياں ہيں اور گيدڑ بھبکياں ختم ہونے کا نام ہی نہيں لیتی،خدارا عقل کرو اور جنگ بدر والا حوصلہ پيدا کرو،ہم اسلام کے نام پر اکھٹے ہو کر يہ حوصلہ پيدا کريں کہ ہم مار نہيں سکتے تو کيا اسلام کے نام پر مر تو سکتے ہيں، اور توکل کريں۔
    وہ کافر ہے جو تيغ پر کرتا ہے بھروسہ
    وہ مومن ہے جو بے تيغ بھی لڑ جاتا ہے

  • 7. 23:30 2008-10-03 ,محمد عمر حيا ت چھينہ- فرانس :

    جناب قتل کوئی بھی ہو سزا عورت بھگت رہی ہے۔ بچے لاوارث ہو رہے کيا کسی نے يہ دعوی کيا کہ اتنے لاوارث بچوں کی کبھی امداد کی گی ہے۔

  • 8. 23:49 2008-10-03 ,shahidaakram :

    عارف شميم بھائی آپ کو اور مُجھے ہم سب کو علم ہے خُون کس رنگ کا ہوتا ہے اور سب کے خُون کا رنگ ايسا ہی ہوتا ہے ليکن ان جنُونيوں کو کون سمجھائے کہ جنگيں پيار مُحبّت سے بھی جيتی جا سکتی ہيں کاش کہ کوئی دُنيا سے جنگوں کا نام ختم کردے نابُود کردے سب کُچھ ايسا جو دِلوں کو دُکھانے کا سبب بنتا ہے مرنے والے نا طالبان ہوتے ہيں ،نا شِدّت پسند، نا بچے ،نا عورتيں ،انسان ہوتے ہيں بس اور ايک انسان کا قتل پُوری انسانيّت کا قتل ہوتا ہے اور اگر ايسا کوئی سمجھے تو کوئی يہ نا کہے کہ مُحبّت اور جنگ ميں سب جائزہوتا ہے ، نہيں ہوتا سب جائز، جو جائز ہوتا ہے وُہی جائز ہوتا ہے اور نا جائز کبھی بھی جائز نہيں ہو سکتا ليکن اے کاش کہ دُنيا ہمارے دِل سے سوچے ہماری نظروں سے ديکھے پر پھر اُن کی نظروں کا کيا ہوگا؟

  • 9. 3:11 2008-10-04 ,Mian Asif Mahmood :

    محترم عارف شميم صاحب
    دھرتی کی کوکھ تو بانجھ ہو چکي۔ اسی واسطے تو بيٹے جننے بند کرديۓ ہيں۔ اب فوجی پيدا ہوتے ہيں يا تخريب کار خود کش حملہ آور۔ آپ جيتے رہيں، لکھتے رہيں شايد ان کے دل ميں آپکی بات اتر ہی جائے۔
    شکريہ
    مياں آصف محمود

  • 10. 4:17 2008-10-04 ,نديم ملک :

    اچھا کہا ہے شميم بھائي۔

  • 11. 7:50 2008-10-04 ,فيصل چانڈيو :

    فيضان صاحب۔ آپ نے سہی کہا ُادھر محبت ميں بھی موت ہےـ ُادھر کے لوگوں نے پاکستان سے محبت کی اور پاکستان کيلئے انڈيا کيخلاف جنگ ميں آگے رہے تو يہ محبت ميں موت تو ہوئی۔

  • 12. 10:22 2008-10-04 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم عارف شميم صاحب ، خدا آپ کو سلامت رکھے ۔
    بس ايک مختصر سا پيغام ہے ۔
    جو لوگ کرب ميں رہ کر خدا کی راہ ميں ہيں
    وہ کربلا ميں ہيں اور عشق کي پناہ ميں ہيں
    دعا گو
    سيد رضا

  • 13. 11:41 2008-10-04 ,نجيب الرحمان سائکو :

    ڈئيرعارف صاحب، آداب! علم النفسيات کو سامنے رکھتے ہوۓ دعوؤں پہ دعوے کرنا دراصل انسان کے ڈر، خوف اور کمزوري و بےبسي کی نشاندہی ہے۔ قبائلی علاقوں ميں جاری فوج کے آپريشن ميں روز ہی شدت پسندوں کی ہلاکتوں کے دعوے يا حقائق حکومت اور فوج کو افغانستان سے ملک پر براہ راست حملہ کے خدشہ کے نتيجہ ميں برآمد ہوئے ہيں۔ اس تناظر ميں ديکھا جائے تو يہ دعوے فوج اور ملک کي سب سے بڑي پارٹي پاکستان پيپلز پارٹي کي حکومت کی پاکستان سے وفاداري، پيارومحبت اور حب الوطنی کو ثابت کرتے ہیں۔ دعوؤں پہ دعوؤں کا بنيادی مقصد ہے کہ اتنا جھوٹ بولا جائے کہ سچ پر گمان ہونے لگے۔ ليکن افسوس کہ اتحادی افواج چاہے يہ دعوے حقيقت ہوں يا محض دعوے، انہيں خاطر ميں لانے کو تيار نہيں۔ پيارے عارف شميم، جہاں تک بات جنگ کی ہے تو خاکسار اتنا ہي کہنے پر اکتفا کرتا ہے کہ جنگ کسی بھی طرح فائدہ مند نہيں ہوتي، بلکہ يہ کہنا بہتر ہوگا کہ جنگ ميں جيت بھی دراصل اسکی ہار ہی ہوتی ہے۔ پيار محبت کا عملي نمونہ تو يہ ہونا چاہیئے کہ انسان جنگ کرنے کی نسبت اس کو روکنے پر زيادہ اپني توانائياں صرف کرے اور تخريبی ذہنيت کی بجائے تعميري، مثبت اور ہمدردانہ سوچ پيدا کرنے کيلۓ تعليم پر توجہ دی جاۓ۔
    ’جنگ کے اور بھي تو ميدان ہيں
    صرف ميدانِ کشت و خوں ہي نہيں
    حاصل زندگي خِرد بھي ہے
    حاصلِ زندگي جنوں ہي نہيں‘

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔