| بلاگز | اگلا بلاگ >>

لگے رہو زرداری

اصناف: ,,

حسن مجتییٰ | 2008-10-06 ،12:11

blo_hasan_zardari_150.jpgصدر آصف علی زرداری کے منہ میں شکر کے اور بھی کارخانے جب انہوں نے کہا کہ بھارت کبھی پاکستان کا مخالف نہیں رہا۔ کاش ایسا ہوتا پر ایسا نہیں۔ سنگین تاریخی حقیقت، اور بدقسمتی برصغیر کے لوگوں کی یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کا آپس میں بیر اینٹ اور کتے کا رہا ہے۔

ابھی میں طارق علی کی نئی کتاب پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے کشمیر کی تقسیم پر جواہر لال نہرو کی بات کا حوالہ دیا ہے کہ کشمیر کا 'سنوئی بوسم' یعنی برفانی چھاتی تو بھارت لے گیا باقی ہڈیوں والا دھڑ پاکستان کو ملا۔

اب بھی دونوں ملکوں کے بیچ بڑي ہڈی کشمیر ہی ہے۔

کاش زرداری! برطانیہ میں اب اپنے سفیر واجد شمس الحسن سے مستعار لیکر وہ کتاب ہی پڑھ لیتے جس کا حوالہ بڑے شوق سے واجد شمس الحسن کبھی دیا کرتے تھے۔ بھارت کی پاکستان کي مخالفت میں خفیہ جنگوں کی کہانی جس کتاب کا عنوان ہے 'دی وار وچ نیور واز' ('وہ جنگ جو کبھی نہیں ہوئي')۔ اسی میں ذکر ہے کراچي سے لیکر کوئٹہ تک کس طرح بھارت نے محاذ کھولے ہوئے تھے۔

پاکستان بھی بھارت سے کم نہیں۔ کابل میں ہندوستانی سفارتخانے سے لے کر دہلی میں دھماکوں کے 'نقش قدم' دلی اور کابل کی حکومت کے مطابق وہی آبپارہ والی 'لال بلڈنگ' یعنی آئي ایس آئي کے صدر دفتر کے پھاٹک پر آن کر پہنچتے ہیں۔ کبھی پاکستانی کالجوں میں این سی سی (نیشنل کیڈٹس کور) کی تربیت میں رائفل کا نشانہ بھی اندرا گاندھی کے مجسمے کو بنایا جاتا تھا۔

میں نیویارک کے ہوٹل انٹر کانٹیننٹل میں صدر زرداری کی اس پریس کانفرنس میں موجود تھا جس میں انہوں نے کشمیر میں احتجاج کی اٹھنے والی حالیہ لہر کو 'کشمیریوں کی انڈیجینس' یا مقامی تحریک کا نام دیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان اس کی اخلاقی و اصولی حمایت کرتا ہے۔ ان کی باتیں سنکر یا پڑھ کر مجھے نہ جانے کیوں انڈین فلمی گانا یاد آتا ہے، 'جتنی چابی بھری رام نے اتنا چلے کھلونا۔۔۔'

کشمیر کی 'تحریک آزادی' بھی تب تک مقامی تھی جب تک آئي ایس آئي اور 'جہادی' اسے اغوا کر کے نہیں لے گئے۔ دیوار برلن گرنے کے بعد امان اللہ خان برسلز میں ونڈو شاپنگ کرتے گرفتار ہوئے تھے۔

خوبصورت وادی میں ذکر بہتے خون کا، بھارت جیسی دنیا کی عظیم جمہوریت کو جھوٹ میں بدل دیتا ہے۔ لیکن اگر زرداری کشمیر میں بندوق باز گھس بیٹھیوں کو دہشت گردی نہ کہے تو کیا گاندھی کے چیلے کہے!

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:33 2008-10-06 ,آصف خان :

    حسن مجتبیٰ صاحب، آپ نے بہت صحیح بات کی ہے۔ وڈیرے زادے کو کیا معلوم کہ تاریخ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ گھر بیٹھے بیٹھے بائی چانس پہلے پارٹی کے چیئرمین اور بعد میں صدر پاکستان بھی بن گئے۔۔ جو احمقوں کی جنت میں پلا بڑا ہوا ہو اس سے عقل کی کیا توقع؟

  • 2. 22:24 2008-10-06 ,ضياء سيد :

    صدر آصف علی زرداری ہند و يہود کے محبوب نظر ہونے کے لیے يہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ آخر کو مغرب کی ’ڈارلنگ‘ کے شوہر ٹھہرے۔ پاک بھارت جنگیں، سقوط مشرقی پاکستان، بلوچستان ميں مبینہ دخل اندازي، ہندوستان کی دشمنی کھلی کتاب ہے۔۔۔

  • 3. 22:29 2008-10-06 ,جنيد احمد :

    ووٹ تو ہم بيوقووں نے ديا تہا؟

  • 4. 8:06 2008-10-07 ,زاہد :

    حسن بھائی، میرا خیال ہے کہ اب آپ کو لکھنا چھوڑ دینا چاہیے۔ آپ خود اپنے لکھے کی ذرا بھر وضاحت نہیں کر سکتے۔۔۔

  • 5. 8:20 2008-10-07 ,shaukat chaudry :

    پتہ نہيں ابھی کيا کيا گل کھلائیں گے۔

  • 6. 9:33 2008-10-07 ,عپداشکور خان :

    اتنے اچھے بلاگ پر میں يہی کہوں گا، ’لگے رہو حسن بھائي!‘

  • 7. 11:38 2008-10-07 ,muhammad yasir :

    اللہ پاکستان اور پاکستانیوں پر رحم کرے۔۔۔

  • 8. 11:39 2008-10-07 ,محمد جميل عبا سی :

    ايک ايسا شخص جو ساري زندگی گھو ڑوں کو مربعے کھلاتا رہا، وہ ايسی بات ہی کہہ سکتا ہے۔۔۔

  • 9. 12:06 2008-10-07 ,Tipu Sultan :

    برادر حسن اس ملک کا اللہ مالک

  • 10. 20:19 2008-10-14 ,Mueed :

    يا تو ڈپلوميسی کے تقاضے ہيں يا پھر ہمارا صدر ہی بےوقوف ہیں۔۔۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔