دونوں اپنے مفاد میں سوچتے ہیں
طالبان اور امریکی فوجیوں دونوں کا اب مہمان بن چکا ہوں۔ طالبان صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ افغان طالبان کی بھی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اعزاز کی بات ہے یا نہیں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاید اس سے نہ صرف میری غیرجانبداری بلکہ فریقین کو قریب سے جاننے کی کوشش اور خواہش ظاہر ہوتی ہے۔
اب شاید اس پوزیشن میں ہوں کہ دونوں کا موازنہ کر سکوں۔ یہ جائزہ شاید اب بھی جامع نہ ہو لیکن چند چاول چکھنے سے اگر دیگ کا ذائقہ معلوم ہوسکتا ہے تو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ان اصل فریقین کی حالت بھی معلوم ہوسکتی ہے۔
ایک بات تو صاف ہے مہمان نوازی میں دونوں کا جواب نہیں۔ طالبان تو پشتون ہوتے ہوئے اپنے وسائل میں ہر ممکن خوراک و آرام کا خیال رکھتے لیکن امریکیوں نے بھی کوئی زیادہ برا سلوک نہیں کیا۔ ہر عام فوجی کی طرح کھایا اور رہا۔ اگرچہ ان کے پاس زیادہ بہتر رہائشی جگہیں بھی تھیں لیکن پھر بھی عام خیموں میں رکھا۔ ان کا مقصد غالباً ایک امریکی فوجی کی زندگی قریب سے دکھانا تھا۔
لیکن بطور صحافی ایک بات دونوں میں پائی کہ وہ آپ کو صرف اتنا بتائیں گے جتنا ان کے مفاد میں ہے۔ نہ ایک بات زیادہ نہ کم۔ امریکیوں سے 'پریڈیٹر' کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ کا تقاضا کیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اسے آج کل امریکی اپنا کامیاب ترین ہتھیار قرار دیتے ہیں لہذا اسی وجہ سے وہ شاید کسی پاکستانی کو اس کی کارروائیوں سے متعلق کچھ بتانے سے گریزاں تھے۔ اس کی ایک وجہ ان بغیر پائیلٹ کے طیاروں کی کمان امریکی فوج نہیں بلکہ خفیہ ادارے سی آئی اے کے ہاتھ میں بھی ہوسکتی ہے۔
طالبان نے بھی محض اتنا دکھایا جتنا ان کے مفاد میں تھا۔ اکثر انہوں نے آنے کی دعوت ایسے مواقعوں پر دی جب وہ پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے ہوئے نقصانات دنیا کو دکھا کر ہمدردی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان سے کئی مرتبہ غیرملکی مہمانوں سے ملنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے ان کی موجودگی سے صاف انکار کرتے ہوئے ایسی ملاقات کبھی نہیں کروائی۔ دوروں کے دوران بلکہ وہ یقینی بناتے ہیں کہ کوئی غیرملکی کہیں غلطی سے بھی سامنے نہ آ جائے۔
نہ امریکی اور نہ طالبان کسی سے انٹرویو اکیلے میں کرنے کی اجازت دیں گے۔ نہ آپ اکیلے جہاں جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔ ایک بات واضح ہے ایسے دوروں میں آزادانہ رپورٹنگ کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ رپورٹر پر منحصر ہے کہ وہ بین السطور کیا کچھ کہہ پاتا ہے۔ اس لیے قارئین کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ 'بٹوین دی لائین' بات سجھ پائیں۔ لیکن ان پابندیوں کے باوجود کافی کچھ دیکھنے، پرکھنے اور لکھنے کو مل جاتا ہے۔ ورنہ یہ روزانہ کے بلاگ کا پیٹ کون بھر پاتا۔
دونوں فریق اس وقت ایک دوسرے کو عسکری زور پر فتح کرنے پر تُلے ہیں۔ مسئلہ اور کچھ نہیں صرف سوچ کا ہے۔ اگر امریکہ کو جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کا سہارا ہے تو طالبان کو جوش و جذبے کا نشہ ہے۔ دونوں دنیا کو اپنی محدود عینکوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دونوں گنجائش اور برداشت پیدا کرنے کو تیار نہیں۔
جاتے جاتے ایک قاری کے اس تاثر کو درست کرنا چاہوں گا کہ امریکیوں کے ساتھ فوجی اڈوں پر رہنے کے دوران جو حملے ہوئے وہ 'جعلی' تھے۔ اگر جعلی ہوتے تو امریکی اس طرح نہ پریشان حال بھاگ دوڑ نہیں رہے ہوتے جیسے کہ میں نے دیکھا۔ شوں شوں کرتے مارٹر گولے اور گولیاں آپ کے کانوں کے قریب سے ایسے نہ گزرتیں جیسے گزریں۔ وہ تو اندھی گولیاں اور گولے تھے جن پر خوش قسمتی سے اس وقت کسی کا نام لکھا نہیں تھا۔ ان سے حملہ آوروں میں تربیت کی کمی اور امریکیوں کی بہتر حفاظتی تدابیر ہی ثابت ہوتی ہیں۔ اس طرح کے خطرناک ڈرامے جان بوجھ کر کرنا کم از کم میری سمجھ سے باہر ہے۔
ویسے پاکستان میں ہر بات کے پیچھے سازش کا نظر آنا کوئی نئی حیران کن بات نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
امريکيوں کی موجودگی افغانستان میں مزيد خون خرابے کا باعث بن رہی ہے اور ان کے نکل جانے سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔
آج کے بلاگ کا مرکزی خيال يہ کہ طالبان اور امريکی فوجيوں کی ٹيکنيکس کچھ تو ايک جيسی ہے۔۔۔
ہارون رشيد صاحب، اتنے بڑے لاؤلشکر اور چپے چپے پر نگاہ رکھے جديد ترين آلات، جاسوسي کے باوجود ہو رہے يہ حملے بقول آپ کے جعلی نہيں ہو سکتے کيونکہ افراتفري پھيلا ديتے ہيں۔ باالفاظ ديگر اگر يہ خودساختہ ہوں تو کوئي نوٹس ہی نہ لے۔ کروٹ بدل کر دوبارہ سو جائیں۔ ليکن پھر يقين کون کرے گا؟ اس لیے ’سرپرائز‘ کا عنصر تو رکھنا ہی پڑے گا۔
واہ محترم اے رضا صاحب، کيا زبردست تبصرہ کيا ہے! حقيقت سے بھی بڑھ کر حقيقت بيان کر دينے پر خاکسار کا ايک عدد سيلوٹ قبول فرما کر بندہ کو صندل ہونے کا شرف عطا فرمائیں۔