ہم مہذب لوگ ہیں
تم ہمیں سوچنے دو
ہم مہذب لوگ ہیں، جب بھی کوئی مشکل پڑے
ساتھ مل کر بیٹھ کر سب فیصلے کرتے ہیں ہم
ہم مہذب لوگ ہیں اور جانتے ہیں
جلد بازی سے کیے سب فیصلوں کے
نتائج دیرپا ہوتے نہیں
تم ہمیں سوچنے دو
کیا کہا!
بیس دن میں ایک ہزار جاں سے گئے،
تین سو بچے
اور اتنی عورتیں
نوے ہزار دربدر
زخمیوں میں ان گنت
پھر کیا ہوا
محبت اور جنگ میں جائز ہے سب
کیا ہوا گر مدرسے پر بم گرا
علم بھی تو اک طرح کا بم ہے
پڑھ بھی جاتے وہ اگر ان کے لیے سب موت تھا
کیا کہا بچے تھے وہ اور جنگ میں
عورتوں، بچوں کو کچھ کہتے نہیں
کیا کہا کہ امن کا جھنڈا بھی تھا
پھر بھی گولی ٹھیک ماتھے پر لگی
کیا کہا کہ جب انہیں ڈھونڈا گیا
رو رہے تھے لگ کے مردہ ماؤں سے
کیا کہا کہ ایک روتے باپ کے ہاتھوں میں لختِ جگر کی
اک ادھ جلی تصویر تھی
بے بسی سی بے بسی چہرے پہ تھی
کیا کہا کہ دفن کرنے کو جگہ باقی نہیں
اور موت دندناتی پھر رہی ہے
بھیڑیوں کے بھیس میں
کیا کہا ہم کچھ کریں
جلدی کریں
دیکھو مہذب لوگ ہیں ہم
جب بھی کوئی مشکل پڑے
ساتھ مل کر بیٹھ کر سب فیصلے کرتے ہیں ہم
ہم مہذب لوگ ہیں اور جانتے ہیں
جلد بازی سے کیے سب فیصلوں کے
نتائج دیرپا ہوتے نہیں
تم ہمیں سوچنے دو
تبصرےتبصرہ کریں
عارف صاحب !
کيا ہی اچھا ہوتا اگر آپ مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے ليے کچھ لکھتے۔ مہذب دنيا کے تمام انسانی حقوق صرف اور صرف ان لوگوں کے ليے ہيں جنہيں وہ مہذب سمجھتے ہيں اور مسلمان، انسانی حقوق کے زمرے ميں آنے والي مخلوق نہيں ہيں۔ اس تفريق پر مہذب دنيا کا شکوہ کرنا صحيح نہيں کيونکہ مسلمان واقعی مہذب نہيں جس کی مثال عراق، افغانستان، اور پاکستان ميں طالبانوں اور القاعدہ کے مسلمانوں پر انسانيت سوز مظالم سے دی جاسکتی ہے جہاں پر راکٹ سائنس کے دور ميں سکول بند اور انسان ذبح کئے جاتے ہيں۔
اس نظم نے بھی رلاديا مجھے۔ ہم جيسوں کے پاس تونہ کسي کاکندھا ہے نہ ہي دامن اور يہ کرب ہے بھي نہ ختم ہونے والا بس اللہ کاوجود ہی ہے جس نے پھر بھی زندہ رکھا ہواہے ورنہ تو کوئی اميد باقی نہيں رہتی سروائيوکرنے کيلۓ۔
عراق کے بارے میں قراداد چند گھنٹوں میں پاس، دارفر کےلیے ’امن‘ فوج بھیجنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ممبئی حملوں کی فورا مذمت اور مشتبہ تنظیموں پہ پابندی تو چند گھنٹوں کا کام ہے۔اور جہاں موت رقص کرتی پھر رہی ہے اس بارے ہم صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ ارے او عالمی امن کے ٹھیکیدارو یہاں تو زندگی ختم ہو رہی ہے۔ کیا واقعی اس کے ختم ہونے کا انتظار تو نہیں ہو رہا۔ تاکہ پھر کوئی مظلوم اپنا حق حاصل کرنے کے لیے غلیل جیسا وسیع تر تباہی پھیلانے والا ہتھیار استعمال کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے؟ جب ایک باپ اپنے جگر گوشے کا لاشہ اٹھائے بھاگ رہا ہوتا ہے تو پھر بھی تمھارے دل کے کسی حصے میں درد کی کوئی لہر نھیں اٹھتی؟اگر نہیں تو تم انسان کہلانے کے حقدار ہی نہیں ہوتم۔ بلکہ انسانیت کے نام پر سیاہ دھبہ ہو۔
سب مايا ہے۔
پيٹروڈالروں سے مالامال برادر عرب مہذب ہونے کے ساتھ فياض بھي ہيں
ديکھو ٹيليويژن چينلز دن رات چندے کي مہمات چلا رہے ہيں
دولت کے انبار کھڑے کر ديۓ ہيں
اور يہ سب تمہارے لۓ ہے
ان ڈالروں سے نہ صرف شکستہ گھر تعمير کرنا
بلکہ گۓ ہوؤں کو واپس بھی لے آنا
اور ديکھو! گبھرانا نہيں !
اگلے سانحے پر
ہم پھر تمہارے ساتھ ہوں گے
انشااللہ !
ہر عمل کا ردہ عمل
ہر ظلم کا حساب ہے
خدا کی لاٹھي بےآواز ہے
ہمیں دیکھنے دو!
ابھی سے کیوں چیخ اٹھے ہو تم
ابھی تو ہوا ہی کیا ہے
یہی چند سو بچے، عورتیں اور جوان
یہ تو کچھ بھی نہیں ہے دیکھنے کو
چند بوندوں سے کہاں پیاس بجھتی ہے
چند لاشوں سے کہاں شکتی ملتی ہے
ہمارے پالے ہوئے درندے کو
ذرا اپنے پنجے تو آزمانے دو
معصوم بچوں پہ برستی گولیاں
انسانیت کی روح میں اتر جانے دو
یہ بچے ہمارے تو نہیں
مرنے والے ہم جیسے تو نہیں
پھر یہ تہذیب کے طعنے کیوں؟
ہماری خاموشی پہ چیخ و پکار کیوں؟
لاشوں کے انبھار لگ جانے دو
یہ ندیاں خون سے بھر جانےدو
عراق، افغانستان اور فلسطین
تو بھی چپ دیکھ، نہ ہو غمگین
سب تماشا ہمارا ہی ہے رچایا ہوا
عربوں میں یہ اسرائیل کو بسایا ہوا
یہ تہذیب کے طعنے چھوڑ دو
ہمیں تماشا دیکھنا ہے
ہمیں تماشا دیکھنے دو !!!
ہم بھی بےحس، تم بھی بے حس، تم بھی سو چو، ھم بھی سو چیں۔
ڈرے کيوں ميرا قاتل کيا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خون جوعمربھر يوں چشمِ ترسےدم بدم نکلے
بس ہم بھی اور آپ بھی الفاظ کے بم چلائیں گے اور وہ اصلی بم ۔ ۔ ۔
بالکل صحيح عکاسی کي۔ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کے رویے پر تو عقل شل ہو جاتی ہے۔ مسلمان ہونا تو ایک طرف یہ لوگ تو انسانیت کی حدوں سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔ اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کا یہاں صرف کیا رونا، عوام کا بھی یہی حال ہے، مسلم ممالک سے بڑے مظاہرے تو غیر مسلم ممالک میں ہوئے ہیں ۔ اس اُمت کا خواب غفلت اور پتہ نہیں کتنا باقی ہے۔
عارف شمیم صاحب، آپ نے بلکل ٹھیک کہا یہ مہذب قوم ہے جو اسرائیل کی جارحیت پر خاموش بیٹھی ہے آج کل ہٹلر کا وہ مکالمہ ہر ایک کی زبان پر ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ اس نے یہودیوں کو کیوں مارا تھا ۔اسرائیل کے ان مظالم سے میری نظر میں شدت پسند مضبوط ہوں گے اوران لوگوں کا فائدہ ہوگا جن کا نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ دین۔ دنیا کی نظر میں وہ دہشت گرد ہیں ۔ایک نام ان دہشت گردوں کا اسرائیل بھی ہے جو کئی دہائیوں سے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر رہا ہے۔ نام نہاد نہیں حقیقی مہذب لوگوں میں اقوام متحدہ ،یورپ، امریکا سمیت اسرائیل کی جارحیت کےخلاف نفرت بڑھ رہی ہے ۔ کا شف حسین کراچی
جب ہمارے عرب بہن بہائی ہی بے شرم ہو گۓ ہوں تو يہ سب چيزيں ممکن ہو جاتي ہيں۔ ابھی سب کی قسمت اپنے اپنے ہاتھ ميں ہے۔
ہم وہی ہيں جِنہيں
آپ اپنے پہ پيار آتا ہے
باقی جو بھی ہيں
وہ بچے ہوں يا بيمار
جگہ کوئی بھی رہی ہو
کيا فرق ہے
ہم تو خواہِشوں کے مارے
کے ساری دُنيا بس ہماری ہی جاگير ہو
اور جاگيری ميں تو
پِسا کرتے ہی ہيں عوام بھی
معصُوم بھی
يہ پُرانی کہانياں ہيں
آج کے نہيں ہر دور کے حِساب ہيں
آنکھوں کو کرو بند
ہو بھی چُکو بے درد
کہ يہ طور نہيں اِس دور کے
نام رکّھو معصُوموں کا دہشت کرنے والے
اور خُود کرو پہلے دہشت گردی
اور پِھر خُود ہی دو مُسکّن کھانے
کيُوں بھلا ہم سب اپنے پی سر ليں
اب وُہ خُوں ہو يا دہشت
کہ
ہم وُہ ہيں جِنہيں
آپ اپنے پہ پيار آتا ہے
وُہ تو دُشمن ہيں بارُود ہی بونا جانيں
ہم تو ہيں دوست
ہم تو مہذب ہيں
ليکِن کيا کريں
بس ذرا خواص ہيں
اور خواص کا مطلب
تُم عوام کيا جانو
کہ
اور بھی بہت کُچھ کرنا ہے
کِتنے خزانوں کے ہيں در کُھلے
جِن کو بس سميٹنا
اور سنبھالنا بھی ہے
ہم نے دے ديا تو ہے
ريالوں، دِرپموں کا نذرانہ
اب بس ہماری طرف مت ديکھو
کہ ہو نا جاۓ کہيں
توپوں ، ميزائيلوں کا رُخ
ہماری جانِب
ہمارے بچوں کو درد ہوتا ہے
اور ہم سو نہيں پاتے
گر کہيں
کوئی آواز ہو
سو ہميں تو مُعاف ہی رکّھو
کہ فی الوقت ہميں کوئی خطرہ نہيں
اور
ہم وُہ ہيں جِنہيں
صِرف بس
خُود پر ہی پيار آتا ہے
’کھيتوں کو دے لو پاني، بہہ رہي ہے گنگا
کچھ کر لو نوجوانو اٹھتي جوانياں ہيں‘
ڈئير عارف شميم، آداب! کچھ سوچنے سے پہلے ہميں يہ سوچنا ہوگا کہ ہم سوچنے کي خواہش رکھتے بھي ہيں يا نہيں! کيا ہمارے پاس سوچنے کيلۓ وقت بھي ہے يا زندگي کي گاڑي کھينچنے يا صنعتي دور کي آسائشوں کے حصول کيلۓ صبح سے شام اور شام سے رات تک کولہو کے بيل کی طرح ہر وقت گردش ميں ہي رہتے ہيں؟ کيا زندگی صرف دولت کے حصول کا ہی نام ہے؟ کيا انسان ميں موجود احساسات و جذبات و خيالات کی زندگی ميں کوئی اہميت نہيں؟ اگر ايسا ہے تو پھر ماہرين نفسيات کيوں کہتے ہيں کہ زندگی اصل ميں خيالات کے مجموعہ کا نام ہے؟ سوچيں کہ جب انسان حيوان ناطق ہے تو اس ميں ’حيوان ازم‘ کا سِرے سے ہی خاتمہ کيونکر ممکن ہے کہ فطرت کبھی نہيں بدلتي! يہ بھی سوچيں کہ آيا دنيا بھر ميں آج تک جتنی بھی جنگيں، لڑائياں، يدھ، اور دنگل ہوۓ ہيں، انکی بنيادی وجوہات حصول زر، وسائل، مال غنيمت، دولت اور زمين نہيں ہے؟ آيے آج کا پورا دن ہم دل پر پتھر رکھ کر سوچنے کيلۓ مختص کرديتے ہيں اور کھل کر سوچتے ہيں کہ اگر کوئي کسي کي زمين کو خريدنا چاہے ليکن زمين کا مالک (فلسطيني) اسے بيچنے سے انکار کر دے تو معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ ليکن زمين کے مالک کے نہ بيچنے کے باوجود اگر کوئی (اسرائيل) زبردستی اسے خريدنے يا ہتھيانے پر اتر آۓ تو زمين کے مالک کا ردِعمل کيا ہوگا؟ يہ بھي سوچيں کہ جب سڑکيں بنتی ہيں تو حکومت راستے ميں آنے والی زمين کو اسکے مالک سے خريدتی ہے اور اگر مالک نہ بيچنا چاہے تو بھي سڑک تو بننی ہی ہوتي ہے کہ حکومت طاقتور ہوتی ہے جبکہ زمين کا مالک کمزور۔ کيا يہ بہتر نہيں کہ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے مصداق مذاکرات کر کے معاملہ حل کر ليا جاۓ؟ يہ بھی سوچيں کہ جب ہر چيز فانی ہے تو زمين کا مالک اسے آسانی سے بيچنے پر راضی کيوں نہيں ہوتا؟ کيا اسکی وجہ ’دھرتی ماں‘ کا فلسفہ ہے يا محض اسکا يہ عمل ايک ’اڑي‘ ہے؟ سوچوں کو مزيد پھيلائيں اور سوچيں کہ اگر ہر ايک ’دھرتی ماں‘ کا فلسفہ پکڑ ليتا تو پھر دنيا کيوں وسعت اختيار کرتي؟ سوچيں کہ نبی کريم کا پسنديدہ تجارت کا پيشہ ’دھرتی ماں‘ فلسفہء کی کسی نہ کسی طرح نفی نہيں کرتا؟--- بس اب مزيد سوچنا في الحال ممکن نہيں ہے کيونکہ يہ سوچ ليا ہے کہ ’سوچيں پيا تے بندہ گيا!‘
مخلص، نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان
فريب وقت نے گہرا حجاب ڈالا ہے
وہاں بھی شمع جلا دو جہاں اجالا ہے
انشاءاللہ فلسطينی مسلمانوں کا خون رائيگاں نہ جائے گا ۔
ایک بار اور یثرب سے فلسطین کو آ
راہ تکتی ہے پھر مسجد اقصیٰ تیرا
شھید کی جو موت ھے ۔وہ قوم حیات ھے۔۔۔انشااللھ فلسطین آزاد ھو گا۔اور ان لوگوں کو اپنے مظالم کا حساب دینا ھوگا۔۔
فلسطننی شھداہ زندھ بال
شھید کی جو موت ہے'
وہ قوم کی حیا ت ہے۔'
فلسطین کے درد بھرے دن ھیں ۔۔لیکں امید ہے کھ یہ ایک وقت ضرور آئے گا ۔ ۔۔یہ دکھ درد ۔۔ءخوشی میں تبدیل ہوں گے۔۔۔