سیدو سے خط!
(سیدو شریف ( سوات) سے یہ خط موصول ہوا ہے جسے من و عن پیش کیا جارہا ہے۔ )
بی بی سی اردو سروس
مکرمی و محترمی! اسلام و علیکم
ڈیڑھ بجے رات کو کمرے کے دروازے کی گڑگڑاھٹ سے اٹھ بیٹھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی گھر میں داخل ہو کر کمرے کے دروازے کو توڑ رہا ہو۔ وقفے وقفے سے یہ عمل جاری رہا۔ چھ سات مرتبہ کی گڑگڑاھٹ کے بعد میں نےاپنی بندوق سنبھال لی اور عین دروازے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ کچھ دیر بعد جب خاموشی چھا گئی تو باہر نکلا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔
صبح معلوم ہوا کہ ہمارا سکول جو انیس سو پینتالیس میں قائم ہوا تھا اور جہاں سے انیس سو اٹھاون میں میں نے میٹرک کیا تھا۔ جس سے بچپن کی تمام یادیں وابستہ تھیں۔ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔
عصر کے وقت میں خود دیکھنے گیا تو لوگ مالِ غنیمت سمیٹ رہے تھے۔ کرسیاں، میزیں، بینچ، کھڑکیاں، دروازے اکھاڑ کر لے جا رہے تھے۔ تین ککر (بم) جو پھٹے نہیں تھے ایک کونے میں رکھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک سوزوکی آئی اور اس میں سے تین مشکوک لوگ اترے اور ہم سب کے سامنے یہ ان پھٹے ککر
(بم) گاڑی میں رکھ کر لےگئے۔
والسلام
خ ع ب عفی عنہہ
تبصرےتبصرہ کریں
محترم وسعت صاحب! السلامُ عليکم ـ
بی بی سی کے بلاگ عام طور پر سب ہی اچھے ہوتے ہيں، ليکن يقين مانيے کہ پڑھنے کے بعد ان پر کچھ تبصرہ لکھنے کو اب جی نہيں چاہتا، کيونکہ کچھ عرصے سے تبصرے شائع ہی نہيں ہو پا رہے جبکہ صورتحال يہ ہے کہ بسا اوقات متعدد تبصرے اصل بلاگ سے زيادہ لطف ديتے ہيں۔ خير، چھوڑتے ہيں يہ گِلہ گزاري، اور بلاگ کی طرف آتے ہيں۔
نجانے اس ميں کيا طلسم ہے کہ اپنے ميٹرک والے سکول کے ساتھ کم و بيش سبھی کو والہانہ لگاؤ اور محبت ہوتی ہے ! شاید نوعمری اور لڑکپن کی دوستيوں اور يادوں کا اثر ہوتا ہے! ادھيڑ عُمری کو پہنچ کر اينٹ، گارے، مٹی سے بنی اس عمارت پر آنے والی خراش تک کو بھی اِنسان خود اپنے جسم پر محسوس کرتا ہے ـ (خدا گواہ ہے، کم از کم راقم کے ساتھ تو ايسا ہی ہوتا ہے) ـ يوں، سيدو شريف سے تحرير کنندہ بزرگ کے جذبات بالکل قابلِ فہم ہيں ! جہاں تک (سيدو شريف کے) سکول کی عمارت کے ملبے سے ’مالِ غنيمت‘ سميٹنے والوں کا تعلق ہے، عين ممکن ہے ان ميں سے بھی کسی نے ميٹرک اسی سکول سے کيا ہو اور سکول کو اپنا گھر يا اپنی ملکيت سمجھ بيٹھا ہو! اس واقعے سے ريڑھی پر قُلفی بيچنے والے کا قصہ ياد آگيا! ہوا يوں کہ ايک سکول کے باہر کھلنڈرے طالبانِ علم نے مذکورہ قُلفی فروش کی ريڑھی پر دھاوا بول ديا اور قُلفيوں کی لُوٹ مچا دی۔ بے بس قلفی فروش پہلے تو ہکا بکا رہ گيا۔ پھر کچھ نہ بن پايا تو خود بھی اس ’لوٹ مار‘ ميں شامل ہو کر جلدی جلدی قلفياں ہڑپ کرنے لگا کہ کچھ تو لونڈوں سے بچا لے!! يہ لطيفہ نہيں، بلکہ سماجی رويے کا اظہار ہے۔
جو فوج نے بويا ہے وہ کاٹ رہی ہے۔ سب تيرا کرم ہے کے اسکولوں کی تباہی آرہی ہے۔
آداب عرض! يہ تعليم کے دشمن،گويا، انسان کا قدرت سے پيار کا رشتہ توڑنا چاہتے ہيں۔ چلو يہ خوش ہو ليں، شکريہ۔
جن لوگوں نے سکول تباہ کر کے خود ساختہ شریعت کا نفاذ کروایا ہے۔ پتہ نہیں اب کیا کریں گے۔ یہ تو اسلام کے ٹھیکیدار ہیں مگر سکول کو تباہ کرتے ہیں جن کا تقدس مسجد کے بعد آتا ہے۔
ان تین مشکوک لوگوں کو ميں اور آپ تو نہيں جانتے پر ان کا ’بائيوڈيٹا‘ آپ کو قومی اور بين الاقوامی سرکاری ايجينسيوں سے مل سکتا ہے اور انہی کو يہ علم بھی ہو گا کہ موسٰی خان کو کس نے قتل کيا۔
جناب پاکستان بہت تیزی سے لبنان بنتا جا رہا ہے۔۔۔ اور عوام ابھی تک سوئی ہوئی ہے۔۔۔ ہم لوگ آج اپنے مکافات عمل کا شکار ہیں ۔۔۔اللہ ہم پر رحم فرمائے
يہ ديکھ کر بڑا لطف آ رہا ہے کہ پورا مغربی ميڈيا اپنا سر توڑ زور لگا رہا ہے کسی بھی طرح سوات معاہدے کو تڑوائے خاص طور سے بی بی سی پورا ويب پيج بھرا ہوا ہے اسی خبر سے ليکن ان لوگوں کو سمجھ لينا چاہیے کہ جتنی بھی کوشش کرلو اپنا مغربی کلچر ہم پر نہيں تھوپ سکتے جس ميں بارہ سال کا بچہ باپ اور13سال کی بچی ماں بن جاتی ہے۔
اسلام کی خدمت ہو رہی ہے۔ جس نے تعليم کے حصول کو فرض کی حد تک لازم قرار ديا۔ بلخصوص ايک بچی کی تعليم کو پورے معاشرے کی تعلم و تربيت سے تابير کيا۔ يہ اسی اسلام کے دشمن ہیں۔
جب تک آئی ایس آئی زندہ ہے تب تک پوری دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے سب سے پہلے بنیادی مسئلے کو سمجھ کر اس کا حل کرنا ضروری ہے۔
يہ زندگی کے ميلے دنيا ميں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے