'یہ ہمارا ممبئی ہے'
عمران خان نے کچھ عرصہ پہلے ایک آسٹریلوی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں شدت پسند کرکٹ میچوں یا کرکٹرز کو کبھی نشانہ نہیں بنائیں گے کیونکہ پاکستانی کرکٹ کے دیوانے ہیں۔
یہ نہیں معلوم کے انہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ شدت پسند عوامی جذبات کا احترام کرتے ہیں یا پھر شاید انہیں امید ہو کہ چونکہ اب ہماری ٹیم کے کچھ کھلاڑی پنج وقتہ نمازی ہیں اور کچھ ہر بال کو فیس کرنے سے پہلے درود شریف کا ورد کرتے ہیں اس لیے شدت پسند انہیں اپنا مومن بھائی سمجھتے ہوئے معاف کردیں گے۔
ہوسکتا ہے عمران خان کا خیال ہو کہ شدت پسند، یا دہشت گرد یا طالبان یا مجاہدین (تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے دیوانے کا نام) ان کے خیالات عالیہ سننے کے بعد کم از کم اس ٹیم پر تو حملہ نہیں کریں جو دنیا کی وہ واحد بہادر اور بھائی چارہ دکھانے والی ٹیم ہے جس نے پاکستان آنے کی ہمت کی۔
عمران خان کی نیت صاف لیکن تجزیہ غلط۔
کیوں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر شدت پسندوں نے کسی کرکٹر پر حملہ کیا تو انہیں انتہائی سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اے کاش۔
پاکستان کے لوگوں کو کرکٹ کے علاوہ بھی کئی شوق ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا شوق ہے، فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کا شوق ہے اور شادی بیاہ کے موقع پر تھوڑا رقص بھی کر لیتے ہیں یا دوسروں کو کرتا دیکھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔
سوات میں ڈھائی سو سکول تباہ کیے گئے، کسی شہر کی سڑکوں پر جلوس نہیں نکلا۔ صرف منگورہ میں پانچ سو سے زائد سی ڈی اور ڈی وی ڈی کی دکانیں بند کروادی گئیں، عوام نے کوئی ردعمل نہیں دکھائے۔ منگورہ کے چوک میں لا کر شادی بیاہ پر رقص کر کے روزی کمانے والی شبانہ کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا، ردعمل صرف یہ ہوا کہ منگورہ کی خواتین نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔
عمران خان، قاضی حسین احمد اور حمید گل کے منہ پر شبانہ کا نام اسلیے نہیں آیا کیونکہ اس سے ان کا وضو ٹوٹ سکتا ہے۔
لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں ہمارے ٹی وی چینل والوں نے پٹی چلادی ہے کہ یہ 'ہمارا ممبئی ہے'، ٹی وی سکرین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دکھایا گیا ہے کہ ممبئی کے حملہ آورں کی طرح لاہور کے حملہ آوروں نے بھی سنیکر پہنے تھے، کندھوں پر بیک پیک اٹھائے تھے اور گھوم پھر بھی اسی طرح رہے تھے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حملے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ لیکن ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ہم نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ممبئی پر حملہ کرنے والوں میں سے کچھ پاکستان سے گئے تھے؟
تبصرےتبصرہ کریں
دہشت گردوں کا تو کام ہی دہشت پھیلانا ہے ۔ مگر اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کام پا کستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے کروایا گیا ہے۔
ميں عمران خان کی بات سے سو فيصد اتفاق کروں گا۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستانی شدت پسند اس ميں ملوث نہيں۔ حيرت ہے ’اتنے بڑے‘ تجزيہ نگار ہو کر آپ ’اتنی چھوٹی‘ بات نہيں سمجھ پائے۔
پاکستان ميں جب بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، جنرل حميد گل جيسے لوگ فوری طور پر انڈيا پر، عمران خان جيسے راہنما حکومتی نااہلی پر اور ميڈيا ميں چھائے طرم خان امريکہ پر حملہ آور ہو جاتے ہيں جبکہ حکومت-
اس کی کيا بات کريں، اس کا وجود ہوتا تو ايسی باتيں ہی کيوں ہوتيں۔ چونکہ کرکٹ کا تعلق امريکہ سے نہيں بنتا، اس ليے اس کی جان چھوٹی۔ اب رہ گئے بھارت اور اپنی حکومت۔ اب سارا زور انکی طرف ہے۔ چند روز بعد جب گرد بيٹھے گی تو پتہ چلے گا کہ يہ بھی اپنے ہی تھے چونکہ اس ميں کوئی غير ملکی نہيں مرا، اس ليے چند دنوں ميں سب بھول جائيں گے ليکن پاکستانی قوم کو وارننگ ہے کہ اگر انہوں نے اسی طرح جھوٹوں کی جھوٹی باتوں پر يقين کیے رکھا تو وہ وقت دور نہيں جب اسی طرح کے لڑکے لاہور سميت پورے پاکستان ميں دندناتے پھريں گے۔ اس وقت نہ حميد گل نہ عمران اور نہ ہی مياں اور زرداري۔
بھارت پر الزام عائد کرنے سے پاکستان ميں شدت پسندی کو مزيد تقويت ملے گی۔ برائے کرم پاکستانی عوام کو اب تو ہوش کے ناخن لينے چاہیے۔
پاکستانی عوام انتہائی سردمہر اور بے حس واقع ہوئی ہے۔ حالات موافق نہ ہوں تو يہ ريت ميں منہ چھپا کر مطمئن ہو جاتی ہے۔ عمران، قاضی، نواز اور زرداری کی سياسی موجودگی اس کی دليل ہے۔
عمران خان آخر عمران خان ہيں۔ اس ميں کوئی شک نہيں ميرے بيٹے کے جوان ہونے تک بولے تو صرف دس سال بعد ضرور ان کی پارٹی ايک بڑی سياسی پارٹی بن چکی ہوگی اس لیے ان کے اچھے کاموں پر بلاگ لکھيں نہ کہ کسی غلط پيشن گوئی یا تجزيوں پر۔ اور ہم دنيا کی بےحس ترين پہلی اور آخری قوم ہيں بس پيٹ بھرا ہونا چاہيے فل گوشت سے باقی سب سيٹ ہے۔
جب بھی کوئی دانشور پاکستانی عوام کو بے حسی کا طعنہ ديتا ہے تو اس خاکسار کو سخت افسوس ہوتا ہے۔ جس ملک کے عوام نے اپنا پيٹ کاٹ کر اتنی بڑی فوج کو پالا، بجٹ کا سو فيصد فوج اور انتظاميہ کی نذر کيا، خود روکھی سوکھی کھا لی اور فوجی و سول افسروں کو دنيا بھر کی آسائشيں فراہم کيں، اس فوج اور انتظاميہ نے جنت جيسے خطہ زمين کو طشتری ميں رکھ کر ملک دشمنوں کے حوالے کر ديا۔ الزام لگا بے چارے عوام پر کہ بے حس ہوگئے ہيں۔ دانشوروں کی دانش کا يہی عالم ہے تو پی آئی اے يا ريلوے کی انتظاميہ کو بھی اپنی بربادی کی ذمہ داری بيچارے مسافروں پر ڈال دينی چاہيے۔
بھائی صاحب خدا کا خوف کریں ابھی کچھ زيادہ عرصہ تو نہیں ہوا جب ہمارے محترم صدر صاحب نے کہا تھا کہ انڈيا کبھی ہمارے ليے خطرہ نہيں رہا ۔۔۔پھر۔۔۔۔
ہميں اپنے گھر ميں لگی آگ کو پہلے بجھانا چاہيے۔ ہميں پتا ہے کہ آگ ہمارے گھر ميں لگی ہوئی ہے۔ ہم اشارہ دوسروں کے گھر کا کر رہے ہيں۔
آپ نے اتنی جلدی نتيجہ نکال ليا کہ يہ کون لوگ ہيں تھوڑا انتظار کيا ہوتا آپ ميڈيا والے بھی ايک دوسرے سے بازی لے جانے کے چکر ميں رہتے ہيں حقيقت سے کوئی سروکار نہيں آپ کو ۔