اُُف یہ امریکی نہ آتے
برصغیر کے عوام یہ مان کر چل رہے ہیں کہ امریکی اہل کاروں کا دورہ پاک بھارت ان کے لیے کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہوتا ہے حالانکہ وہ امریکی پالیسی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بات کو بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اُسکی پریشانی کا موجب کونسا ملک ہے، اس ملک کا کونسا ادارہ ہے، کس کو لتاڑنا ہے کس کو اُکھاڑنا ہے، کس کو سنوارنا ہے، کس پر ڈرون گرانا ہے اور کس کو دہشت گرد ماننا ہے۔
مگر اس ملک کو کون سنبھالے جس کے اپنے لوگ ہی دشمن بنے ہیں اور جو اپنے ہی ملک کی بیخ کنی پر مورچہ زن ہیں۔
چند برسوں سے جاری بھارت اور پاکستان کے درمیان نام نہاد بحالی اعتماد کی فضا کا جو تاثر قائم کیا گیا وہ اب کتنا کھوکھلہ ثابت ہو رہا ہے اور اس کھوکھلے پن کو برقرار رکھنے میں امریکہ نےکیسا کردار ادا کیا ہے۔
اگر حقیقت سب کو معلوم ہے تو حملے کرنے، تشدد پھیلانے یا خون خرابہ برپا کرنے کے ڈرامے کیوں رچائے جاتے ہیں اور وہ بھی اُس وقت جب امریکی صاحب ان ملکوں کے دورے پر ہوتے ہیں۔
'کیا چھٹی سنگھ پورہ کے واقعے کو لوگ بھول گۓ ہیں جو کلنٹن کے آنے کے وقت ہواتھا'۔
حال ہی میں جب مائیک مولن اور رچرڈ بوچر برصغیر کے دورے پر تھے تو کشمیر میں ایک اور ڈرامہ رچانے کی کوشش کی گئی اور یہ خبر پھیلائی گئی کہ 'طالبان وارد کشمیر ہوئے ہیں'۔
کشمیریوں کی ڈر اور خوف کے مارے نیند اٹھ گئی۔
اس پر تبصرے شروع ہوگئے اور یہ بات صحیح ثابت ہوئی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو کبھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔
بقول ایک مبصر 'پاکستان نے امریکیوں سے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت نے افغانستان کے راستے اُس کی سرحدوں پر اپنا نیٹ ورک کافی پختہ بنایا ہے جبکہ وہ پہلے ہی طالبان کے ہاتھوں پِٹ رہا ہے تو بھارت نے اس کا توڑ کرنے کے لیے شائد کشمیر میں طالبان کی موجودگی بتا کر امریکیوں کو مزید تشویش میں ڈال دیا'۔
حقیقت کیا ہے وہ یہ دونوں ملک جانتے ہیں مگر دونوں کے مابین اعتماد کے فقدان کی ایسی کیفیت پائی جاتی ہے کہ مولانہ آزاد کی بات کا یقین ہونے لگا ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے بیچ میں خونی لکیر کبھی نہیں مٹ پائے گی۔
اور یہ خونی لکیر اس وقت پھر رنگ جاتی ہے جب امریکی ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔
برصغیر کے عوام دعا ہی کرتے ہیں کہ کاش امریکی اس خطے میں آنا چھوڑ دیں تاکہ عوام کوکچھ تو سکون میسر ہوسکے۔
تبصرےتبصرہ کریں
کاش کہ انسان کی تمام خواہشيں پوری ہوتيں ليکن قوموں کو جب ايسے حکمران بندوق کے زور پر ملتے رہے ہوں جنہوں نے تقريبا” بيس سال تک دواقساط ميں امريکہ بہادر کی آشيرباداورخوشنودی کے لئے کبھی جہاد اورکبھی روشن خيالی کے ڈالروں ميں لپٹے درآمد شدہ نعرے قوم پر بزور مسلط کرتے کرتے قوم سے ان کے خواب بھی چھين لئے ہوں وہاں پھر کون نہيں آئے گا؟
مزے کی بات اگر امريکی اس خطہ پر نہ بھی آتے تب بھی ہم آپس ميں لڑتے ہی رہتے يہ اور بات کہ فاہدے ميں ہميشہ امريکہ ہی رہتا ہے اس کا اسلحہ دھڑا دھڑ بک رہا ہے چند وقتی طور کے فيصلے کر کے معصوم اور منصف بھی بن جاتا ہے اور ہميشہ کی چودھدراہٹ بھی پا ليتا ہے -اور ہم نرے بدھو کے بدھو سو پياز بھی کھاتے ھيں اور سو جوتے بھی - چونکہ اب ہم مومن نہيں رہے لہزا ايک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہيں -
نديم رحمان ملک - مظفر گڑھ - پاکستان -
ہميں پہلے خود سدھرنا چاہيۓ اور ہميشہ يہ سوچ کر رہناچاہيۓ کہ ہم پڑوسی نہيں بدل سکتے امريکيوں کی آمد پر ڈرامہ کرنے کی کيا ضرورت ويسے ہی دونوں ملکوں ميں تشدد برابر ہے
آپ کی بات تو درست ہے ليکن جن کے منہ کو خون لگ گيا ہو وہ اس خونی لکير کو چاٹنے ضرور آئيں گے-
ليکن ہم دونوں بھی اس رستے خون کو بند نہيں ہونے ديتے-
سچ تو يہ ہے کہ ہم بھی اس ہلکي ہلکی درد سے مسرور ہونے کے عادی ہو گئے ہيں
آداب عرض! کيا ايسا نہيں کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہي”پيرونايا" (شک)کی بيماری ميں مبتلا ہيں؟