'ٹی این ایس ایم ون'
کل رات جب بہت دنوں بعد میں نیویارک کی جادو نگری مینہیٹن گیا تو ایسا لگا دنیا بہت تیزی سے صدیوں آگے نکل گئی ہے اور میں خود کو اس کہانی کا وہ کردار سمجھنے لگا جو کئی صدیوں سویا ہوا تھا، جب اٹھا تو زمانہ قیامت کی چال چل چکا تھا اور اس کی جیب میں جو سکہ تھا وہ صدیوں پہلے رائج الوقت ہوا کرتا تھا۔
یہ نیویارک میں موسم گرما کی پہلی رات تھی۔ سب کچھ نیا نیا۔ سینٹرل پارک پر درختوں پر نئے پتوں کے آتے ہی لوگوں کے بدن پر کپڑے کم ہوگئے۔ 'ہم ہالی وڈ پلانیٹ کی بار میں بیٹھے ہوئے ہیں' ایک دوست نے فون پر کہا۔
فورٹی سیکنڈ اسٹریٹ پر سیکس شاپ کے سامنے ایک ہوم لیس شخص بائیبل ہاتھ میں لیے اپنے دوست کو پڑھ کر سنا رہا تھا۔ اور ٹائمز اسکوائر پر چلتے ہجوموں میں ایک شخص 'اوبامہ اور مکین کونڈمز'، ان کی رنگین تصاویر والے پیکٹ بیچ رہا تھا۔
نیویارک ٹائمز کی عمارت کے نیچے ایک بہت بڑا غریب پرور کیفے کھل چکا تھا۔
اگر آپ نیویارک ٹائمز پڑھیں تو لگتا ہے پاکستان چھ ماہ میں ٹوٹ جائے گا۔ اس دن 'نیویارک ٹائمز' میں لکھا تھا کہ طالبان جنوبی پنجاب پہنچ چکے ہیں۔
اگر طالبان میرے دوست ظفر بلوچ کے دور دراز گاؤں پہنچ سکتے ہیں تو پاکستان میں کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں، اس گاؤں میں جہاں کے سادہ دل سرائيکی ایک قدیم نعت پڑھتے تھے 'ملک عرب دے رانجھے تے عاشق ہوئیاں حوراں تے مستوراں'۔
'جتھاں مخلص نمازی ہن او مسجد بھی اے بیت اللہ
جو ملاں دیاں دکاناں ہن مسیتاں کوں ڈہا ڈیوو'
سرائیکی عوامی شاعر شاکر شجاع آبادی نے کہا تھا۔
سوات میں نظام عدل کا مینی فسٹو کس نے لکھا؟ کامریڈ افراسیاب خٹک نے، کوئی پاکستانی ٹی وی چینل پر کہہ رہا تھا۔
سوات میں سکول اس لیے جلائے گئے کہ ان سکولوں کی عمارتوں میں فوج نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، باچا خان فاؤنڈیشن کے کوئی صاحب کسی تقریب میں اپنی اس بات کی ٹوپی سب کو پہنا رہے تھے۔
سوات میں عدل و انصاف کی بہار اس سے بھی عیاں ہے کہ صوفی محمد (وہ صوفی ایسے ہیں جیسے عبد الستار ایدھی مولانا ہیں) کی گاڑی کی رجسٹریشن پلیٹ پہ لکھا ہوا ہے 'ٹی این ایس ایم ون' یعنی 'تحریک نفاذ شریعت مینگورہ ون'۔
ملاں، لاؤڈ سپیکر، کلاشنکوف اور ڈبل کیبن کے سنگم نے عجیب خوف اور عقیدت کو جنم دیا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائی! محو حيرت ہوں کہ آپ جيسے زيرک آدمی نے يہ نہيں بتايا کہ يہ ڈبل کيبن کلچر کہاں سے شروع ہوا اور کہاں نشوونما پاکر پروان چڑھا۔ يا اس کے فروغ ميں کن غازيوں و پراسرار بندوں کا ہاتھ ہے؟
تمام انگلش سپيکر لبرل لوگوں سے گذارش ہے کہ برائے مہربانی اپ لوگ پريشان نہ ہوں۔ انشا اللہ سب بہتر ہو جائے گا۔
کيکر تے انگور چڑھايا ہر گچھا زخمايا۔ لاؤڈ سپيکر اور کلاشنکوف کے بل پر اسلام نہيں صرف خوف پھيل سکتا ہے اور آج کے اس مہذ ب دور ميں دہشت کی حکمرانی کب تک پنپ سکتی ہے۔ اے اين پی اور صوفی محمد دونوں ہی قيام پاکستان کے مخالفين کے فکری وارث ہيں۔ اس ليے ان سے پاکستان کے بھلے کی اميد رکھنا بے معنی ہے۔
حسن مجتبٰی صاحب برا مت مانیے گا کبھی کبھار پتہ ہی نہیں لگتا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ صرف آخری لائن یا پیرا سمجھ میں تو آجاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ تمام مواد بکھری سوچ پر مشتمل ادھر ادھر کی آئیں بائیں شائیں ہوتی ہے۔ کچھ ربط ہی نہیں ہوتا۔ آج بھی کچھ ایسا محسوس ہوا۔ ویسے اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اچھا نہیں لکھتے۔ کبھی کبھار آپ بہت ہی اچھا لکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آپ کو پڑھنا پڑتا ہے۔ اچھا لکھتے رہیے گا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ تمام انسانوں اور قوموں کی جنگ ہے ورنہ کل کے افغانی طالب، پاکستانی طالب آج کے پنجابی طالب، کل کے ہندوستانی، چينی اور امريکی طالب۔ آج اگر پاکستان شکست کھاتا ہے تو اگلی آگ کہيں اور لگے گی۔
پہلی بات ٹی اين ايس ايم کا مطلب تحريک نفاذ شريعت محمدی ہے۔ صوفی محمد کوئی بڑے صوفی اور عالم تو نہيں مگر ان کا جذبہ قابل قدر ہے۔ ان کے جلسے کو ديکھ کر آپ کيا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کيا يہ سب لوگ پاگل ہيں۔ يہ نيو يارک کے جادو کا اثر تو نہيں؟
وطن کے بیٹے بیٹیوں کو امریکہ کی کالی دیوی پر بھینٹ تو چڑھا چکے ہیں مگر
ڈالر کے پجاری یہ پنڈت، یہ بدکار، یہ حاکم اب دیکھیے کالی ماتا کے چرنوں پہ کس کی بلی چڑھاتے ہیں۔