رینا کماری کے صدقے
جو بات مجھے چال باز، شطرنجی، آنکڑے فٹ کرنے والے، رائتا پھیلاؤ، پھیر بدل کے بانس پر کرتب دکھانے والے قلا باز، دو زبانیں، دو دماغ، دوہرا دل رکھنے والے، دیدہ گھماؤ، آپ کے ہاتھ کی دو انگلیاں غائب کرنے والے مسکان زدہ مصافے باز، وفا کے کپڑے سے سلی ہوئی شیروانی پہننے والے بےوفا، دو پلّی ٹوپی کو الٹا کر کے اقتدار کی کشتی بنانے والے نیتا نما لوگ اور الفاظ کے سوداگر اور دانشور نہيں سمجھا سکے وہ بات آندھرا کے ایک گاؤں کی نوے سالہ رینا کماری نے بنا کچھ کہے سمجھا ڈالی۔
آپ رینا کماری کو نہيں جانتے، دو دن پہلے تک میں بھی نہيں جانتا تھا۔ اگر میں کرنول کے قریب ایک سکول میں قائم پولنگ سٹیشن پر اسے باہر نکلتے ہوئے نہ دیکھ لیتا۔
انچ بھر موٹے شیشوں کا چشمہ دو میلے تاروں کی مدد سے اس کے دونوں کانوں سے جڑا ہوا تھا، ایک ہاتھ سے لاٹھی ٹیکتی، بغل میں دو کلو چاول کا تھیلا دبائے ننگے پاؤں تپتی زمین پر آہستہ آہستہ چلنے والی رینا کماری۔
اس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ بیٹا یہ مجھے ووٹ کیوں نہيں ڈالنے دے رہے ہيں؟
میں نے کہا کون؟
کہنے لگی یہ الیکشن والے بابو۔
میں نے کہا کیوں؟
رینا کماری زمین پر بیٹھ گئی۔ چاولوں کی تھیلی کھولی۔ اس میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کا مڑا تڑا ووٹر رجسٹریشن کارڈ نکالا۔ اور مجھے تھما دیا۔
بابو کہتا ہے کہ یہ نہیں چلے گا۔ اس کے ساتھ کوئی راشن کارڈ وغیرہ بھی لاؤ۔
میں نے کہا امّا میں تو خود یہاں اجنبی ہوں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟
کہنے لگی رکشے والے نے یہاں دس روپے لیکر پہنچایا۔ تو مجھے رکشہ دلوا دے تاکہ جن کے یہاں میں نے راشن کارڈ رکھوایا ہے وہاں سے لاکر ووٹ ڈال دوں۔
میں نے کہا اماّں، تو اس گرمی میں دوبارہ کیوں آئے گی؟ ميں رکشہ دلوا دیتا ہوں گھر جا کر آرام سے بیٹھ۔
کہنے لگی آؤں گی تو ضرور، پھر جانے کب ووٹ پڑے اور میں رہوں یا نہ رہوں۔
میں نے کہا امّا تجھے انہوں نے کیا دیا تو اپنا حال تو دیکھ۔
کہنے لگی ان کی وہ جانیں میری میں جانوں۔ اب مجھے رکشہ دلوا۔
امّا رینا کماری رکشے میں بیٹھ کر چلی گئی اور میں اگلے پولنگ سٹیشن پر جانے کے لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ جمہوریت رینا کماری کے اندر محفوظ ہے یا دہلی کی اس گول بلڈنگ میں، جہاں رینا کماری کے ووٹ کے صدقے جمع ہونے والے رینا کماری کو جانتے تک نہیں، پہچاننا تو دور کی بات ہے۔
خدا جانتا ہے کہ مجھے رینا کماری وہ گائے لگی جس نے اس ملک کی جمہوریت کا بوجھ اپنے سینگھوں پر اٹھا رکھا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت بھائی آپ کی وسعتِ نظر کو سلام ہے۔ ہر دفعہ کی طرح بہترين لکھا ہے۔
ليکن ميں يہ کہوں گا کہ کئی رينا کمارياں ميرے اور آپ کے ديس ميں بھی ہيں ليکن وہ دہلی والی گول عمارت کہاں سے لاؤں۔
محترم وسعت اللہ خاں صاحب، آداب عرض! آپ نے راہ چلتے اس چھوٹے سے واقعے میں بہت ہی عظیم بات دریافت کر کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کا عملی مظاہرہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے خاکسار لاشعوری طور پر آپ کی خدمت میں ایک عدد مودبانہ و عاجزانہ و مخلصانہ سیلوٹ مارنے پر مجبور و لاچار ہے۔ مزید براں، خاکسار اس وجہ سے بھی رینا کماری کے صدقے واری ہے کہ رینا کماری نے ان لوگوں کو، ڈگریوں کی دُم رکھنے والوں کو، ڈگریوں کو سادہ لوح لوگوں پر بطور رعب و دبدبہ ڈالنے والوں کو اور روشن خیال بننے والوں کو احساسِ شرم و ندامت میں مبتلا کر دیا ہے۔
کيا بات ہے رينا کماری کی۔ بھگوان اس کو لمبی عمر دے۔ اگر رينا کماری پاکستان ميں ہوتیں تو کبھی ووٹ ڈالنے نہيں جاتی کيوں کے يہاں اليکشن سے پہلے ہی فيصلہ ہو جاتا ہے۔ اميد ہے کہ پيرجی بھی لندن ميں رينا کماری کی کہانی پڑھ ليں اور رينا کماری کے حق ميں کراچی ميں ايک مظاہرہ کرواديں۔
وسعت اللہ بھائی، ہر بار رلانا ضروری ہے کیا؟
خان صاحب، اصل چيز مثبت سوچ ہے، جو ہماری قوم ميں بالکل ناپيد ہے۔ يہاں تو مريض کو دوائی اپنے پلے سے خريد کر اور منت ترلا کر کے کھلانی پڑھتی ہے، بلکہ بعض اوقات چھترول بھي کرنی پڑتی ہے۔ يہاں ووٹر بھی ايسی ہی منتيں کرواتے ہيں، اس ليے بعد ميں اپنے نمائندوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہيں۔ بہرحال کون صحيح ہے اور کون غلط؟ مرغی پہلے يا انڈہ، والا معاملہ ہے۔
آپ کے موضوعات ڈھونڈنے کی بھی داد دينی چاہيے۔ خوب لکھا ہے۔
رينا کماری آپ جيسے لوگوں سے ہی بھارت ميں جمہوريت قائم و دائم ہے۔
وسعت بھائی!اس ظالم نظام جمہور کے ڈسے ہوئے سر پھرے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہيں۔افسوسناک بات تو يہ ہے کہ معصوم لوگ تو ووٹ اپنی قسمت بدلنے کے ليے ديتے ہيں مگر قسمت کسی اور کی ہی بدلتی ہے۔
وسعت بھائی کاش کہ ہم ميں سے ہر ايک کی سوچ اِتنی حسين ہو جائے جيسی رينا کماری کی ہے کہ ہر کوئی اپنی حد تک يہ سوچ لے کہ ہم اپنا فرض ادا کريں۔ پوری ديانتداری کے ساتھ تو کبھی بھی کہيں کوئی غلطی بُھولے سے نا ہو۔ سلام رينا کماری کی اعلیٰ سوچ کو۔
وسعت صاحب
غریب ہوتے ہیں تو کوئی امیر کہلایا جاتا ہے۔ رینا کماری ہے تو جمہوریت کی بساط بچھتی ہے۔ لیکن جیتنے یا ہارنے والے تو کھلاڑی ہوتے ہیں، رینا کماری نہیں۔ پھر اگر کوئی کفر کہے تو بالائے فہم کیوں نہ ہو؟
آپ کو يہ پتہ ہونا چاہيے کہ پاکستان ميں بھی رينا کمارياں بڑی تعداد ميں موجود ہيں ليکن ناجانے کن وجوہات کی وجہ سے وہ متحرم وسعت اللہ صاحب کو نظر نہيں آتیں۔
بچاری! جمہوريت مغرب کا ايک بہت بڑا دھوکا ہے۔ جمہوريت انسان کو گنتی ہے تولتی نہيں