جائیں تو جائیں کہاں
کشمیر سے اُس وقت نکلے جب زندگی پوری طرح مفلوج ہوگئی، سوچ میں زنگ لگنے لگی اور نقل و حمل پر پہرے پڑنے لگے۔
دنیا کی بڑی جمہوریت کہلانے والے ایک ارب سے زائد آبادی والے دیش میں چلے گئے، مگر ایک طرف آسمان سے برستی آگ نے نہ صرف جسم کی کھال پر مختلف نقشے بنا دیے بلکہ دوسری طرف 'کشمیری' نام سنتے ہی لوگوں کے کان کھڑے ہوتے دیکھ کرگھبراہٹ ہونے لگی۔ ہم نے خاموشی میں ہجرت کا سامان باندھ دیا۔ مملکت خدا داد کی جانب بھی نظریں دوڈائیں تو صرف ایک لمبی آہ نکل گئی۔
اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دور بھاگتے چلے گئے اور پھر پہنچے یوروپ کی سر زمین پر۔ لندن کی آب وہوا کچھ کچھ راس آگئی، موسم کشمیر جیسا ہی ہے۔ گو کہ اس دنیا میں سروایو کرنا انتہائی مشکل تھا لیکن ہمت کر کے ہم بھی چلتے رہے۔
سنا ہے کہ سوائن فلو سے یہاں تقریباً پچانوے ہزار افراد مر سکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں بھی ہم غریب ہی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔
مرنے سے ہم نہیں ڈرتے مگر میں سوائن فلو سے مرنا نہیں چاہتی کیونکہ جو لوگ گولہ بارود، ایٹم بم، تباہی، بربادی، زلزے، سیلاب جیسی آفتوں سے بچ گئے ہوں وہ سوائن فلو سے مریں اس میں کچھ ایکسیاٹمنٹ نظر نہیں آتی۔
اب ہم جائیں تو کہاں جائیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
آپ واپس کشمير چلی جائيں اور آزادی کی تحريک ميں شامل ہو جائيں۔ انشاءاللہ من کی مراد پوری ہو گي۔ ايکسائٹمنٹ کی ايکسائٹمنٹ اور سوائن فلو سے مرنے کا تو سوال ہی نہيں پيدا ہو گا البتہ۔۔۔۔۔۔۔
نعيمہ احمدمہجورصاحبہ!کمال کا بلاگ ہے اورخصوصا” کچھ کچھ جملے تو زبردست کاٹ داراوربڑے گہرے ہيں جورک کرقاري کوبہت کچھ سوچنے پرمجبورکرتے نظرآتے ہيں بہرحال يہی زندگی ہے اوريہی زندگی کاتسلسل اورحسن جوانسان کولئے کہاں سےکہاں پہنچ جاتے ہيں ليکن نہ توانسانی مسائل ختم ہوتے ہيں اورنہ ہی دائمی حيات نصيب ہوتی ہے اسی لئے توشاعرنےکہاہے
&اب تو گھبرا کے کہتے ہيں کہ مرجائيں گے ----مرکےبھی چين نہ پاياتوکدھرجائيں گے ـ
ميرے آبائی علاقے کے ايک بوڑھے کی يہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی جب وہ اپنے نوعمر بيٹے کواس کی کچھ بری عادتوں سے چھٹکارادلانے کے لئے اپنے ساتھ محنت مزدوری کے لئے کراچی لے گيااورايک روزسمندرکنارے شپ يارڈپرکام کرتے ہوئے بڑے پيارسے اپنے بيٹے کانام لے کراسے کہا کہ ديکھ آگے خداکی زمين بھی ختم ہوگئ ہے اورہرطرف پانی ہی پانی (يعنی سمندر)ہے اس لئے اب تو ٹھيک ہوجا۔اس لئے اب سوائن فلو جيسی مصيبتوں کو بھی يہ ہی کہاجائے کہ اب اتنے دورپرديس ميں تو ہمارا پيچھا چھوڑدو خداکيلئے
نعيمہ جي! آپ نے دو طرح کی موت کا تذکرہ کيا ہے خوش قسمت ہيں وہ جن کو طبعی موت نصيب ہوتی ہے خواہ اس کی وجہ وائرل انفيکشن ہی کيوں نہ ہو۔آج تو يہ حال ہے کہ انسان اپنے جيسے انسان کا گلا کاٹ رہا ہے اور کوئی احساس ندامت و افسوس نہيں۔ آج ہی ايک رکشہ کے پيچھے لکھا ديکھا
انسان انسان کو ڈس رہا ہے
سانپ بيٹھا ديکھ کر ہنس رہا ہے
کشمیر میں کشمیری عوام خود پریشان ہیں ۔ جہاد کے نام پر دہشت گرد ملا موجود ہییں جن کا کام بنی نوع انسانیت کو بموں دھماکوں سے اُڑانا ہے۔ تحریک آذادی کے نام پر قتل و غارت اور سازش کا حصہ بننے اور عوام کو گمراہ کرنے سے بہتر ہے کہ ادمی سوائن فلو سے مر جائے! اُس سے کسی انسان کو تو ازار نہین پہنچے گا۔۔۔
نعيمہ صاحبہ
آپ تو خوش قسمت ہيں کہ آپ کشمير ميں غلامی سے نکل کر ايک آزاد ملک پہنچنے ميں کامياب رہی بلکہ وہاں کسی قدر بہتر زندگی گزارنے کا سليقہ بھی سيکھ ليااور يوں آپ دلی والے ديش سے راحت تو پاگئيں ۔
سو آپ وبائی بيماريوں سے ہرگز نہ گھبرائيں کيونکہ گر (اللہ ہرگز ہرگز ايسانہ کرے بلکہ آپکی عمر دراز ہو)ليکن گر خدانخواستہ يہ فلو ہوجائے اور اسکے نتيجے ميں موت ہو تو واللہ يہ بھی آپ کوخوشی خوشی قبول ہونا چاہئے ۔ہم يہ کہنے کی جسارت اس لئے کررہے ہيں کيونکہ ہميں نہ معلوم کيوں يہ يقين ہے کہ آزاد ملک ميں مرنا ايک بڑی نعمت ہے ۔بس!۔ اللہ آپکو بصحت وسلامت رکھے۔
mytalkpoint@yahoo.com
زندگی ایک امتحان ہے۔ نہ اس میں مکمل سکون میسر ہے نہ ہی ہمیشگی۔ اب چاہے تو آپ اس کو ساغر صدیقی کی نظر سے دیکھیں۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہم نے
جانے کس جرم کی پائی سزا یاد نہیں
یا پھر اس شاعر کی نظر سے جس نے کہا ہے:
زندگی بے بندگی شرمندگی
آپ کی سوچ بہت اچھی ہے۔