شام تک کیا بیچیں!
جو پھٹیچر لطیفہ میں آپ کو سنا رہا ہوں، پاکستان میں یہ لطیفہ پٹھانوں پر اور ہندوستان میں سرداروں پر رکھ کر سنایا جاتا ہے۔
'ایک سردار جی/ خان صاحب، بھری گرمی میں ٹھیلے پر فالسے بیچ رہے تھے۔ ایک گاہک آیا اور پوچھا بھائی صاحب فالسےکیا حساب بیچ رہے ہو۔ ٹھیلے والے نے کہا ستر روپے کیلو۔گاہک نے کہا سب تول دو۔۔ریڑھی والے نے کہا اگر سب فالسے تم لے گئے تو شام تک کیا بیچوں گا !'
اب آپ پوچھیں گے یہ برسوں پرانا لطیفہ سنانے کا کیا مقصد ہے ؟
مقصد یہ ہے کہ مجھ جیسے سینکڑوں صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کو سولہ مئی کے نتائج کی بنا پر بھارتی عوام سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔
ہم تو پچھلے دو مہینے سے یہ سوچ کر اپنے قلم کے بھالے اور زبانوں کی چھریاں تیز کئے بیٹھے تھے کہ حساب کتاب ، آنکڑے اور ستاروں کی چال بتا رہی ہے کہ کسی بھی پارٹی کو انتخابات میں اکثریت نہیں ملے گی ۔لہذا حکومت بنانے کے لیے سیاستدانوں میں خوب جوتا چلے گا۔ دھونس اور گھوس سے کام لیا جائے گا۔ تب کہیں جا کر پندرہ بیس روز بعد ایک ایسی سرکار کی شکل ابھرے گی جو شاید دو ڈھائی سال بھی نہ نکال پائے۔ پھر مڈٹرم الیکشن ہوں گے اور پھر ہم میڈیا والوں کا دھندا چمکے گا۔
مگر بھولے ووٹر کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ اس نے ہمارے اندازوں پر برفیلا پانی انڈیل کر میڈیا کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ ووٹر کی اس حرکت سے اگلے پندرہ بیس دن کی منصوبہ بندی کرنے والے چینلز، اخبارات اور رسالوں سے جڑے سینکڑوں تجزیہ بازوں، مضمون اور کالم نگاروں، گرافک ڈیزائنرز ، ہائی پروفائیل اینکرز، کیمرہ پرسنز، کیمرے کے آگے کھڑے ہوکر انکشافات کی عادت میں مبتلا رپورٹرز اور ایکسکلوسیو انٹرویوز کی دوڑ میں حصہ لینے والے ایڈیٹرز کے کروڑوں روپے ڈوب گئے جو انہیں فیسوں ، اوور ٹائم اور سفری اخراجات کی شکل میں مل سکتے تھے۔
ہم سب کے دل میں ارمان تھا کہ آنے والے کئی دنوں تک ہاتھی کا چیونٹی کے ساتھ، شیر کا بکری کے ساتھ اور بلی کا چوہے کے ساتھ سیاسی جوڑ بٹھائیں گے۔ رنگین گرافکس اور تبصروں کی مدد سے اپنی اپنی من پسند سرکار بنائیں گے، مٹائیں گے اور پھر بنائیں گے۔ خود بھی مزے لیں گے اور دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کو بھی مزہ کروائیں گے۔
لیکن پندرہ بیس دن تک جو سرکس لگنا تھا وہ سولہ مئی کی شام تک شامیانے کے بانس گڑنے سے پہلے ہی لد گیا۔ اور اب ہم سب میڈیا باز تجزیہ کار چھیالیس ڈگری سنٹی گریڈ میں حقائق کے تپتے سورج تلے ووٹ کے فیصلے کی گرم زمین پر بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ سارے فالسے تو ووٹر لے گیا اب شام تک کیا بیچیں !
لیکن مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں۔ دو ہزار چار میں بھی یہی ہوا تھا۔ آنے دیں دو ہزار چودہ کے انتخابات۔ہم نے بھی فالسے کی جگہ تربوز اور کٹہل کا ٹھیلہ نہ لگایا تو نام بدل دینا۔ یہ ووٹر آخر خود کو سمجھتا کیا ہے !
تبصرےتبصرہ کریں
’ہمت پر منحصر ہے پرندے کی زندگی‘
آداب ! خاکسار کو بھی آپ صحافیوں سے ہمدردی ہے کہ آپ کی نہ بھارت انتخابات میں اور نہ ہی پاکستان کے شورش زدہ علاقوں پر خصوصی نقشے بنا بنا کر قارئین کو انتہائی آسانی مہیا کرنے کے باوجود دال نہیں گلی اور کیے کرائے پر پانی پھر گیا کہ کسی نے ان نقشوں کو گھاس نہیں ڈالی۔ بہرحال آپ صحافیوں سے پرارتھنا ہے کہ دل چھوٹا نہ کریں اور حوصلہ رکھیں اور اس حوصلہ میں پیٹرول ڈالنے کے لیے یہ شعر چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے پڑھا کریں، انشااللہ افاقہ ہوگا:
’یہی تاریکی تو ہے غازہ ء رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر‘
’ممکن ہے باغ کو بھی نکلتی ہو کوئی راہ
اس شہرِ بے شجر کو بہت بے ثمر نہ جان‘
وسعت صاحب آپ نے تو منہ کی چھين لی
آج ہی ميرے ايک دوست نے کہا تھا يار اب اخباروں ميں وہ مزہ نہيں رہا جو اليکشن کے دوران ہوا کرتا تھا۔ ميرا جواب تھا کہ رہی سہی کسر ان جامع نتائج نے پوری کر دی ورنہ تو بہت مزے آتے! مگر ووٹر کی دانشمندی کو سلام بھی تو کرنے کو جی چاہتا ہے جس نے ايک بار پھر فرقہ پرستی کی سياست کو نکار کر يہ ثابت کر ديا ہے کہ مياں اب خالی خولی مندر مسجد يا پھر دہشت گردی اور سلامتی کے نعروں سے پيٹ نہيں بھرنا، ہميں تو معاشی استحکام چاہيے۔۔۔ نتيجہ دنيا نے ديکھ ليا۔ ادھر منموہن سنگھ سرکار بنانے کی تياری کر رہے ہيں اور ادھر دلال اسٹريٹ نے دھڑا دھڑ سامان بيچ کر وقت سے پہلے ہی دکان بند کرنی شروع کر دی ہے! اب وہ سردار جی تھوڑے ہی ہیں کہ پورے کے پورے تربوز ايک ہی گراہک کو دينے کو راضی نہ ہوں!
وسعت اللہ خان صاحب نے آج کے الیکٹرانِک ميڈيا کے طرز عمل کو جس انداز ميں پيش کيا ہے وہ دل کو چھو لينے والا ہے۔ ويسے ميں يہاں يہ بتا دينا چاہتا ہوں کہ 13 مئی کو پولنگ کے بعد سے ان نيوز چينلوں نے بڑے بڑے شروع کر دیے اور قسم کھا کر کہنے لگے کہ کانگريس اور بی جے پی کو ملنے والی نشستوں ميں 10-20 کا ہی فرق رہے گا اور تيسرے اور چوتھے فرنٹ کو انہوں نے ايسی پوزيشن دے دی تھی کہ وہ خود کنگ ميکر سمجھنے لگے تھے۔۔۔
ان سے کوءی پوچھے کہ کس نے کانگريس کو دو سو سے زائد نشستيں دی تھيں۔ ووٹرس اس لیے مبارک کے مستحق ہيں کہ انہوں نے موقعہ پرستوں اور فرقہ پرستوں دونوں کو سبق سکھايا ہے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ کانگريس اور اس کی ہمنوا جماعتيں اس کا کتنا فائدہ اٹھاتی ہيں۔
اب فالسے کی بجائے کلٹہل يا تربوز بيچا جائے 2014 ميں رائے دہنگان کی تعداد 100 کروڑ کے آس پاس پہنچ چکی ہوگی اور ان ميں 35-18 سال کے نوجوان زيادہ ہوں گے۔ اگر ان پانچ برسوں ميں حالات بہتر ہوئے تو يہی صورت حال رہے گی اور چينلوں کو بڑ ی بڑی پیش گوئی کرنے کا موقع بھی شايد نہيں ملے گا۔۔۔
شکر ہے وسعت انکل بیروزگار نہیں ہو گئے ورنہ انکا یہ بلاگ نہ چھپتا!
لگتا ہے آپ کو پچھلے سال پاکستان ميں ہونے والے اليکشن ياد نہں رہے۔ خير ہو پير جی کی کبھی ان کی کہانی بھی سن ليا کريں۔
وسعت بھائي! آپ نے کمال دانائی سے اندر کے حالات بلکہ، کچھا چٹہ کھول کر رکھ ديا ہے!!
پيوستہ رہ شجر سے اميد بہار رکھ!
جوہری اثاثے، لالٹينيں، ہاتھ سے چلنے والا پنکھا، امريکی خيمے، سستی روٹی، بچی کچھی انا يا خودی۔۔۔ وغيرہ،وغيرہ
بھارت میں تو ’گل ای مک گئی‘ لیکن پاکستان میں کیا کیجے کہ ایک خبر ختم نہیں ہوتی دوسری تیار ہوتی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے لیے سب سے منافع بخش ملک!!
شام تک کیا بیچیں!
محترم شايد اسی لئے حالات نہيں بدل رہے۔
واہ واہ، بہت خوب۔۔۔
وسعت اللہ خان صاحب، براہِ مہربانی اپنی اِس تحریر کو جہاں نماء، سیربین یا شب نامہ میں اپنی آواز میں ضرور سنائیں۔
شکریہ۔