| بلاگز | اگلا بلاگ >>

قاہرہ کا 'خطبہ'

اصناف: ,

وسعت اللہ خان | 2009-06-04 ،15:31

براک اوباما کے خطبہ قاہرہ پر بھانت بھانت کے تبصرے چھ آباد براعظموں میں اگلے سات دن تک جاری رہیں گے۔ نہ میں اس خطبے کے متن پر فی الحال کوئی تبصرہ کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی اس خطبے پر ہونے والے تبصروں پر کوئی تبصرہ کروں گا۔

بس ایک بات۔۔۔۔۔بش جونیئر کی ہکلاتی ، حمق زدہ ، طفلانہ معصومیت آمیز انگریزی ( کہ جسے بشریزی کہنا مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے) سن کر پنجابی کی وہ کہاوت اکثر یاد آتی تھی کہ 'منہ چنگا نہ ہووے پرگل تے چنگی کرو۔۔۔۔۔۔'

بشریزی کی آٹھ سالہ اذیت کے بعد اوباما کا فنِ تقریر لسانی بےراہروی کے چلچلاتے صحرا میں چشمہ آبِ شیریں کے مانند لگتا ہے۔

براک اوباما کے بقول ایک تقریر سے تو حالات و حقائق نہیں بدل سکتے لیکن بیس جنوری کی حلفِ وفاداری والی تقریر سے لے کر چار جون کےقاہرہ کے خطبے تک یہ بات تسلسل سے کہی جاسکتی ہے کہ ' گڑ نہ دے گڑ جیسی بات تو کر' کا محاورہ اوبامہ نے گھول کر پی رکھا ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 20:00 2009-06-04 ,اعجاز اعوان :

    خان صاحب اب کيا کہيں! آپ نے تو ايک محاورے ميں ہی اوباما ماموں کو نچوڑ کر رکھ ديا ہے۔

  • 2. 20:58 2009-06-04 ,Abid :

    بات گڑ کی طرح ميٹھی تو ہے ليکن بے اثر ہے۔ گڑ کے شربت کے بعد کام ہوتا نظر بھی آنا چاہيے۔

  • 3. 22:08 2009-06-04 ,نقوی :

    جہاں گڑ سے کام چلتا ہو وہاں زہر کیا دینا، کیا خیال ہے وسعت صاحب۔

  • 4. 22:19 2009-06-04 ,نعيم انجم :

    واہ کيا اچھے طريقے سے کوزہ ميں بند کی ہے بات آپ نے۔ مجھے پنجابی کا ايک اور محاورہ ياد آ رہا ہے۔ ’منہ چماں، ٹُک نا دواں، کھا بچا بتھيرياں‘۔ اس کا مطلب ہے کہ منہ چوموں مگر روٹی نہ دوں اور کہوں کہ بيٹا جتنی مرضی کھاؤ۔ بس کچھ ايسا ہی حساب ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔

  • 5. 0:32 2009-06-05 ,ملک غلام مرتضی اعوان :

    چلیں کسی امریکی صدر کو بات کرنے کا ڈھنگ تو آیا۔ ورنہ تو بش خاندان کی باتیں سن کر ہی جی خوش ہو جاتا تھا۔

  • 6. 5:40 2009-06-05 ,محبوب خان :

    چلو برف پگھلنے کا آغاز تو ہوگیا۔۔۔۔۔گو کہ ’گلاں نال نہیں رتبے ملدے‘ یعنی باتوں سے مرتبے نہیں ملتے۔۔۔۔۔لیکن جب امریکی صدر کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں تو وہ ایک طرح سے پالیسی بیان ہی ہوتا ہے۔ سو کچھ اور انتظار کہ دودھ کو دہی بننے کے لیے بھی آٹھ پہر درکار ہوتے ہیں۔

  • 7. 6:14 2009-06-05 ,چوہدری جمیل احمد خاں کمالیہ :

    وسعت اللہ خان صاحب میں تو کم از کم آپ کے محاورے (گڑ نہ دے گڑ جیسی بات تو کر) سے اتفاق نہیں کرتا کیوں کہ براک حسین اوباما ایک طلسمی شخصیت والا آدمی ہی نہیں بلکہ عملی کام کرنے والا اور کچھ کر دکھانے والی شخصیت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد فلسطین اور اسرائیل دو آزاد ریاستیں ہوں گی۔انشااللہ۔

  • 8. 6:51 2009-06-05 ,عمران ملک :

    تمہی کہو يہ انداز گفتگو کيا ہے۔

  • 9. 7:37 2009-06-05 ,Md. Aftab Alam :

    اوباما کی تقریر سے یہ بات عیاں ہے کہ چاہے جو بھی امریکہ کا صدر بنے مسلمانوں اور ان کے ممالک کے لیے حالات بدلنے والے نہیں ہیں۔

  • 10. 8:50 2009-06-05 ,ساحر خان :

    اوباما ايک تاريخ ساز شخصيت ہے۔ ان جيسا ذہين اور قابل شخص بہت کم ہی قوموں کو نصيب ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے اتفاق کريں گے مگر يہ حقيقت ہے کہ اوباما ايک لازوال اور مدلل بات کرنے والا انسان ہے۔ اس شخص ميں اميد اور بلا کا حوصلہ ہے۔

  • 11. 8:54 2009-06-05 ,سبوخ سید ،جیو نیوز :

    ہم نے سن رکھا تھا کہ یہ براک اوباما مسلمان تھا، شاید اسی وجہ سے ان کی خطابت میں مولویانہ رنگ کہیں کہیں نظر آتا ہے ۔۔۔۔

  • 12. 9:10 2009-06-05 ,سيد شارق :

    محترم ايسا لگتا ہے کہ آپ کو صرف طنز کا تير ہی چلانا آتا ہے۔ اس وقت امريکہ ميں بڑے بڑے ادارے ديواليہ ہو رہے ہيں۔ گاڑيوں کی دنيا پر حکمرانی کرنے والا جنرل موٹر بھی ديواليہ ہوگيا ہے ليکن يہ امريکہ ہی ہے جو سوات اور دوسرے علاقوں کے پناہ گزينوں کی دل کھول کر مدد کر رہا ہے۔ کيا اس وقت ان تيس لاکھ پناہ گزينوں کی کسی اسلامی ملک نے اتنی امداد کی ہے جتنی اوباما ايڈمنسٹريشن نے کی ہے۔

  • 13. 10:22 2009-06-05 ,Ghalib Ali :

    اگر واقعی ايسا ہے تو اوباما کے اگلی سيڑھی پر قدم کا انتظار کرتے ہيں کہ ونڈ کھا، کھنڈ کھا‘ ( بانٹ کے کھانا ايسے ہے جيسے چينی کھانا)

  • 14. 11:14 2009-06-05 ,ابوشامل :

    واقعی یہ بات تو ماننے کی ہے کہ بالآخر کہیں سے مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے تو ہمدردانہ الفاظ سامنے آئے۔ یہ بات الگ ہے کہ ابھی تک ان دعووں اور باتوں کو عملی جامہ پہنانا باقی ہے۔ ابھی اوباما نے بہت کام کرنا ہے خصوصاً امریکہ کے حوالے سے دنیا بھر میں پائی جانے والی نفرت کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اور حقیقی اقدامات اٹھانا۔ اس کے بعد ہی مستقبل کا مورخ انہیں ایک تاریخی شخصیت قرار دے گا۔ فی الحال ہے تو زبانی جمع خرچ ہی لیکن باد بہاری جیسا لگتا ہے :)

  • 15. 11:21 2009-06-05 ,محمد حسين :

    براک اوباما صرف مسلمانوں کو دلاسا دے رہا ہے۔ يہ کسی نہ کسی طريقے سے پاکستانی ايٹمی طاقت چھیننا چاہتے ہیں۔

  • 16. 11:24 2009-06-05 ,Muhammad Usman Khan :

    سوائے منافقت کے اس تقرير ميں اور کچھ نہ تھا، اللہ ہميں ان چالوں کو سمجھنے کی توفيق دے۔ قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہيں کہ ’جس نے ايک انسان کو قتل کيا اس نے ساری انسانيت کو قتل کيا‘، تو جن کو آپ نے افغانستان، عراق اور پاکستان ميں قتل کيا وہ تو شايد انسان ہی نہ تھے۔

  • 17. 11:44 2009-06-05 ,عمران ملک - ريڈيو ہم آواز :

    اوباما کے فن خطابت سے تو کوئی کلام نہيں مگر۔۔۔ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔

  • 18. 11:52 2009-06-05 ,ماريہ خان :

    ان کی تقرير محض لفظوں کی بہار تھی۔ انسانيت کا قتل کرنے والے ہميں قرآنی آيات کے ذريعے انسانيت کی عظمت کا درس ديتے رہے۔ جناب حقيقت يہ ہے کے امريکہ کو اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کا ادراک ہو چکا ہے۔

  • 19. 13:18 2009-06-05 ,سجادالحسنين حيدرآباد دکن :

    بجا فرمايا آپ نے وسعت صاحب لوگ کہتے ہيں کہ کئی برسوں کے بعد پہلی بار ايسا ہوا ہے کہ کسی صدر نے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال نہيں کيا اور نہ ہی ’ٹيررازم‘ کی رٹ لگائی بلکہ اس کے لیے ’اکسٹريم وائيلنس‘ کا متبادل لفظ استعمال کيا گيا۔ الفاظ کا بے دريغ نہيں بلکہ محتاط استعمال قابل ستائيش ہے ليکن تشنگی اس وقت تک رہے گی جب تک يہ باتيں عملی شکل نہيں اختيار کرليتيں۔

  • 20. 13:29 2009-06-05 ,شاہدہ اکرم :

    چليں وسعت بھائی آپ گڑ جيسی بات کا مزہ ليں ہم ديکھتے ہيں کہ يہ صاحب بہادر کرتے کيا ہيں يعنی ’تيل ديکھو، تيل کی دھار ديکھو‘ اور ’يہ اُونٹ کِس کروٹ بيٹھتا ہے‘ وغيرہ وغيرہ۔ اور بھی بہت سے محاورے ہيں جو کہيں تو پيش کروں۔ ايسی صورتِحال کے عين مطابق ہيں اور بر محل بھی۔

  • 21. 14:03 2009-06-05 ,راسخ كشميری :

    براک اوباما کی باتوں پر جو یقین کرے گا وہ اس دور کا احمق ترین شخص ہوگا۔ ان میٹھی میٹھی باتوں سے مسلمانوں کو گرویدہ بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر امریکہ اپنی مسلم دوستی میں سچا ہے تو مسلمانوں کی سرزمین سے فوراً اپنے گھر چلا جائے۔ اور یار دوستوں کو اب سمجھ لینا چاہیے اور ان کے ساتھ اتنا ہی تعاون کرنا چاہیے کہ قومی مفادات پر ضرب نہ آئے، نیز عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو۔

  • 22. 14:47 2009-06-05 ,شعيب انعام لندن :

    کہيں اوباما نے يہ محاورہ تو نہیں سن رکھا کہ ’جو گُڑ سے مر جائے اسے زہر کيوں ديا جائے‘۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔