'بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں'
پاکستان کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے ایک ہی انٹرویو میں اتنی ساری باتیں کہہ ڈالی ہیں۔
فضل اللہ شدید زخمی ہیں، طالبان، نہیں بقول ان کے، ظالمان کے پاس پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، یہ ظالمان ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں، انہوں نے لشکرِ جھنگوی اور جیشِ محمد کو اپنے ساتھ ملا لیا، سوات امن معاہدہ معتدل افراد سے کیا تھا اور امریکہ 'معاہدے' کے بعد ہمیں ڈرون مل جائیں گے جنہیں ہم خود استعمال کریں گے۔
اگر رحمان ملک ان سب کی سی سی ٹی وی فٹیج بھی ساتھ دکھا دیتے تو مجھے کوئی توجب نہ ہوتا۔ ان جیسے حساس اور چاک و چوبند وزیرِ داخلہ سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
ابھی تک کون سا ایسا سانحہ نہیں ہوا جس کے فوراً بعد انہوں نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے پیچھے چھپے چہروں کو آدھا بے نقاب نہ کیا ہو۔ آدھا اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اس میں وزیر داخلہ کی جو اس سے قبل مشیرِ داخلہ تھے، یقیناً کوئی مصلحت ہو گی اور وہ ڈری ہوئی عوام کو اور ڈرانا نہیں چاہتے ہوں گے۔
'بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں/ لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے'۔
وزیرِ داخلہ نے یہ بھی کہا کہ سوات معاہدہ معتدل افراد سے کیا تھا۔ کیا ان معتدل افراد کا تعلق اسی شخص سے نہیں تھا جس کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع وزیرِ داخلہ ہمیں دے رہے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
معذرت کے ساتھ کيا وزيرِ داخلہ کو ايک انٹرويو ميں ايک سے زيادہ باتيں نہيں کرنی چاہئيں؟ ويسے پاکستان جس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں جتنی بڑی قربانياں دے رہا ہے تو يہ بھی ضروری ہے کہ دنيا کو بتاياجائے کہ کس قيامت کا ہميں سامنا ہے اوربحثيت قوم ہم کس عزاب سے دوچار ہيں، جو دو سابق ڈکٹيٹرز اپنے اقتدار کيلیئے قوم کے گلے ميں ڈال گئے ہيں۔
جيسا ديس ويسا بھيـس ۔۔۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے، ليکن سچ بہرحال سچ ہے جو قوم اپنی خود نہيں بدلنا چاہتی اُن کو حکمران بھی ايسے ہی مليں گے جن کا آپ نے اپنے بلاگ ميں ذکر کيا ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ ہماری آرمی نے سوات کا چپّہ چپّہ چھان مارا لیکن طالبان یا ظالمان کے ان بڑے لیڈران کا کوئی پتہ ابھی تک نہیں چل سکا ہے۔ کیا ہماری اِٹیلیجینس اتنی ہی کمزور ہے کہ ہم ان جاہل لوگوں کا تعقب بھی نہیں کر سکتے؟
ايک جنگل ميں جانور بادشاہ کے ظلم سے بہت تنگ تھے۔ انہوں نے فيصلہ کيا کہ اگلے اليکشن ميں بندر کو بادشاہ منتخب کريں گے اور ايسا ہی ہوا کہ بندر بادشاہ بن گيا۔ چند دن بعد سب جانور بادشاہ کے پاس شير کی شکايت لے کر آۓ۔ بندر بادشاہ شکايت سن کر آگ بگولا ہوا اور تيزی سے مختلف درختوں پر چھلانگيں لگاتا ہوا بولا ’زندہ نہيں چھوڑوں گا‘۔ اسی طرح جانور شکايات لے کر آتے اور بندر ادھر ادھر چھلانگيں لگاتا۔ ايک دن سب نے پوچھا کہ ان شکايات کا کچھ ہوگا بھی؟ بندر کہنے لگا شير کو چھوڑو يہ بتاؤ ميری پھرتی يا تيزی ميں کمی تو نہيں آئی؟ يہی حال ہماری نان پروفيشنل حکومت کا ہے۔
بات تو کرنی ہے کیا ہم بے گناہ لوگوں کو ان بے غیرت اور بے رحم لوگوں سے تو بچانا ہے
اگر بھارت سے بات ہو سکتی ہے تو طالبان سے کیوں نہیںآ اگر بات نہیں کرنی تو پھر کیا کرنا ہے
اس سے بڑا ظلم کيا ہوگا ايک علاقہ نہيں بلکہ پورے ايک خطے کے لوگ حکومت اور معتدل افراد کے ہاتھوں الميہ بن چکے ہيں۔ان کا ماضی معتدل افراد کے ہاتھوں برباد ہوا تو آج وہ حکومت کے ہاتھوں تہی داماں نظر آتے ہيں۔ وزیرِ داخلہ صاحب سے گزارش ہے کہ کہانياں سنانے کے بـجائے ان متاثرين کے لیے ان کےگھروں ( اگر سلامت ہوئے) تک کی رسائی کو يقينی بنائیں۔
‘لائے ہیں نقطہ دان
یہ کوڑی بڑی دور سے‘
جس يقين سے منسٹر صاحب رپورٹ ديتے ہيں شک گزرتا ہے کہ بقول ان کے ظالمان سے کافی قريبی تعلقات رکھتے ہيں۔ امريکہ جن کے تمام ايجنسياں ہر قسم کی جديد ترين اور ضرورت زيادہ آلات لے کر طالبان کی نگرانی کر رہی ہيں مگر ان کی رپورٹ اتنی پر يقين نہيں ہوتی۔
آپ بھی نا عارف صاحب خواہ مخواہ دل پہ لينے لگے اب يہ سياستدان کب کيا کہہ جائيں اس بات کا کوئی بھروسہ ہے کيا۔ ويسے بھی ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ جو دھڑلے سے جھوٹ نہيں بول سکتا وہ اچھا ليڈر يا پھر کامياب ليڈر ہو ہی نہيں سکتا۔ ايک عرسہ کے بعد آپ کی اس بزم ميں تواتر کے ساتھ واپسی اچھی لگی خدا کرے زور قلم اور زيادہ۔
خيرانديش سجادالحسنين
ديکھا جو تير کھا کے کمين گاہ کی طرف
اپنے ھي دوستوں سے ملاقات ہو گيء
خدايا يہ تيرے سادہ جگر بندے کدھر جائيں
درويشی بھی عياری ہے سلطانی بھی عياري
ارے بھائی آپ کاہے کو اتنا پريسان ہو رہے ہو۔۔۔ انہوں نے تو وہی کہنا ہوتا ہے جسکی ان کو اجازت ملتی ہے۔ اب وہ آدھا سچ ہو يا پورا جھوٹ، ليکن ٹينشن لينے کا نہيں کيوں کہ ہم سب کو يہ تو سننا ہی پڑے گا اس ليے کيوں کہ وہ وزيرداخلہ ہيں۔۔۔