| بلاگز | اگلا بلاگ >>

سکول کھلنے کی خوشی

اسد علی | 2009-07-25 ،13:02

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ صوبہ سرحد کے لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں یکم اگست سے سکول دوبارہ کام شروع کر دیں گے۔ اس سے اچھی کیا بات ہو سکتی ہے، لیکن ایسا صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کوتعلیم کے پھیلاؤ سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔school_girl158.jpg

اچھی تعلیم نئے سوالات پوچھنے کا حوصلہ دیتی اور خواب دکھاتی ہے اور پھر خواب دیکھنے والا ان کی تکمیل چاہتا ہے۔ ان خوابوں کی تکمیل کے لیے ایسا نظام چاہیے جس میں مقام قابلیت کی بنیاد پر ملتا ہو۔ ذات، پات، ولدیت اور تعلقات کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں طاقت مخصوص طبقے تک محدود ہو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وہاں یہ حق جدو جہد سے ہی ملے گا۔

کافی سال پہلے شمالی علاقوں کی طرف جاتے ہوئے صبح صبح ایبٹ آباد سے نکلے تو پہاڑوں پر قطار در قطار نیلی قمیضوں، سفید شلواروں میں ملبوس سکارف یا چادریں لیے ہوئے سینکڑوں لڑکیاں کتابیں، بستے اٹھائے خوش گپیاں کرتی سکولوں کی طرف جاتی ہوئی نظر آئیں تو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ ہم جوں جوں آگے بڑتے گئے ہر دوسرے پہاڑ پر یہی منظر تھا۔

اس وقت کسی کے ذہن میں نہیں تھا کے آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان بھی تصادم کا باعث بن جائے گا۔ لڑائی نے لڑکوں کی تعلیم کو بھی بڑا متاثر کیا اور لاکھوں نوجوانوں کا قیمتی وقت ضائع کیا۔

تعلیم اور آگہی اتنی طاقتور چیز ہے کہ اس کو جتنا بھی چھپائیں دیر یا بدیر اس کے اثرات پھیلنا ناگزیر تھےاور یقیناً یہی ہوا ہوگا۔ پڑھی لکھی نسل ان سے مختلف تھی جن کو حصول تعلیم کا موقع نہیں مل سکا۔ انہوں نے ایسے سوالات اٹھائے ہوں گے اور خواب دیکھے ہوں گے جس کا مردوں کی بالا دستی اور عدم مساوات پر قائم معاشرہ ان سے توقع نہیں کرتا اور معاملہ تصادم کی طرف چلا گیا۔

صوبہ سرحد میں جب بھی سکول کی تباہی کی خبر آئی ایسا لگا کہ یہ سکول کچھ تو ایسا کر رہا تھا کہ ایک طبقے کو اس سے خطرہ محسوس ہوا اور اس کو تباہ کرنا پڑا وگرنہ کوئی کیوں کسی بے ضرر عمارت کے پیچھے جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے گا اور جنت کا حصول اس سے مشروط کرے گا۔

سکول کی تباہی کی ہر خبر کے ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوا کہ بہت سی جگہوں پر شاید سکول صرف اس لیے برداشت کیے جا رہے ہیں کہ وہاں وہ اپنا مقصد صحیح طور پر پورا نہیں کر رہے۔

میرے ذاتی علم میں ایسا سکول ہیں جہاں زمیندار گھر کا لڑکا کرسی پر بیٹھتا رہا اور باقی بچے زمین پر۔ اب تو خیر پاکستان میں نجی سکولوں کے جال کے بعد عموماً بڑے چھوٹے ایک سکول میں جاتے ہی نہیں۔ مذکورہ سکول حملے سے صرف اس وقت تک بچا ہوا ہے جب تک وہ بڑے چھوٹے کی تفریق پر نظام کو نہیں چھیڑتا۔

سرحد میں بند سکول کھلنے سے معاملہ حل نہیں ہو گا بلکہ سفر کا دوبارہ آغاز ہوگا۔ تعلیم دوبارہ اپنا رنگ دکھائے گی اور اس موجودہ نظام کو جوں کا توں رکھنے کے حامی اس کی مخالفت میں روڑے اٹکائیں گے اور کسی حد تک بھی جائیں گے کیونکہ یہ ان کی بقا کا مسئلہ ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:40 2009-07-25 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    محترم اسد علی چوہدری صاحب، آداب! رسمی اور غیر رسمی تعلیم دراصل موجودہ استحصالی، ظالمانہ نظام اور سرمایہ دارانہ سسٹم کو بحال رکھنے کے لیئے محض تعصبات ذہن نشین کرنے کا ذریعہ ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام، سیاسی نظام اور میڈیا پر ایک مخصوص ٹولہ براجمان ہے جسکا پاک وطن کی دھرتی سے کوئی خاطر خواہ زمینی و معاشرتی و ثقافتی و لسانی و مادری رشتہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ زیادہ تر ‘یوپیائی‘ طرز بود و باش کا مالک ہے اور اسی کی ثقافت و بودوباش کو یہاں پروان چڑھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اپنی حکومت (اسٹیبلیشمنٹ) کی برقراری و نشوونما و پائیداری و ترقی کے لیے نونہالوں کے اذہان میں دانستاً تخلیقی صلاحیتیں بیدار نہیں ہونے دیتا۔ جب تک اس ٹولہ سے نجات حاصل نہیں کی جائے گی، جب تک اسکی سازش کو سمجھا نہیں جائے گا، تب تک پاکستان، پاکستانیوں کو واپس نہیں مل سکتا۔

  • 2. 14:57 2009-07-25 ,Muhammad Azhar :

    جناب اسد صاحب آپ نے بہت اچھا لکھا ليکن اصل خوشی تو جب ہے نہ کہ يکساں نظام تعليم سب کو ملےاور دوسری بات تعليم آگہی ہے اپنے آپ سے-قدرت سے-اس جہاں سے-خدا سے-اپنے نفس کی حقيقت سےاسد صاحب کيا ہمارے يہاں تعليم کا مصرف وہ ہے جو کہ اس کا اصل مفہوم ہے- چار کتابيں پڑھنے کہ بعد ہم اپنا آپ بھول جاتے ہيں-مذہب ہم کو گلے کا طوق لگتا ہے-عورت کو ڈوپٹہ پھندا محسوس ہوتا ہے -ہماری عورت وہ آزادی مانگتی ہے جس کی نہ تو مزہب اجازت ريتا ہے اور نہ دنيا کی کسی کتاب ميں اس کا درس ريا جاتا ہے-اور رہی بات سکول جلانے کي-تو ايسے بہت سے ادارے ہيں جہاں ثقافت اور تہذيب کے نام پر وہ کچھ ہوتا ہے جس کا انسانی ارتقاء سے انسانيت کی معراج تک دور دور تک کوئی واسطہ نہيں- پہلے تعليم کو محلوں سے لےکر غريب کی کھولی تک يکساں طور پر پھيلانا ہو گا- تعليم کا وہ مفہوم بتانا ہو گا جس کی بنياد ہمارے مذہب تاريخ ثقافت اور ہماری اقدار کے مطابق ہو-اور ہميں ايسی خوشی کا انتظار رہے گا

  • 3. 15:52 2009-07-25 ,فدافدا :

    يہ کيا بلاگ لکھا ہے يہ تو مڈل امتحان کے اردو پرچے کا جواب مضمون لگتا ہے؟

  • 4. 15:57 2009-07-25 ,سجاد الحسنين حيدرآباد انڈيا :

    اسد صاحب سلام مسنون
    اہم ترين موضوع کو زير بحث لايا ہے آپ نے يہ مسائيل تو ہمارے ہاں صديوں سے چلے آرہے ہيں ہم نے بھی بچپن سے يہی پڑھا اور سنا ہے کہ کمزور طبقات اور پچھڑی جاتوں کے بچوں کو اسکول ميں پڑھنے کی اجازت نہيں تھی۔ بابا صاحب امبيڈکر کا نام تو سنا ہی ہوگا آپ نے انہوں نے ہندوستان کی جمہوريت کو ايک نيا رخ ديا ہے دستور ساز کميٹی کے وہ صدر رہ چکے ہيں دنيا جانتی ہے کہ انہيں اسکول ميں محض اس لءے پڑھنے کی اجازت نہيں دی جاتی تھی کہ يہ دلت کا بچہ تھا يعنی ان ٹچيبل ليکن اس ضدی بچےنے سکول ميں کلاس روم کی چوکھٹ پر پڑے چپلوں کے پاس بيٹھ کر اپنی پڑھائی کی تکميل کی اور ايک دلت کی تعليم نے پوری قوم کا بھلا کرديا۔ بے شک تعليم ميں بڑی طاقت ہے ويسے آپ نے تو آج کے ہندوستان کو بڑے قريب سے ديکھا ہے ايسے ميں آپ کو کيا لگتا ہے
    جب يہاں روائتيں ٹوٹ سکتی ہيں تو وہاں کيوں نہيں ؟؟؟؟
    خيرانديش سجادآلحسنين

  • 5. 15:59 2009-07-25 ,sana khan :

    تعليم سے وہ طبقہ خائف ہے جسے معلوم ہے کہ پڑھ لکھ کر دو نمبر جہاد کون کريگا کہاں سے آئيں گے بچے، پڑھی لکھی ماں تو نہيں بيچے گی اپنے بچے ليکن تعليم ايسا ہتھيار ہے جس سے طالبان کو ڈر لگتا ہے

  • 6. 17:23 2009-07-25 ,Parvez Taj :

    میں پاکستان کے تعلیمی نظام کو نظام نہیں سمجھتا اس لیے اس برائے نام تعلیمی نظام پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا

    I

  • 7. 18:05 2009-07-25 ,اے رضا :

    چودھری صاحب ، بيٹياں تو ہوتي ہي بہت بھلي مانس ہيں ليکن سچ بتايۓ اختتام تعطيلات پر کيا آپ خوش ہو کر اسکول لوٹا کرتے تھے ؟ ہمارا تو يہ حال تھا کہ ايک بچہ احتجاج بلند کر رہے ايک بکرے کو گھسيٹ لۓ جاتےقصاب سے بولا ، ” يہ بکرا اتنا شورکيوں مچا رہا ہے ؟ ”
    ” بيٹا ، يہ جانتا ہے کہ ذبح ہو جائے گا ” ، قصاب نے جواب ديا -
    ” اوہ ، ميں سمجھا آپ اسکول لے جا رہے ہيں ” ، بچہ پريشان ہو کر بولا -

  • 8. 18:33 2009-07-25 ,راشد احمد :

    نجی اور حکومتی سکولوں کے متبادل تعليمی اداروں کا ہونا کوئی بری بات نہيں ہے ـ انکے آنے سے پاکستان کے تعليمی معيار پر اچھا اثر پڑا ہے اور يہ بہت سارے پڑے لکھے نوجانوں کےليے روزگار کا ذريعہ ہے ـ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کی نئی نسل کو سوچ و فکر کی آذادی دی جائے اور شعور بيدار کيا جائے تاکہ وہ نام نہاد دانشورں کی طرح ايک ہی ڈھول کو پيٹتے رہنے والی سطحی سوچ کو سمجھ سکيں اور اس سے محفوظ ہوں اور ايک معياری ، خود آگاہ ، توانا اور حقيقی رہنما نوجوان طبقہ وجود ميں آئے ـ

  • 9. 4:57 2009-07-26 ,شاہدہ اکرم :

    اسد بھائی حالات جو بھی رہے ہوں اور ہيں تعليمی نِظام ميں خواہ زمين آسمان کا فرق ہے ليکِن اِس وقت ميں صِرف اِس بات کے لِۓ دُعاگو ہُوں سب باتوں کو پسِ پُشت ڈالتے ہُوئے کہ اللہ کرے اب يہ سکُول قائِم رہيں کوئی اور منفی سوچ رکھنے والے کے ہاتھوں پِھر تباہ نہ ہوں سکُول کُھلے ہيں تو کُھلے ہی رہيں تعليم کا جو سِلسِلہ پِھر سے شُرُوع ہونے کو ہے اب اِس ميں کوئی رکاوٹ نہ آئے ،بچوں اور بچيوں کے ذِہنوں کو جِلا بخشنے کا دور اب پِھر سے ٹُوٹنے نہ پائے ،آمين

  • 10. 10:07 2009-07-26 ,sabeen :

    اللہ ہمارے جنت نذیر علاقے میں دوبارہ امن قائم کرے اور سب کو خوش رہیں، آمین

  • 11. 10:48 2009-07-26 ,faizan siddiqui :

    جناب محترم تعليم وہ چيز ہے کہ جو انسان کو عقل و شعور ديتی ہے-شروع دن سے ہم پر حکمرانی کرنے والے جاگيردار اور وڈيرے يہ کبھی نہيں چاہينگے کہ عوام ميں عقل وشعور پيدا ہو -نہايت افسوس کی بات ہے کہ آپ کو اور باقی ميڈيا کو وہ اسکول تو نظر آتے ہيں جو دھماکے سے اڑ گۓ ليکن وہ نظر نہيں آتے جنيں اسمبلی ممبروں نے اوطاق بنارکھا ہے يا گدھوں گھوڑوں کا اسطبل، وہ بچياں تو نظر آتی ہيں جنيں جنونيوں نے اسکول جانے سے روک ديا مگر وہ معصوم بچياں نظر نہيں آتيں کہ جن کو ان کے ماں باپ محض اسلۓ اسکول کی صورت نہيں دکھاتے کہ وڈيرے اٹھا لينگے -جناب اعلی کرنٹ ايشو پر لکھنا کوئ کارنامہ نہيں مجھے يقين ہے کہ اللہ نہ کرے کہ سوات جيسی صورت حال سندھ يا بلوچستان ميں پيدا ہو تو آپ کا قلم سوات کو بھول جاۓ گا خليل جبران نے ايسے وقت کيلۓ ہی کہا ہے کہ”ترس کھا ایسی ملت ہر جس کا مدبر لومڑ اور فلسفی مداری ہو اور ہنر ان کا صرف لیپا پوتی اور نقالی ہو!”
    جس ملک ميں دہرا نظام تعليم ہو،ريٹائرڈ فوجی تعليم کے کرتا دھرتا ہوں يا خواتين کو ذاتی عدالتوں ميں سزائيں دينے والے وزيرتعليم ہوں اس ملک تعليمی نظام ميں بہتری کی اميد رکھنا بے وقوفی ہوگي-

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔