| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ایک کتاب اپنائیں

اسد علی | 2009-08-03 ، 2:24

british_library226.jpgلندن کی مشہور برٹش لائبریری کے استقبالیہ کے سامنے لگے ایک بورڈ پر لکھا ہے 'ایک کتاب اپنائیں'۔ بورڈ کے سامنے کرسی پر بیٹھے ایک بزرگ دلچسپی ظاہر کرنے والے افراد کو سکیم کے بارے میں بتاتے ہیں اور کتاب اپنانے میں مدد کرتے ہیں۔ لائبریری آپ سے اسی طرح کتاب اپنانے کے لیے کہہ رہی ہے جیسے کسی لاوارث بچے کوگود لینے کے لیے کہا جاتا ہے۔

برٹش لائبریری میں پندرہ کروڑ کتابیں اور مسودات ہیں جن میں سے لائبریری کے مطابق تقریباً بیس لاکھ کو فوری طور پر بچانے کی ضرورت ہے۔ لائبریری کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایک جگہ پر شاید کتابیں محفوظ کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد کے باوجود انہیں تمام کتابوں کو محفوظ کرنے میں ایک سو سال لگ جائیں گے۔

لائبریری علم کے قدر دانوں کو اکساتی ہے کہ وہ صرف پچیس پاؤنڈ کے عوض اپنے کسی عزیز کے نام پر ایک کتاب اپنا سکتے ہیں جس کے بدلے انہیں ایک سند ملے گی اور وہ اس جگہ پر بھی جا سکیں گے جہاں کتابوں کو محفوظ کرنے کام کام کیا جاتا ہے اور یہی نہیں بلکہ وہاں پر وہ 'اپنی کتاب سے مِل بھی سکیں گے'۔

کتاب کسی مرنے والے کی یاد میں ان کے نام پر بھی اپنائی جا سکتی۔ بلکہ کہا گیا ہے کہ آپ کسی کے جنازے کے لیے پھول خریدنے کی بجائے وہ پیسے ان کی یاد میں ایک کتاب کو محفوظ کرنے پر بھی خرچ کر سکتے ہیں۔

لائبریری کہتی ہے کہ آپ کا دیا ہوا عطیہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے علم کے خزانے کو محفوظ کرنے میں مدد دے parvez_shaheen226.jpgگا۔ اسی بات کو اگر مذہب کا تڑکا لگا دیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جب بھی کوئی اس کتاب کو پڑھے گا تو اس کتاب کو محفوظ رکھنے کے لیے عطیہ دینے والے کو بھی اس کا ثواب پہنچے گا۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی ثواب پہنچایا جا سکتا ہے جو اس دنیا میں نہیں رہے۔

یہ سطریں لکھتے ہوئے دھیان سوات اور مینگورہ کے ان علاقوں کی طرف جاتا ہے جہاں سکول تباہ کر دیے گئے۔ وہاں لائبریری تو دور کی بات بنیادی تعلیم کا شروع ہونا ہی غنیمت ہے۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایس جگہ ہو جہاں مسجد کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ ہوتی ہو۔ وہاں کمی ہے تو سکولوں اور کتب خانوں کی۔ پچاس ساٹھ سال خدا کے گھر کے لیے چندہ جمع کرنے کے بعد اب اگلا کام خدا کے بندوں کی علم کی پیاس بھجانے کا ہے، لوگوں کے لیے حصول علم کے فریضے کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا ہے۔ بہت سے لوگ اس سلسلے میں کام کر بھی رہے ہیں۔

سوات میں لڑائی کی خبریں گرم تھیں، ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور ہر کوئی جان بچانے کے لیے علاقے سے دوڑ رہا تھا۔ سکول بند ہو رہے تھے یا ان پر بم گر رہے تھے۔ تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم، متنازعہ ہو چکی تھی
اسی دوران ہمارے ساتھی عبدالحئی کاکڑ نے سوات کے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جسے صرف اپنی کتابوں کی فکر لاحق تھی۔ پشتو زبان کے اس مصنف پرویز شاہین کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کی لائبریری میں طب، سیاست، گندھارا تہذیب، ادب سمیت مختلف موضوعات پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ شاہین نے جان بچانے کی بجائے علم کے ذخیرے کا تحفظ اہم جانا اور گھر چھوڑ کر نہیں گئے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 7:44 2009-08-03 ,مسعودالحسن لاٹکی :

    اس بزرگ نے کتابوں کی حفاظت کرکے اپنی آخرت تو سنوار لی
    ليکن ہميں اس بات کا ثبوت مل گيا کہ پاکستان کے کسی کونے ميں درد دل رکھنے والے اور کتابوں سے محبت کرنے والے اب بھی موجود ہيں

  • 2. 8:18 2009-08-03 ,Husnain Hayder :

    بلاشبہ پاکستان کو آج تعلیم کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ آپ نے شاہین نامی جن مصنف کا ذکر کیا ہے ایسے لوگ بلا لحاظ رنگ و نسل اور قومیت کے ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں اور انہیں اپنی کاوشوں کو جاری رکھنا چاہیئے

  • 3. 8:30 2009-08-03 ,Sabeen :

    علم دوست انسان کی عظمت کو سلام جنہوں نے اپنی جان سے زیادہ کتابوں کا خیال رکھا۔۔

  • 4. 8:34 2009-08-03 ,Sarfraz Ahmed :

    اس کالم پر کیا تبصرہ ہو سکتا ہے۔سواے اس کے کہ دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو کتاب کی عزت کرنا جانتی ہیں۔

  • 5. 10:15 2009-08-03 ,راشد احمد :

    پاکستان ميں عدليہ کی آذادی کے بعد سوچ وفکر کی آذادي کےليے بھی ايک بھرپور تحريک چلنی چاہيے ـ جس ميں اساتذہ اور ميڈيا ہراول دستے کا کردار ادا کرے اور کتاب بينی اور کتاب کے تقدس کو اجاگر کيا جائے ـ اس ميں کتاب کی قيمتوں پر بھی بات ہو اور معيار پر بھی ـ ـ ہمارے رويوں کی جانچ ہو ۔ ـ

  • 6. 10:40 2009-08-03 ,Kashif - Cordoba, Spain :

    دلچسپ بلاگ ہے۔ پاکستان میں جہاں انسانی جان کی قیمت نہیں کتابیں علم کے خزانے کو کون پوچھتا ہے۔محترم پرویز شاہین نے زبردست کام کیا ہےمیں ان کے کام کی قدر کرتا ہوں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ قوم ان کی کاوش کو سمجھ سکے گی۔

  • 7. 11:18 2009-08-03 ,اے رضا :

    کس پاکستان کی بات کرتے ہيں چودھری صاحب - آپ نے ديکھا گوجرہ ميں کيا ہوا - کيا يہ علم دوست نظر آتے ہيں - بالخصوص پاکستاني ميڈيا اقليتوں کي شامت پرخاموش معاشرے کا ہر طبقہ شامل گناہ ہے - پھر پوچھتے ہيں ان کے حالات کيوں نہيں سدھرتے - جينا دوبھر کيوں ہو چلا ہے - خدا ہدايت دے - ، بے ضمير ، ننگ دين اور ننگ ايمان اس قوم کا کيا ہو گا -

  • 8. 15:44 2009-08-03 ,انوراحمد :

    علم کی پیاس یہاں کس کو ہے؟ ظالموں نے طالبعلموں کے ہاتھوں سے کتاب چھین کر پہلے تو بندوق تھمائی، پھر بھی پیاس کو ختم نہ کر سکے تو وی سی آر کا ریموٹ انڈین فلموں کی رنگینی میں ڈبو دیا۔ اسکے بعد کیبل ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون کے پرکشش فری ایس ایم ایس پیکیجز نے لٹیا ہی ڈبو دی۔ اب ہر نوجوان ہاتھ میں کتاب کے بجائے سیل فون تھامے ہمہ وقت چیٹ میں مصروف نظر آتا ہے۔ اکثر تو اتنے دھتی ہو چکے ہیں کہ سوتے میں بھی انگلیاں چلاتے نظر آتے ہیں۔ اب تو اگلے سو سال تک کی جنریشن کے سنبھلنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ خدا میرے ملک پر اور ان نوجوانوں پر رحم کرے۔ آمین۔

  • 9. 15:53 2009-08-03 ,sana khan :

    اسد بڑے کتاب دوست بنتے ہونا چلو ميرے نام پر کوئی چالزڈکن کی کتاب پکڑلو

  • 10. 17:22 2009-08-03 ,Dr Alfred Charles :

    اسد صاحب!زمانے کی بدلتی رت نے لوگوں کی ترجيحات بدل دی ہيں جس ميں کتاب کا نمبر دور دور نظر آتا ہے۔ کتب بينی خال خال رہ گئی ہے۔ کتاب دوستی ماضی کی خام خيالی رھ گئی ہے۔يہ کتاب سے دوری ہی ہے کہ آج ہميں ان سنگين حالات کا سامنا ہے

  • 11. 18:36 2009-08-03 ,naseem :

    پرویز شاہین صاحب کی لائبريری ايسے ہی ہے جيسے کسی اتھاہ سمندر ميں چھوٹا سا جزيرہ جو وہاں کےکسی رہگزر کی منزل ہی نہيں-

  • 12. 19:58 2009-08-03 ,انور حسين :

    جب انسان اپنی عقل اور بساط کو قدرت سے افضل اور برتر مان کر اپنے وضع کردہ اصول اور قواعد دنيا ميں رائج کرنے کی کوشش ميں لگ جائے تو دنيا ايک جہنم کا نمونہ پيش کرنے لگتی ہے- اس کوشش کو انسان چاہے مذہب کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرے يا مذہب سے بيزاری کا نام دے-

  • 13. 22:56 2009-08-03 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    ياد رکھيۓ ۔۔۔۔
    جب خدا کسی کو ذليل کرتا ہے تو علم اس پر حرام ہو جاتا ہے ۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔