'جمہوریت پر حملے'
فوج نے ایک منتخب عوامی حکومت کا تختہ ایسے الٹا کہ تینوں افواج نے اپنے ہی ملک پر پیش قدمی کی۔ جنگی طیاروں نے ایوان صدر پر بمباری کی۔ دارالحکومت میں ٹینک چلائے اور ملک کی اہم بندر گاہ پر قبضہ کر لیا۔
صدر نے فوجی طیارے کے ذریعے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ کچھ گھنٹوں بعد اس ہی صدر کی لاش ایوان صدر سے نکالی گئی اور پھر یہ لاش ایک بے نام قبر میں دفنائی گئی۔
پھر سترہ سال تک فوج نے ملک پر حکمرانی کی اور اپنے 'دشمنوں' کے خلاف ایسی کارروائی کی کہ ہزاروں افراد لاپتہ ہوئے، تشدد کا نشانہ بنے اور ہلاک کیے گئے۔
گیارہ ستمبر انیس سو تہتر کو چِلی میں صدر سالوادور ائیندے کی جمہوری حکومت کی اس لیے چھٹی کر دی گئی کہ وہ ایک 'مارکسِسٹ' حکومت تھی جسے 'آزاد ممالک' سرد جنگ کے زمانے میں ایک خطرہ تصور کرتے تھے۔ فوج کی اس کارروائی کو امریکہ اور برطانیہ کی پوری حمایت حاصل تھی۔
'جمہوری' اور 'آزادی پسند' ملکوں نے چِلی اور اس کے پڑوسی ملک آرجنٹینا میں اپنی خونی سیاست کھیل کر ان کو ایک صدی پیچھے دھکیل دیا۔ وہ اب بڑی مشکل سے اپنے جمہوری اور عدالتی نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہاں بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جو جنرل ضیا کے گیارہ سالہ دور کے بعد پاکستان میں ہیں۔
ظاہر ہے کہ اقتدار میں اتنے دن رہ کر آپ اپنے حامیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، ان کے مفادات کو اپنے سیاسی مفادات سے ملاتے ہیں۔ پھر فوجی ڈکٹیٹرشپ کے بعد ملک میں 'رائٹ وِنگ' طاقت بڑھتی ہے۔
اب پاکستان میں حالات کو دیکھ کر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کی جنگ میں ڈکٹیٹرز کا پلڑا بھاری ہے۔ جنرل ضیا نے وراثت میں ہمیں جہادی اسلام، نفرتیں، امتیازی قوانین اور بہت سارے دولت مند فوجی دیے۔ اپنی اولاد کو بھی (اپنے ساتھیوں کی سرپرستی میں) وہ سیاسی میدان میں چھوڑ گئے۔
پاکستان بھی اس جدوجہد میں مصروف ہے جس میں چِلی مصروف ہے۔ جمہوری نظام اور سوچ کو مستحکم کرنا اور عدلیہ اور پولیس کو مضبوط بنانا۔ لیکن صورتحال کو اتنا خراب کرنے کے (بڑی حد تک) ذمہ دار مغرب کے 'جمہوری' ملک اس کوشش میں کتنا ساتھ دیں گے وہ تو دیکھا جائے گا۔
غنیمت تو یہ ہے کہ اب گیارہ ستمبر کی دونوں وارداتوں، یعنی امریکہ پر سنہ دو ہزار ایک کے حملے اور چلی میں سنہ تہتر کی فوجی بغاوت کو کئی لوگ ایک ساتھ 'جمہوریت پر حملے' قرار دیتے ہیں۔ لیکن ستم ضریفی یہ ہے کہ ایک حملہ امریکہ نے کروایا تھا اور ایک میں امریکہ نشانہ بنا۔
تبصرےتبصرہ کریں
آداب! عین ممکن ہے کہ ’سوشلٹ‘ چلی پر جس نے حملہ کروایا تھا اس نے خود ہی اپنے ملک پر حملہ کروایا ہو تاکہ کسی کو اس پر ’انگلی‘ اٹھانے کی اخلاقی جرات ہی نہ ہوسکے۔’ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے‘
عنبر خيری صاحبہ ، پاکستان ميں امريکی سفارتخانوں کا عملہ دوگنا کرنے پر ياد آيا کہ شاہ کے دور ميں تہران ميں امريکی سفارتخانہ امريکہ سے باہر سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز نکلا۔ لگتا ہے يہ اعزاز اب پاکستان کو جانے والا ہے۔ ستم ظريفی ملاحظہ ہو کہ اُدھر تو دينی قيادت نے اسے نکال باہر کيا، اِدھر ملا حضرات اسے آمد کا جواز مہيا کرتے نظر آتے ہيں۔ اُدھر ايک نو آزاد قوم تين دہائياں جارحيت سہہ کر بھی متزلزل نہيں ہوئی، اِدھر باسٹھ برس گزار کر بھی شيرازہ بکھرتا نظر آتا ہے۔
آپ نے لاکھ روپے بلکہ لاکھ ڈالر کی بات کی ہے ليکن اب پچھتاوے کيا ہوت جب چڑياں چگ گئيں کھيت۔ اب بلی کے گلے ميں گھنٹی کون باندھے والی بات ہے۔ سر سيد احمد خان نے انگريزوں کا مقابلہ کرنے کے ليے انگريزی زبان سيکھنے اور دنياوی تعليم عام کرنے کی تحريک چلائی، اب ہميں بھی نيم ملاں سے جان بچانے کے لیے ايک نئے نظام کی ضرورت ہے يعنی ملک ميں سيکولر ازم کی کوشش تاکہ تمام مکاتب فکر کے لوگ ايک پليٹ فارم پہ اکٹھے ہوں۔ اتحاد کی صورت ميں کوئی بھی اپنا يا غير ملکی دشمن فائدہ نہيں اٹھا سکتا۔
امریکہ کو اپنے مفادات پیارے ہیں نہ کہ جمہوریت یا عوام۔ امریکہ پر گیارہ ستمبر کا حملہ بھی مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ جمہوریت ہو، آمریت ہو، یا بادشاہت، بس امریکہ کی مرضی کی ہو تو اسے قبول ہے ورنہ نہیں۔
کچھ کمزور ايسے ہوتے ہيں جو اپنی کمزوری کو وجہ مان کر دبتے چلے جاتے ہيں يہاں تک کہ طاقتور اس کمزور کا گلا گھونٹ دے۔ کچھ اپنی محرومی کو جان کر اسے دبا کر اپنی طاقت بناتے ہيں، اپنے سنہرے مستقبل کے ليے۔ يہ بات شخصی، جماعتی، قومی، ملکی غرض ہر ايک پر لاگو ہو سکتی ہے۔ اب يہ شخص، قوم، ملک پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ليے کيا چاہتا ہے۔ مغرب خود سے کسی کی مرضی کے بنا کسی کی صورتحال کو خراب کرنے کی وجہ نہيں بنتا، ہاں ماضی يا کبھی بھی ان کے رہے چیلوں کے علاوہ۔ سوچ اور اداروں کو مستحکم کرنے ميں ہی اصل ميں عافيت ہے۔
عنبر جی آداب
آپ نے نہيں سنا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ امريکہ نے کہاں کہاں اودھم نہيں مچائی ہے، پہلی جنگ دوسری جنگ تيسری جنگ اور سلسلہ نہ جانے کہاں جاکے رکے گا۔ ويسے گيارہ ستمبر سے کہيں زيادہ بھيانک تو يہ عالمی اقتصادی بحران ہے جس نے ساری دنيا کو ايک عجيب سی بے چينی سے دوچار کر ديا ہے۔
چلو کوئی تو ملک دنيا ميں ہے پاکستان جيسا، چلی ہی سہی۔ فوج کو لانے ميں عوامی ہاتھ بھی ہوتا ہے اس لیے تمام ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے يہ کہا جا سکتا ہے کہ چلی کے صدر نے تو اپنی جان دے کر جمہوريت کی قيمت چکائی ليکن ہارا نہيں جبکہ ادھر تو خود ہی سوار ہو جائيں گے طياروں پر اور وجہ قومی مفاد، عوامی بھلائی۔۔۔