کیا مشرف اتنے سادہ ہیں؟
سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی ویزے میں توسیع کی امید نہیں ہے۔ اسی لیے وہ شاید آج کل ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے ان کے ویزے میں توسیع یقینی ہو جائے۔
ویسے جس ملک کی ضمانت پر وہ لندن گئے ہوں وہاں انہیں ایسا کوئی مسئلہ تو نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم لارڈ نذیر کا برطانوی حکومت سے مطالبہ کہ وہ ویزے میں توسیع نہ کرے ہی ان کی راہ میں ایک رکاوٹ دکھائی دے رہی ہے۔
البتہ سابق صدر کی جانب سے یکے بعد دیگرے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان واپس لوٹنا نہیں چاہتے ورنہ ایسے بیانات نہ دیتے جن سے ان کے اپنے ادارے یعنی فوج کو بھی تکلیف ہو اور ان کے مستقبل قریب میں کم از کم وطن واپسی کا کوئی امکان نہ رہے۔ ان کے ان بیانات سے ان کا لندن میں قیام یقیناً بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان میں طالبان اور بڑی تعداد میں سیاستدان تو ان کے مخالف تھے ہی اب فوج کو بھی وہ چڑانے کی کوشش میں جٹے دکھائی دے رہے ہیں۔
پہلے انہوں نے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ جمہوری حکومتوں کو چلتا کرنے، مارشل لاء نافذ کرنے اور آئین کو معطل کرنے یعنی تمام غیر آئینی اقدامات میں انہیں فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی، تمام کور کمانڈرز ان کے ساتھ تھے۔۔۔ اور اب یہ کہ فوج امریکہ یا کسی سے بھی شدت پسندوں کے خلاف استعمال کے لیے ملنے والا اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔
اگر ویزے میں توسیع نہیں ہوتی تو وہ حفظِ ماتقدم کے طور پر سعودی عرب سے بھی پینگیں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اگرچہ ان کا بیان ایک سابق صدر کا بیان ہے اور اسے پالیسی بیان تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن پھر بھی اس کی اہمیت اس سے کم نہیں ہوتی۔ وہ صدر تو محض چھ برس رہے لیکن فوجی تمام پیشہ ورانہ زندگی تھے۔ بعض لوگوں کے مطابق انہوں نے شاید سادگی میں فوج کی 'آپریشنل ڈیٹیلز' عیاں کر دی ہیں۔ لیکن کیا وہ اتنے سادے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
مشرف ايک جری کمانڈر اور کمانڈو ہيں اور جو بات بھی کہتے ہيں ذمہ داری سے کہتے ہيں- انہوں نے اپنی بات فوج کے کمانڈ اينڈ کنٹرول سسٹم سے واقفيت کی بنياد پر کہی ہے مگر اس کے سياسی مضمرات پر شايد توجہ نہيں دي- سياسی قيادت کو اس کے مضمرات کو زائل کرنے ميں کسی قسم کي دشواری پيش نہيں آٌنی چاہے کيونکہ سياسی قيادت ان معاملات کو نپٹانے ميں ہی مہارت رکھتی ہيں۔
مجھے اس بات کی سمجھ نہيں آتی کہ حکمران اقتدار سے باہر ہو کر ايسی باتيں کيوں کرنے لگتے ہيں؟ کيا وہ بيوقوف بن جاتے ہيں يا پھر ويزے کے چکر ميں ايسی اوٹ پٹانگ باتيں کرنی شروع کر ديتے ہيں- اگر چکر ويزے کا ہے تو اسی مشرف نے ايک مرتبہ جب اقتدار ميں تھے کہا تھا کہ کچھ عورتيں مغرب جانے کے ليے ريپ کا ڈرامہ رچاتی ہيں۔ ان ميں اور مشرف ميں کيا فرق ہے؟ بلکہ مشرف تو بدتر ہيں کہ پورے ملک کو اس طرح کے بيانات سے مصيبت ميں ڈالتے ہيں۔
مشرف جيسا کو ئی نہيں۔ وہ ايک گريٹ ليڈر تھا اور رہے گا۔ ایک يا دو غلطياں اس کے سارے اچھے کاموں پر حاوی نہيں ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے جو اچھا کيا ہے اس پر بھی نظر رکھيں۔
جی ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں وہ اتنے سادے ہیں کہ انہیں گانا گاتے وقت یہ بھی خیال نہ آیا کہ میں تاحیات صدر نہیں ہوں۔ انہیں امریکہ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دیتے وقت بھی خیال نہ آیا کہ عوام کیا چاہتی ہے۔ اب عوام بھی مشکل میں اور وہ بھی مشکل میں۔ نتیجہ کیا نکلا ۔۔؟ صرف علی زرداری
وہ اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ فوج تو کیا یہ اپنی کھال بچانے کے لیے کچھ بھی کر دیں گے۔
. میر کتنے سادہ ہیں بیمار ہوے جس کے سبب ۔۔ ۔
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
۔۔۔ میر تقی میر
پاکستان ميں پرويز مشرف کی بھرپور مخالفت اور ايک فوجی جرنيل کے ملک سے بھاگنے سے يہ بات ضرور خوشی سے کم نہيں کہ اب لوگ فوجی جکومت کو ايک برائی يا آفت سمجھنے لگے ہيں۔ ضياء اور ايوب دور میں قطعی طور پر صورتحال مختلف تھی۔ اس وقت بہت سے لوگ يہ کہتے سنائی ديتے تھے کہ اس ملک کو کوئی ڈنڈے والا ہی چلا سکتا ہےـ رہی بات مشرف کی تو يہ باقی فوجيوں کے لي سبق ہے کہ اپنے کام سے کام رکھيں اور ملک انہيں کو چلانے ديں جنہيں عوام اجازت دےـ
ہارون رشید صاحب اقتدار کی طاقت اور نشہ بھی عجيب چيز ہے- اچھے اچھوں کی مت مار ديتا ہے- انسان اپنی اوقات بھول جاتا ھے- صدر پرویز مشرف جيسے آدمی سے بلکل اميد نہ تھی جو انھوں نے کيا- ميرے خيال سے کسی بھی ملک کے سياسی اور فوجی لوگوں کو پناہ دينے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہيے- جہاں تک برطانيہ کا تعلق ہے يہاں تو سب کو پناہ ملتی ہے- اور سعودی اس ليے پناہ ديتے ہيں کہ کل ان کو بھی ضرورت پڑسکتی ہے- ميں لارڈ نذیر کی مکمل حمايت کروں گا اگر وہ يہ سب کچھ نواز برادران سے کسی سياسی مفاد يا دوستی کی خاطر نہیں کر رہے تو- جہاں تک فوج کی 'آپریشنل ڈیٹیلز' عیاں کر نے کی بات ہے تو اپنی کتاب بيچنے کے ليے انہوں نے کيا کچھ نہيں کيا- اب تو صرف ان کو نواز برادران ہی بچا سکتے ہيں اگر وہ سعودی دوستوں کی بات مان ليں تو- اور اگر ايسا ہوتا ہے تو يہ انکے سياسی کيريۂر کی موت ثابت ہوگا۔-
ہارون صاحب بحيثيت ايک پاکستانی آپ صدر مشرف پر فخر کريں گے يا ذرداری پر؟ ويسے مشرف کے ويزے کے ليے بيانات والی آپ کی بات ميں بالکل وزن نہيں ہے۔ اس ليے ذرا بات کو کھول کے لکھا کریں۔ ان کو ويزہ مل ہی جائے گا۔-
اگر آپ اور آپ جیسے دوسرے صحافی ايک ريٹايرڈ فوجی کو اتنا اہميت نہ ديتے تو وہ يہ نہ کہتے- اگر آپ جيسے صحافی فوج کے تباہ کن ايجنڈے کو ملکی بقاء اور مفاد نہ کہتے تو آج پاکستان ايک سکيورٹي سٹیٹ نہ ہوتا، نا طالب ہوتا اور نہ خود کش حملے۔`-
"حرفِ ترديد سے پڑ سکتے تھے سو طرح کے پيچ
اتنے سادہ بھی نہيں تھے کہ وضاحت کرتے”
مشرف صاحب نے جو کچھہ کہا ہے- 100 فيصد ٹھيک ہی کہاہے -کيوکہ وہ جو کچھہ بھی کہہ رھا ہے-يا جو کچھہ کر رہا ہے پاکستان کے بہترين مفاد کيلے ہی کرہاں ہے-پاکستان رندہ باد - مشرف پايندہ باد----
قُربان جائيے اِن کی سادگی کے
وُہ کہتے ہيں نا
لڑتے ہيں اور ہاتھ ميں تلوار بھی نہيں
مر مِٹے پم تو آپ کی اِس کج ادائ پر
سُبحان اللہ
”زندگی ميں دو ہی لمحے مجھ پر کٹھن گزرے ہیں۔
اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جا نے کے بعد”
ميرا سوال ہے
رخصتي کے وقت گارڈ آف آنر کس نے پيش کيا؟
مشرف کو آرمی ہاوس ميں کس نے رکھا؟
کس کے طيارہ پر سعودی عرب جاتے ہیں؟
کيوں دنيا اس کے ليکچر سنتی ہے؟
ويزا تو مل ہی جائے گا اور نہ ہی وہ اتنے سادہ ہيں کہ فوج کی 'آپريشنل ڈيٹيلز'اوپن کر ديں۔ سادہ تو ہم پاکستانی ہيں جن کو چال کا پتہ ہی جب چلتا ہے جب مات ہو چکے ہوتے ہيں۔
”آگےآگے ديکھیے ہوتا ہے کيا”
ہم کتنی خوبصورتی سے اپنے تعصبات کو منطق کا غلاف پہنا تے ہيں- بس موقع چاہیے- ہارون رشيد صاحب ايسی تنقيد نواز شريف کے مقدر ميں کہاں؟-
ہارون رشید صاحب، میرے خیال میں مشرف کے بیان میں کوئی ایسی بونگی نہیں ہے جس سے‘عالمی استعمار‘ اور اس کا اگلی صف کا ‘اتحادی‘ میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ بیان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس سے نظر آئے کہ امریکی امداد کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ چونکہ پاکستان ‘اتحادیوں‘ کی ایک نہیں چلنےدے رہا جیسا کہ کامیاب سوات اپریشن سےعیاں ہے۔ اس لیے مشرف کے بیان کو سنجیدگی سے لینےکا مقصد پاکستان میں ‘طالبانائزیشن‘ کا ‘اعادہ‘ کرنا تھا کہ چند ماہ سے یہاں امن وامان ہے۔ حکومت کو اس بیان پر بلاوجہ واویلا مچانے کی وجہ سے اور لکیر کو شہتیر بنانے کی وجہ سے کم از کم ملکی میڈیا کو ‘لگام‘ ضرور ڈالنی چاہیے جبکہ غیرملکی میڈیا بشمول سائبر میڈیا کو ‘بلیک آؤٹ‘ کر دینا چاہیے کہ یہ اپنی نام نہاد ‘غیرجانبداری‘ اور مفاد پرستانہ ‘آزادی‘ کے پس پشت دنیا میں ‘آگ و خون‘ کی راہ ہموار کرنے کا کام کر رہا ہے اور صرف وہی باتیں، وہی تبصرے چھاپتا ہے جس سے اس میڈیا کے ابا جان ‘عالمی استعمار‘ کو اپنی ‘استعماریت‘ پھیلانے کا موقع و جواز ملتا ہو۔ دیگر تمام باتیں، تبصرے چاہے زمینی حقائق کا زندہ جاوید ثبوت ہی کیوں نہ ہوں، استعمار کا ٹاؤٹ میڈیا کھا جاتا ہے۔ شرم مگر اس کو آتی نہیں۔
مجہے ا س با ت پر فحر ہے کھ جنر ل مشر ف پا کستا نی ہين
وہ ہرگز سادہ نہیں ہیں۔ سادہ تو عوام ہے جو غداروں کو اپنے سر پر سوار کر لیتی ہے۔
جرنيلی صدر اس کے علاوہ اور کيا کہے جب فوجی بولے گا تو کہو گے کہ بولتا ہے اور بہت خراب بولتا ہے
نواز شریف کو جلاوطنی کا طعنہ دینا والاشخص آج خود ساختہ جلاوطنی گزارنے پر مجبور ہے۔ کل جو مکے لہرائے تھے وہی اس پر برسیں گے۔ اس کے سفاکانہ عہد وانداز کو پاکستانی قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔