| بلاگز | اگلا بلاگ >>

پاکستان کے خودکُش حملے اور اسرائیلیوں کی ہمدردیاں

اصناف: ,

شاہ زیب جیلانی | 2009-11-08 ،13:53

کل رات کا ڈنر یروشلم سے باہر ایک یہودی فیملی کے گھر کھایا۔ وہ پہلے کبھی کسی پاکستانی سے نہیں ملے۔

مجھے لگا کہ جتنی میری اُن کے طور طریقے جاننے میں دلچسپی تھی اُتنی ہی دلچسپی انہیں مجھ میں اور پاکستان میں تھی۔

ذکر پاکستان میں آئے دن کے خودکُش حملوں کا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیلوں کو پاکستانیوں سے پوری ہمدردی ہے کیونکہ ہم سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ خودکُش حملے روکنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

ایک حد تک ان کی بات سہی بھی تھی۔ پاکستان میں خودکُش حملوں کا رواج نائن الیون کے بعد سے پڑا۔ لیکن اسرائیلی ایک لمبے عرصے سے انہیں بھگتے آئے ہیں۔

کبھی فلسطینی خودکُش حملہ آوروں نے یروشلم میں عام مسافروں سے بھری بسوں کو نشانہ بنایا تو کبھی تل ابیب میں ریستوران اور ڈسکوز اُن کی کاروائیوں کا نشانہ بنے۔

ایک زمانہ تھا اسرائیل آئے دن اس قسم کی خبروں میں رہتا تھا لیکن اب یوں لگتا ہے جیسے پاکستان اور خودکُش حملے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔
میں نے اپنے پُر خلوص اسرائیلی میزبانوں سے پوچھا کہ آپ نے کیسے خودکش حملوں پر بظاہر خاصا کنٹرول کر لیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو شاید یہ بات پسند نہ آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب سے اسرائیل نے فلسطینوں کی نقل و حرکت روکنے کے لئے جگہ جگہ سکیورٹی رکاوٹیں کھڑی کیں اور دیوار بنائی، اُن کا یہاں آ کر حملے کرنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہوگیا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل رقبے کے اعتبار سے پاکستان سے کئی گناہ چھوٹا لیکن مال کے اعتبار سے کافی امیر ملک ہے اس لئے وہ اس قسم کے سکیورٹی اقدامات کر سکتا ہے۔

پاکستان خودکش حملہ آوروں کو روکنے کے لئے اگر دیوار کھڑی کرنے کا سوچے بھی تو آخر کہاں کہاں؟

آخر میں چلتے چلتے میرے یہودی میزبانوں نے کہا کہ اسرائیلی شہریوں کو جان سے مارنے والے تو اکثر فلسطینی خودکش حملہ آور رہے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان میں مسلمان مسلمانوں کو کیوں مار رہے ہیں؟

میں نے کہا اس کا جواب خاصا مشکل ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیئے کہ جب کوئی ملک اپنے پڑوسی حریف ملکوں سے نمٹنے کے لئے بیرونی امداد سے جہادی میزائیل تیار کرنے میں لگ جاتے ہیں تو وہ کبھی کبھی بھول جاتے ہیں کہ بعض اوقات جہادی فیکٹریوں سے نکلنے والے میزائل آپ کے اپنے گلے پڑ جاتے ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:45 2009-11-08 ,Nasir :

    اسرائیليوں کو خوش کرنے کيلۓ اپنے آپ کو بھت ذيادہ نيھچی دکھانے کی ضرورت نھيں ھے۔

  • 2. 15:18 2009-11-08 ,جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین :

    ہمیشہ کی طرح اسرائیلوں کا مظلومیت پہ مبنی نقطہ نظر پیش کرنے کی بی بی سی کی ایک مذید کوشش ہے۔ اس بار فرق صرف اتنا پے کہ اس دفعہ بی بی سی نے ایک سابقہ پاکستانی کے منہ سے وہ سب کچھ دہروایا ہے۔ جو وہ پہلے دوسروں سے کہلواتے آئے ہیں۔ مثال کے طور پہ فلسطینیوں کو جانائز طور پہ انھی کے ملک اور زمینوں پہ ایک نیے اپارٹ ہیڈ کے تحت محبوس کرنے کو جائز قرار دینے کی یہ بی بی سی کی اپنی سی کوشش ہے۔

    ناجائز کو دنیا بھر کے کی دلیلوں سے جائز ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

  • 3. 16:10 2009-11-08 ,Sheeraz :

    بھترين مشاھدہ ھے

  • 4. 17:54 2009-11-08 ,Ali dar :

    شا ہ زیب، بہت اچھا کیا یہ دورہ کیا۔امید ہے پاکستان کے قارئین یہ تحریر ضرور پڑھیں گے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ اسرائیل میں ہمارے جیسے ہی انسان رہتے ہیں۔ اسرائیل ایک حقیقت ہے اور ہمارے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
    علی ڈار

  • 5. 18:37 2009-11-08 ,Majid :

    بدل کر بھیس ھم فقیروں کا غالب تماشاۓ اھل کرم دیکھتے ہیں

  • 6. 20:07 2009-11-08 ,آفضل خان :

    عوام سے عوام کی ہمدردی آپ کو اسراءيل ميں پاکستان کے لےء کيا بلکہ دنيا کے ہر خطے ميں آپ کو ملی گی ۔ عوامي ھمدردی رنگ، نسل، زبان، مذہب اور جغرافيہ سے بالاتر ہوتی ہےِِـ يہ تو ايک مخصوص ٹولہ اپنی ذاتی مقاصد کے ليے ان چيزوں کو ھتکنڈوں کے طور پر استعمال کرتے ہيںـ

  • 7. 20:38 2009-11-08 ,IMRAN QAYYUM :

    مجھے خوشی ہوئی کہ ایک پاکستانی اسرائیل کے دورے پر ہے۔میرے خیال میں پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر ہی لینا چاہیئے کیونکہ اسرائیل ایک حقییقت ہے۔
    عمران قیوم

  • 8. 4:12 2009-11-09 ,hussnan hayder :

    واہ شاہ زیب صاحب یہودیوں کانمک کھا کر آپ یہ ساری باتیں کیسے بھول گئے اور ان سے یہ سب کیوں نہیں پوچھااور آپ نے اسرائیل کو کیوں نہیں بتایا کہ موساعد پاکستان میں کیا کارروائیاں کر رہی ہے اور یہ کہ جہادی فیکٹریاں امریکہ کی بنائی ہوئی ہیں۔
    اس کے علاوہ مجھے بی بی سی سے یہ ضرور کہنا ہے کہ جانے یہودیوں کے خلاف کتنے تبصروں کو آپ نے جان بوجھ کر رد کر دیا ہے تاکہ وہ چھپ نہ سکیں اورلوگوں کو مخالف نقطہ نظر کا اندازہ نہ ہو سکے لیکن اس کے باوجود ہمیں اپنی بات کہنے سے نہیں روکا جا سکتا اور ہم بی بی سی کی پالیسیوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہیں گے۔

  • 9. 6:26 2009-11-09 ,اقبال احمد خان :

    آپ کہنا کیا چاہتے ہیں کہ یہودی بہت اچھی قوم ہیں؟ ناجائز کو دنیا بھر کی دلیلوں سے جائز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
    اقبال خان

  • 10. 7:28 2009-11-09 ,شعيب رضا :

    بهت برا لكا

  • 11. 12:08 2009-11-09 ,محمد رحمن :

    مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہم فلسطین کے بارے میں اتنے جزباتی کیوں ھیں یہ تو عربوں کا خاندانی مسئلہ ہے اور وہ خود بھی اسکو مانتے ھیں اور اسی لئے تو مسلمان اور عیسائی عرب اسمیں شانہ بشانہ ہیں ھم پتہ نہیں کیوں دوسروں کے مسائل میں ٹانگ اڑانے کے اتنے شوقین ھیں حالانکہ اپنے تو حل نہیں ہو ر ہے ۔

  • 12. 13:33 2009-11-09 ,اے رضا :

    ايک بات تو طے ہے کہ ان صفحات پر ہم قارئين کو اظہار راۓ کی سہولت کی طرح آپ کا يہ دورہ بھی کسي کی تفنن طبع کے لۓ نہيں ہے - اس تمام سرمايہ کاري کا مقصد ہماري نبض پر ہاتھ رکھتے ہوۓ ہميں متوقع تبديليوں کے لۓ ہموار کرنا ہے- عالمي طاقتوں کے منصوبے تو وہي جانيں - راقم کے نزديک اس مسئلےکا سادہ اور بہترين حل اسے تينوں مذاہب کے پيروکاروں کی مشترکہ تحويل ميں دے کر يروشلم کو ايک کھلا شہر قرار دے دينا ہے -

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔