| بلاگز | اگلا بلاگ >>

خضر سوچتا ہے ولُر کے کنارے

اصناف: ,,

نعیمہ احمد مہجور | 2009-12-01 ،14:51

اقبال نے یہ شعرکشمیر کی تعریف میں لکھا تھا مگر اس شعر نےگزشتہ ساٹھ برسوں میں کشمیر میں نہ صرف حکمرانوں کی نیند حرام کر دی بلکہ بھارت پاکستان کے حکام کے لیے بھی یہ ہر زمانے میں درد سر بن گیا۔

اُردو کے نامور صحافی اور مقبول روزنامہ آفتاب کے ایڈیٹر خواجہ ثنا اللہ اسی شعر کو عنُوان بنا کر دونوں ملکوں کی کشمیر پالیسی پر ساٹھ برسوں سے اپنا مرثیہ لکھتے رہے ہیں۔

خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اُردو صحافت کی ایک نئی صنف ایجاد کی۔ لوگ اِس کالم کی وجہ سے اُن کے مداح تو تھے ہی مگر حکمرانوں کو جب اپنے خفیہ کرتوتوں کی ڈائری صبح سویرے پڑھنے کو ملتی تو وہ حواس باختہ ہو جایا کرتے۔ اس کالم میں جتنا مزاح بھرا ہوتا اتنی ہی تلخی بھی ٹپکتی نظر آتی اور کشمیری زندگی کا ہر پہلو اس کالم میں جگہ پاتا۔

خواجہ ثنا اللہ ساٹھ برسوں پر محیط کشمیری سیاست کے ایسے چشم دید گواہ تھے کہ جنہوں نے ایک ایک واقعے کو دیکھا، اپنے کالم میں لکھا، بیان کیا، کبھی کالم پڑھ کر ہم روتے تو کبھی ہنس ہنس کے بےحال ہو جاتے۔

میری نظر میں صحافی برادری میں وہ واحد شخص تھے جنہوں نے ہر کسی کا تِیر سینے پر لیا۔ کبھی بھارتی دباؤ، کبھی سرحد پار کی مخالفت، کبھی فوجیوں نے للکارا تو کبھی بندوق برداروں نے دھمکیاں دی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں نے خواجہ صاحب کو دفتر میں سیکورٹی کے سخت پہرے میں لکِھتے دیکھا کیونکہ انہیں کسی پر اعتبار نہیں رہا تھا۔ اِس کے باوجود خضر ولر کے کنارے بیٹھ کر لکھتا رہا اور ایسا کچھ لکھتا رہا کہ جو کشمیری عوام کی آواز بنا۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہر کشمیری ولر کے کنارے اُس خضر کو ڈھونڈ رہا ہے۔

افسوس کہ خضر اب نہیں رہا، وہ داغ مفارقت دے گیا۔ کشمیر میں اُردو صحافت کی ایک اور شمع بُجھ گئی ہے۔ بےباک، نڈر اور کھری کھری بات کہنے والے خواجہ ثنا اللہ نہیں رہے۔ وہ بھی وُلر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:29 2009-12-01 ,Sajjadul Hasnain_Hyd _india :

    نعيمہ جی سب سے پہلے تو ميں خواجہ ثناءاللہ صاحب کے لئے مغفرت کی دعا کرونگا خدا انہيں جنت نصيب کرے ۔ کاش کہ کشميريوں کو خضر مل گيا ہوتا کاش کہ ان کی قيادت راہ راست کو بخوبی سمجھ پاتی اگر ايسا ہوتا تو آج کشمير کشمير ہوتا اور کشمير کی فضائيں جنت نظيری کا حقيقت ميں نظارہ پيش کرتی نظر آتيں مگر پتہ نہيں کيوں بچپن سے ليکر آج تک ميں نے کشمير کے تعلق سے جو کچھ بھی سنا ہے پڑھا ہے اور ديکھا ہے اس ميں مايوسی کا عنصر ہميشہ ہی نماياں نظر آيا ---- ميں نے جناب خواجہ صاحب کو پڑھا نہيں ہے مگر ہاں کبھی کبھار حيدرآباد کے اخباروں ميں سرسری ہی سہی اس کالم نگار کے تذکرے ضرور سنے ہيں - علامہ اقبال کی جڑيں بھی تو کشمير ہی سے جڑتی ہيں اور خمير جہاں سے اٹھے گا وہاں کی خوشبو ساتھ نہ رکھے يہ کيسے ممکن ہے علامہ نے يہ لا زوال شعر کہا اور اور ايک جہاں ديدہ صحافی نے اسے نہ صرف پرکھا بلکہ بلکہ بہت ہی خوب پرکھا -خضر نے ولر چھوڑا ضرور ہے مگر ان بے باک تحريروں ميں تا حيات زندہ رہے گا ايک راہبر کی طرح -انشاء اللہ

  • 2. 17:06 2009-12-01 ,DR.Ghulam Shabbir Ranaب :

    برس گيا بہ خرابات آرزو تيرا غم
    قدح قدح تيری ياديں سبو سبو تيرا غم

  • 3. 4:47 2009-12-02 ,hussnan hayder :

    یقیناخواجہ ثنا اللہ جیسے بے باک صحافی اردو صحافت کا سرمایہ افتخار ہیں اور ان جیسے خضر ہی کشمیریوں کو سیدھی راہ دکھا سکتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کا درست حل صرف استصواب رائے میں پوشیدہ ہے مگر افسوس کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اوردنیا بھر میں اقوام متحدہ کی بالادستی کا دھنڈورا پیٹنے اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے ذریعے ایران کو دھمکانے والا امریکہ بھی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کوقبول نہیں کر رہا ہے اور صرف اپنے تجارتی مفادات اور چین کو نیچا دکھانےکیلئے پاکستان کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہے لہٰذا ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت پوری دنیا امریکہ کے زیر اثر بھارت کی حمایت کر رہی ہے لہٰذا ہمیں چین کے سپرپاور بننے کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ بھارت اور امریکہ دونوں سے اپنا حساب بے باک کر سکیں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔