افغان کہانی
امیر عبدالرحمان نے سال انیس سو میں اپنے ملک اور برٹش انڈیا کے قبائلی علاقے کے درمیان کے علاقے کے لیے 'یاغستان' کا نام استعمال کیا۔ کسی نے اسے علاقہ غیر، کسی نے باغیوں کا علاقہ اور کسی نے آزاد علاقے کے نام بھی دیئے۔
یہاں طالبان کے خلاف جنگ کو ابتداء میں مغرب نے اسے 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' کا نام دیا لیکن اب اگر کسی امریکی کے سامنے یہ نام لیں تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کسی امریکی رہنما نے یہ عبارت آخری مرتبہ کب استعمال کی تھی۔
لیکن بات محض کرخت نام دینے تک محدود ہوتی تو شاید قابل برداشت ہوتی لیکن یہ اس سے بھی کافی آگے بڑھ جاتی ہے۔ روس نے اسے کمیونزم کے فروغ اور اس کی حامی حکومت کے دفاع کے لیے مداخلت کی، مجاہدین کے ذریعے پاکستان اور امریکہ نے مل کر روسی بھالو سے خون نچوڑ نچوڑ کر اسے اس کا ویتنام بنا دیا، پاکستان نے سٹرٹیجک گہرائی کے لیے طالبان کا کندھا استعمال کیا، طالبان نے موقع پاکر وہاں اپنے قدامت پسند نظریات نافذ کرنا چاہے، القاعدہ کے لیے لگ بھگ انہیں نظریات کو دنیا میں برآمد کرنے کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر کارآمد ثابت ہوا اور آخر میں رہی سہی تباہی امریکہ نے اسے انتہا پسند نظریات سے پاک کرنے کے نام پر مچا دی جو اب تک جاری ہے۔
یعنی افغانستان نیٹو اور امریکہ کے لیے عسکری لائحہ عمل اور ہتھیار کے تجربات کی فری لبارٹری بھی ثابت ہوئی۔ 'ڈیزی کٹر' اور 'ڈرون' دو ہزار ایک سے قبل شاید ہی کسی نے سنے ہوں۔ اب بچہ بچہ ان سے واقف ہے۔ نیٹو کا رکن پولینڈ نے جس کی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئی تھی یہاں تک اعتراف کیا ہے کہ اسے افغانستان میں اپنی فوج کو جدید بنانے کا نادر موقع فراہم کیا گیا ہے۔ امریکہ نے پولینڈ کی فوج کی افغانستان میں تربیت کے لیے معاہدہ بھی کیا ہوا ہے۔
لیکن جس خطے کے نام سے زیادہ اس سے کام لیے جا رہے ہوں وہاں پائیدار امن کس کے فائدے میں ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
‘مطلب دی اے دنیا یارو، کوئی نئیں یارو کِسے دا یار
کانوں بندیا کرنا اے دعوے، مطلب دا اے سبھ سنسار‘
‘لائے ہیں نقطہ دان یہ کوڑی بڑی دُور سے‘
اور :
‘بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی‘
دنيا ميں زيادہ لڑائياں اس وجہ سے ہی ہوتی ہيں کہ کون کس نظام يا طرز زندگی کو اپناتا ہے اور ہر معاشرہ اپنے نظام کی ترويج چاہتا ہے کيونکہ جس نظام کو جتنے زيادہ ماننے والے ہوں گے اس کی اتنی ہی زيادہ طاقت ہو گي۔اسی ليۓ ماضی قريب ميں دو بڑے نظاموں يعنی کيمونزم اور سرمايہ داری ميں سرد جنگ ہوچکی ہے۔ سرمايہ داری جيت گئی کيونکہ ان کے طرز زندگی ميں کچھ رنگينی يا آگے بڑھنے کے مواقع نظر تو سب کو آتے ہيں ليکن ملتے قسمت اور محنت سے ہيں۔جبکہ کيمونزم ايک اس طرح کا نظام ہے جس ميں کھانا تو سب کو ملتا ہے ليکن لوگ کوئی بھی کام شوق اور لگن سے نہيں کرسکتے بلکہ زبردستی کرنا پڑتا ہے اور ايک جد تک يعنی آگے جانے والا آف سائيڈ ہوجاتا ہے۔افغان لوگوں کا کيونکہ ايک اپنا طرز زندگی تھا اور انہوں نے اسلام کو بھی اپنے نطام ميں مکس کرکے ايک نيا نظام بنا ليا تھا اورجب امريکہ اور روس نے ان کی کم علمی اور غير پےشہورانہ طرز کی بو سونگھی تو اس کو ميدان جنگ بنا ليا اور سب کو اندازہ ہوگيا کہ غلط جگہ قدم پڑے ہيں اس ليۓ امريکہ نے تو جو کيا وہ سب افرا تفری ميں جبکہ روس بھاگ گيا۔پاکستان کے کرتا دھرتا نے موقع کا فايدہ اٹھايا اور جس کو چاہے وہ فوجی ہو يا سياستدان يا ملا جو ملتا گيا ليتا گيا۔اب جو حال ہے اس کے ذمہ دار تو سبھی ہيں ليکن مانتا کوئی نہيں سب ايک دوسرے کو موروالزام ٹھرا رہے ہيں۔ تو ايسے ميں اس کو اگر عسکری تجربات کی ليباٹری کے طور پر پيش کيا جائے تو يہ ايک حل نظر آتا ہے۔
دوستوں اور دشمنوں نے مل کر اس کو بالکل ہی لاوارث بنا دیا ہے۔ خدا جانے ابھی اس سرزمین نے اور کیا کچھ دیکھنا ہے۔
افغانستان، کمیونزم کا ‘ویتنام‘ بن چکا ہے لیکن ‘سامراج‘ کو اس کے دوبارہ ‘جاپان یا چین‘ بن جانے کا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔ وجہ یہ کہ کہ سرمایہ داری نظام اپنی پوری آب و تاب کے باجود دنیا سے غربت اور جہالت کو ختم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوا ہے۔ ایک گہرا غوطہ لگانے کے بعد حاصل کلام یہ برآمد ہو جاتا ہے کہ ‘سرمایہ داری نظام‘ کو ‘این آر او‘ سے خوبصورت تشبیہ دے کر اس کے کالے کرتوتوں کو پہنچانا جا سکتا ہے۔ یعنی سرمایہ دارنہ سسٹم بھی صرف ایک ‘مخصوص طبقے‘ کو نوازتا ہے یعنی امیر طبقے کو۔ اس کو غریبوں، محنت کشوں، کسانوں، اور ریڑھی بانوں سے صرف بیان بازی تک ہی غرض ہوتی ہے۔ سن پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں دنیا بھر میں سامراج مخالف تحریکیں اپنے عروج پر پہنچنے ہی والی تھیں۔ امریکہ کو خوف تھا کہ یہ تحریکیں ‘سوشلزم‘ پر جا کر منتج ہوں گی لہذا ان سامراج مخالف تحریکوں اور طبقاتی تحریکوں کو قابو کرنے کے لیے ‘عالمی سامراج‘ نے ‘بیناد پرستی‘ کی سرپرستی کا منصوبہ بنایا۔ اس ضمن میں ‘عالمی سامراج‘ نے دنیا کی بیناد پرست جماعتوں کو یار بنانا شروع کیا۔ شام میں ‘حماس‘، الجزائر میں ‘اسلامک سالویشن فرنٹ‘، مصر میں ‘اخوان المسلمین‘ اور پاکستان میں ‘جماعتِ اسلامی‘ جیسی جماعتوں پر مشتمل ایک سوشلزم مخالف ‘نیٹ ورک‘ بنایا اور ان جماعتوں کی معاشی، عسکری اور سیاسی مدد کی۔ سن اسی کی دہائی میں افغانستان میں یہ ‘نیٹ ورک‘ اپنے عروج پر پہنچا جب ہزاروں کی تعداد میں نام نہاد ‘مجاہدین‘ تیار کرکے افغانستان میں ‘لادینوں‘ اور ‘کافروں‘ کا ‘ویتنام‘ بنانے کے لیے بھیجے گئے۔ نائن الیون کے بعد ملائیت کو سامراج دشمن دیکھا جا رہا ہے تو کیا اب ‘بائیں بازو‘ کو اس کی طرفداری کرکے دنیا میں ‘عالمی سامراج‘ کا خاتمہ کرنے میں کوشاں ہو جانا چاہئے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ ‘عالمی سامراج‘ اور ‘ملائیت‘ کی دشمنی حقیقی ہے یا ڈرامہ؟ بمطابق خاکسار یہ دشمنی مفاداتی، عارضی، وقتی، ناپائیدار، کمزور اور ڈرامہ ہی ہے لہذا ‘بایاں بازو‘ مبینہ سامراج دشمن ‘ملائیت‘ سے اتحاد کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔ وجہ یہ کہ تاریخ بتاتی ہے ایران میں بائیں بازو نے خمینی کی طاقتوں سے گٹھ جوڑ کیا تھا۔ لیکن خمینی نے حکومت پر قبضہ کرتے ہی ایران سے بائیں بازو کا صفایا کر دیا تھا۔ ہاں البتہ، ‘طالبان‘ افغانستان کو ‘عالمی سامراج‘ کا ‘ویتنام‘ بھی بنانے کے لیے ایران، عراق کے شیعہ، سعودیہ کے شیخوں اور چیچنیا کے باغیوں کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں مزید ‘فوجی کمک‘ آ رہی ہے کہ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں کے ہمسائے ممالک بنیاد پرستی کی لپیٹ میں ہیں۔
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر ساحر
سب کو اپنی ہی کسی بات پے رونا آیا