اوتار' سے افغانستان یاد آیا۔۔۔'
یہ کہانی ہے بظاہر کسی اور دنیا کی۔ ایسی دنیا جہاں ایک فوج اپنے جدید ترین اسلحے اور فضائی طاقت کے ساتھ ایک درخت پر آباد عجیب الخلقت مخلوق پر حملہ کرتی ہے۔
وجہ اس بڑے درخت کی جڑوں میں قیمتی دھات کی موجودگی ہے۔ جدید ترین بندوقوں، ہیلی کاپٹروں اور بموں کا مقابلہ یہ مقامی مخلوق محض نیزوں، تیروں اور پرندوں پر سوار ہوکر کرتی ہے۔ جیت بلآخر مقامی آبادی کی ہوتی ہے اور فوجیوں کے دانت کھٹے کر دیے جاتے ہیں۔ یہ کہانی آپ کو جانی پہچانی سی ضرور لگ رہی ہوگی۔ جی یہ دنیا میں سب سے زیادہ منافع کمانے والی فلم 'ٹائٹنک' کو پیچھے چھوڑنے والی 'اوتار' کی ہے۔
لیکن مجھے یہ فلم جانی پہچانی کسی اور وجہ سے محسوس ہوئی۔ وہ وجہ تھی افغانستان۔ ایک افغان صحافی کے ساتھ یہ فلم دیکھی تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہمسایہ ملک کی دکھ بھری کہانی پر ہی یہ فلم بنائی گئی ہو۔ نچوڑ اس کا یہی تھا کہ چاہیے دنیا کی جدید ترین فوج امریکہ کی ہو یا کسی اور ملک کی وہ مقامی آبادی کے مصصم ارادے کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثالیں دنیا میں بھری پڑی ہیں۔ بات افغانستان کی ہو یا ویتنام کی یا پھر فلسطین کی، محض فوجی طاقت کے بل بوتے پر عوام سے نہیں جیتا جاسکتا ہے۔ 'اوتار' کے ہیرو کی ایک اور مماثلت دکھائی دی۔ وہ اردن سے تعلق رکھنے والے خودکش حملہ آور کی صورت میں جس نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سات ایجنٹوں کو افغانستان میں ہلاک کیا۔ فلم کا ہیرو بھی اصل میں فوجیوں کی جانب سے بھیجا جانے والا جاسوس ہوتا ہے جو بعد میں ڈبل ایجنٹ بن کر الٹا فوجیوں کو مہنگا پڑ جاتا ہے۔
اسی ہیرو کے ایک ڈائیلاگ میں ساری کہانی چھپی تھی۔ وہ یہ کہ دشمن یقیناً ان سے کئی گنا طاقتور ہے لیکن اس کے مقابلے میں ان کا بڑا ہتھیار اُس خطے کی جان پہچان اور مقامی معلومات ہیں یعینی 'لوکل وژڈم'۔ اس مہلک ہتھیار کا بھرپور فائدہ ویتنامیوں نے بھی اٹھایا اور طالبان نے بھی۔ تازہ گرفتار طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کے پاس جنگی طاقت ہے لیکن عظم ہمارے پاس ہے۔ اس کا توڑ ہی شاید افغان جنگ کی کایا پلٹ سکے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘اپنی شکستِ فاش کو سمجھو نہ اتفاق
دشمن سے کوئی دوست کہیں جا مِلا نہ ہو‘
یہ حقیقت طاقت کے نشہ میں چور کسی فرد یا جماعت کو خوب واضح ہونے کے باوجود آخر کیوں نظر نہیں آتی؟ صرف اس لئے کہ وہ طاقتور ہے یا اس لئے کہ وہ حالات کو صرف اپنی ہی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔۔۔۔۔
محترم یہ فلم کافی وسیع کینوس رکھنے والی کہانی لیے ہوئے ہے۔ جس میں مغرب سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف اور ڈائریکٹر نے مغربی استعمار کے بدنما چہرے سے نقاب ہٹانے کی ایک اچھی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں اس وجہ سے تو یہ فلم آسکر سے محروم کر دی گئی کیوں کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔
ہارون صاحب حالات ہمارے بھی افغانستان سے کم نہيں پر کمی ہے عزم کی جس کی ذمہ دار ہے رياست کی۔ آئيں دعا کريں کہ ہمارے حوصلے بلکل پست نہ ہو جائيں اور آنے والا کل ہميں لعن طعن نہ کرے۔
یہ کہانی پڑھ کر خاکسار کی توجہ سجاد حیدر یلدرم کی تصنیف بعنوان ‘خیالستان‘ کی طرف مُڑ گئی۔ یہ زیادہ تر ‘خیالی‘ کہانی ہے اور اس میں حقیقت نگاری کا رنگ آٹے میں نمک کے برابر جھلکتا ہے۔ جذبہ، عزم، بہادری، جوش، تعیش، انتقام وغیرہ وغیرہ طویل مدتی نہیں بلکہ ‘قلیل مدتی‘ جذبات ہوتے ہیں اور جس طرح یہ اچانک آتے ہیں اسی طرح سیکنڈوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ اور وہ بھی جن کے ہاتھ میں غلیل تو ہو لیکن گلیلے نہ ہوں، ہر وقت ٹینکوں، بمبوں، آتش گیر مادوں، آتشیں اسلحہ اور بارود کے سائے میں رہتے ہوں، ان میں خوف، دھڑکا، موت، بیماری، معذوری، فوبیا اور نفیساتی امراض تو دیکھے جا سکتے ہیں لیکن جذبہ، عزم، بہادری جیسی ‘جنگجو‘ خصوصیات دیکھنا ‘خیالستان‘ ہی کہلا سکتا ہے۔ مقامی آبادی کا اگر کوئی مصصم ارادہ و عزم ہوتا ہے تو وہ دھرتی ماں سے لاشعوری پیار و محبت کا رشتہ ہوتا ہے اور یہ اس وقت ‘تخریبی‘ اور ‘گوریلا‘ صورت اختیار کرتا ہے جب مقامی آبادی پر یہ واضح ہو جائے کہ دھرتی ماتا پر ‘دشمن‘ یا ‘دوست نما دشمن‘ پنجے گاڑھ لے اور جب بھی مقامی آبادی پر یہ صورتحال طاری ہو جائے تو اس سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ‘جہاد‘ کی جدید شکل ‘ڈو آر ڈائی‘ کا غلبہ ہو گیا ہے۔ یہ ‘لوکل وژڈم‘ کی بات بھی اکسیویں صدی میں قبل مسیح والی بات نظر آتی ہے۔ سیٹلائیٹ دور میں، اندھیرے میں دیکھنے والے آلات، باردو کا پتہ لگانے والی سائنس، ڈیجیٹل کیمرہ سازی، آسمان سے نہ صرف شہروں بلکہ گھر گھر کے نقشے معہ مکان، سیکٹر، گلی، بلاک نمبر تک محفوظ کیے جا چکے ہوں، ٹیکنالوجی سے لیس سپر پاور، سکائی حَب، اور ہمسایہ ممالک کی آشیر باد کے باوجود ‘لوکل وژڈم‘ سے فائدہ اٹھانے کی بات تو ایسے ہی ہے جیسے ‘تیس ہزار‘ بھی کم ہیں۔۔۔۔
سو فیصد درست
آپ کی بات ٹھيک ہے کہ کسی چيز کے عزم کا توڑ مشکل ہے ليکن آج کی دنيا چاہے افغانستان ہو يا ويتنام اور عرب ممالک بلکہ پوری دنيا نئے سائنسی اور مشينی دور کا حصہ بن چکی ہے اور ان ايجادات يعنی کمپيوٹر اور روز مرہ زندگی کی ديگر سہولتيں بشمول ادويات وغيرہ کو اپنی زندگی کا اہم جز بناليا ہے۔ ان تمام چيزوں کی اجارہ داری امريکہ اور ان کے حواريوں کے پاس ہے تو اس کا توڑ کيا ہم يا افغانستان يا کوئی اور اسلامی ملک نکال سکتا ہے؟ ہم تو ايک نظريہ يا ايک فرقے کے نہيں بن سکتے۔ ويتنام کی کاميابی ميں تو حب الوطنی شامل تھی جو کہ ہم ميں نہيں ہے ورنہ يہ لڑائی اتنا طول نہ پکڑتي۔ امريکہ کا شدت پسندوں کے ساتھ لڑائی کا مقصد برائی کو محدود علاقے تک رکھنا اور اپنے ملک کی مکمل سکیورٹی ہے جس ميں وہ کامياب بھی ہے۔
ہارون رشید صاحب آپ کا بلاگ پڑھ کر بڑا مزا آیا اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا تبصرا پڑھتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ جانی پہچانی سی کہانی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ بہت عرصہ کے بعد بی بی سی اردو پر کوئی سلجھا ہوا بلاگ پڑھنا نصیب ہوا۔ حنیف کے کالمز نے بہت بور اور متنفر کیا بی بی سی سے۔ میری ایک درخواست بی بی سی اردو کے کسی سینئر انچارج تک پہنچا دیں کہ حنیف جیسے لوگ بی بی سی کے قابل نہیں۔ ایسے لوگوں کا صحافت کا دور سے کوئی واسطہ نہیں۔ اور بازاری زبان استعمال کر کے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کھلی چھٹی بی بی سی کو نہیں دینی چاہئے۔ میری گزارش ہے کہ بی بی سی میں ہارون رشید اور نعیمہ احمد مہجور، سفیع نقی جامی جیسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے اور ہندو انتہا پسندوں کو باہر نگالا جائے۔ والسلام
جناب افغانستان ميں ايک نئے دور کا آغاز ہونے کو ہے ـ افغانوں نے تئیس سالوں سے آپس ميں لڑ کر اتنے افغانوں کا خون بہايا ہے اس کا دس فیصد غيروں نے نہيں بہايا۔ افغانوں کی اکثريت امن چاہتی ہے نہ اسے کسی کے فاتح ہونے پر خوشی ہوگی نہ کسی کی شکست پر ملال ہوگا، اسے تو بس امن چاہے ـ باہر بيٹھ کر کتنے ہی تبصرے کريں يا مرنے والوں کی اسکورنگ کريں يا کسی فلم کی کہانی سے موازنہ کرکے بلاگ لکھيں يا افغانستان کے حالات کو ايک فلم کی طرح انجوائے کريں کوئی فرق نہيں پڑے گا افغانوں کوـ اب کوئی ميدانِ جنگ سے بھاگ کر کراچی ميں چھپتا پھرے اور کہے کے اسی عزم سے وہ دشمن کو شکست ديں گے، ان باتوں کی بلاگر کی نظر ميں کوئی اہميت ہوگی جبکہ حقيقت ميں کوئی اہميت نہيں۔ اب افغان فوج کی جديد خطوط پر تشکيل ہوچکی ہے جس کا عزم ہے امن قائم کرنا اور جس کے پاس ”لوکل وژڈم” کی بھی کمی نہيں۔ جو افغان عوام کی امن کے لئے مدد کرے گا اس کو وہ دوست رکھيں گے اور جو جنگ کي آگ لگائے گا افغانی اس کو اپنا دشمن سمجھیں گے۔
بڑا افسوس ہوا کہ آپ جيسے منجھے ہوئے صحافی نے اپنے زور قلم سے بےتکی مماثلت پيدا کردي- افغانستان کے لوگ نہ تو اتنے معصوم ہيں اور نہ ان ميں اتفاق نام کی کوئی چيز ہے، جو پينڈورا کے باسيوں کی سب سے بڑی صفت ہے- اور نيلي رنگت والوں کا سامنے آکر فوجيوں سے لڑنا اور دہشت گردوں، خود کش بمباروں کا چھپ کر بے گناہوں کو مارنا برابر کيسے ہوگيا- ہمسايہ قوموں کو کئی صديوں تک لوٹنے اور محکوم بنانے کے بعد طاقت کے غرور اور جہالت کے نشے ميں ايسے ڈوبے کہ دنيا ميں علم و ہنر کا سورج طلوع ہوتا نہ ديکھ سکے- آپ جيسے صحافي جتنا مرضی چھپائيں، ليکن امريکہ اب افغانستان کو دہشت گردی کا اڈا دوبارہ کبھی نہيں بننے دے گا-
افغان باقی کہسار باقي۔ طاقت کے نشے اور گھمنڈ کا علاج قدرت نے افغانستان کے پہاڑوں ميں پتہ نہيں کيوں رکھ ديا ھے۔
ہارون بھائي، امريکہ بھی کمال کا ملک ہے- پہلے کسی ملک پر قبضہ کرکے وسائل لوٹتا ہے، پھر اپنی اس لوٹ مار پر فلميں بنا کر مقبوضہ ممالک کے شہريوں کو خوش کرتا ہے اور اربوں ڈالر ان کی جيبوں سے نکلوا ليتا ہے- ادھر ہمارے دانشور صاحبان اسی بات پر خوشی سے پھولے پھرتے ہيں کہ کم از کم فلموں ميں تو امريکيوں کو مار پڑ رہی ہے-
ہارون صاحب، يہ فلم آپ نے کہاں ديکھی ہے، اور کس سينما ميں لگی ہے؟ ابھی اس کی ڈی وی ڈی ريليز نہيں ہوئي- بازار ميں ملنے والی جعلی ڈی وی ڈی ديکھنا بداخلاقی اور بدديانتی ہے، اس ليۓ يہ خاکسار يہ جاننا چاہتا ہے کہ يہ فلم کس جگہ ديکھ سکتا ہے- شکريہ
یہ کسی بھی پاکستانی صحافی کی طرف سے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔ بعض صحافیوں کے علاوہ تمام دیگر صحافی جانبدار تجزیے کرتے ہیں یا پھر زمینی حقائق سے آگاہ نہیں۔ اوتار کو افغانستان سے ملانا بلکل اسی طرح فرضی ہے جس طرح کہ اس فلم کی کہانی۔ افغانستان کے تمام لوگ غیرملکی یا افغان فوج کے خلاف نہیں ہیں۔ دراضل یہ طالبان آج کل پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک افغان کی حیثیت سے آپ کا موازانہ بےبنیاد ہے۔ یہ ایک بلاگ ہے لہذا آپ سب کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن اسی رائے کی بنیاد پر اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ ’سٹریٹجک گہرائی’ جیسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتی ہے۔
میں ڈاکٹر ہما سے اتفاق کرتا ہوں۔
معلومات بگھار نے سے حقائق کا انکار نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے کہ ایک سائیکی کے مریض کی تسلی ہوجائے۔ مشینوں اور خدا کی جنگ برسوں سے چلی آرہی ہے اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ہر فرعون کو شکست ہوئی ہے۔ مجھے حیرت ہے ان امریکی خودکشوں پر جو گلیلیو اور کارلی کے فلسفوں کے سائے میں امریکی جارحیت کے جواز کے راگ الاپتے ہیں۔اگر دہشت گردی قتل و غارت ہے تو بھی امریکہ کا پلڑا بھاری ہے، اگر دہشت گردی انتیہا پسندی ہے تو بی بی سی اکثر لکھاری بشمول بابائے لفظوں کے تیر محمد حنیف امریکی ہمنوائوں کا پلڑا بھاری ہے۔
نام اور تصویر تو ہارون صاحب آپ کی مگر باتیں حنیف صاحب والیں۔ امید کی وہی گھسی پٹی کہانی اب کیمرون صاحب کی زبانی۔ حنیف صاحب نے تہذیبی نرگسیت کی طرف توجہ دلائی اور آپ نے اوتار کی بات کردی ۔" اس کا توڑ ہی شاید افغان جنگ کی کایا پلٹ سکے " والی بات ہضم نہیں ہوئی ۔اگر تو اشارہ لوکل وزڈم کی ہی طرف ہے تو یہ بڑی ہی انہونی بات ہوگی ۔ جیسا کہ کیمرون صاحب نے پلینیٹری وزڈم کی بات کی تو اس تناظر میں نئی گلوبل لوکل وزڈم کی تو بہرحال ضرورت ہے ہی۔
آپ نے بلکل ٹھیک لکھا ہے۔ امریکہ اپنی طاقت کے نشے میں اندھا ہوچکا ہے۔
چودھری اللہ داد مسي ساگا ميں 'سلور سٹي' ، 'کوليزيم' اور ' اے ايم سي کرٹني پارک' سينماؤں ميں يہ فلم ديکھ سکتے ہيں -
یہ اصل ہے۔
کبھی ہم اس بات کا تصور نہيں کرتے تھے کہ ہمارے حالات ايسے ہوں گے۔ آج ہم اس سوچ ميں ہيں کہ حالات درست بھی ہوں گے کہ بد سے بدتر ہوجائيں گے۔ بہتر حالات کے ہمارے پاس دعا کے سوا کون سا راستہ ہے؟ اب تو مقتدر قوتيں بھی پيدا کردہ حالات سے تنگ آ کر ان سے جان چھڑانے کے لئے دعا کا درس ديتی دکھائی دے رہی ہيں۔ دن بہ دن بگڑتے حالات کو ديکھ کر لگتا يہ ہے کہ ايک دن ہارون صاحب کو بلاگ لکھنا پڑے گا کہ اوتار فلم ديکھ کر مجھے صورتحال پاکستان جيسی لگي۔ آئيں ہم مل کر ايسے حالات پيدا کرنے والوں کو ناکام بنائيں۔
بہت دنوں بعد بی بی سی پر کوئی ڈھنگ کا بلاگ پڑھنے کو ملا۔ اوتار کی کہانی سے افغانستان کی مماثلت بھی بہت خوب ہے اور نام نہاد سپر پاور اور ان کے ہمنوائوں کو حقیقت سمجھانے کی کوشش بھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ افغانوں نے تئیس سالوں سے آپس ميں لڑ کر اتنے افغانوں کا خون بہايا ہے اس کا دس فیصد غيروں نے نہيں بہايا۔ کم علمی اور اعدادو شمار سے ناواقفیت کی بہترین مثال ہے۔ افغانستان پر روسی قبضے کے دوران 70 لاکھ سے زائد افغان شہید ہوئے۔ اور اب امریکی قبضے کے دوران بھی شہید ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اور رہی بات افغان فوج کی جدید خطوط پر تشکیل پانے کی تو اس بات پر لوگ ضرور مسکرا رہے ہونگے۔
امریکہ اور اس کے حواری جتنا مرضی زور لگا لیں وہ افغانستان میں کبھی کامیابی کا سو چیں بھی نہ۔ دنیا کے سامنے ایک معجزے سے کم نہیں ہے کہ آج دنیا کی ساری طاقتیں نہتے طالبان سے جدید اسلحہ سے لیس ہوکر لڑ رہی ہیں لیکن طالبان چھوٹے ہتھیاروں سے دشمن قوتوں کے دانت کھٹے کرنے میں کامیاب ہو گے ہیں۔ اللہ اکبر۔ طالبان کی اللہ کی طرف سے مدد ہو رہی ہے۔ اور انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ امریکن بھی روسیوں کی طرح دُم دبا کر بھاگیں گے۔ افغان باقی کو ہسار باقی ۔ الحکم للہ والملک للہ
امریکہ اور اس کے حواری جتنا مرضی زور لگا لیں وہ افغانستان میں کبھی کامیابی کا سوچیں بھی نہ۔ دنیا کے سامنے ایک معجزے سے کم نہیں ہے کہ آج دنیا کی ساری طاقتیں نہتے طالبان سے جدید اسلحہ سے لیس ہوکر لڑ رہی ہیں لیکن طالبان چھوٹے ہتھیاروں سے دشمن قوتوں کے دانت کھٹے کرنے میں کامیاب ہو گے ہیں۔ اللہ اکبر۔ طالبان کی اللہ کی طرف سے مدد ہو رہی ہے۔ اور انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ امریکی بھی روسیوں کی طرح دُم دبا کر بھاگیں گے۔ افغان باقی کو ہسار باقی ۔ الحکم للہ والملک للہ
حسين ساگر جھيل کے کنارے اتوار کی شام جبکہ موسم بہت زيادہ خوشگوار تھا پرسادس کے فور اسکرين والے انتہائی عصری ملٹی پلکس آئی ميکس کے ايک اسکرين پر اوتار تھری ڈی کا ہندی ورشن چل رہا ہے جبکہ اسکرين ٹو پر انگلش ورشن دکھائی جارہی ہے۔ بڑی دير تک ميں ٹکٹ گھر پر کٌڑا سوچتا رہا پھر نہ جانے کيوں اسی عمارت ميں واقع ميک ڈونلڈس کی طرف اپنے آپ ہی ميرے قدم بڑھتے چلے گئے - وہاں گرما گرم کافی سے لطف اندوز ہونے کے بعد اسی احاطے ميں لگی مختلف دکانوں ميں ونڈو شاپنگ کرتا ہوا ميں گھر لوٹ گيا گو کہ فلم کی خاصی پبلسٹی کی گئی ہے مگر يہاں ايسی کوئی ايسی بات نظر آتی کہ اس ميں اپنايت محسوس کی جاسکے پتہ نہيں کيوں يہ مووی آپ کو جانی پہچانی لگتی ہے - پتہ نہيں کيوں اس ميں آپ افغانستان کے حالات کو ڈھونڈتے ہيں پتہ نہيں کيوں آج بھی ہميں علامہ اقبال کی نظموں سے عزم مصمم، عمل پيہم جيسی باتوں کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اسلام ميں نہ شدت ہے اور نہ ہی جذباتيت بلکہ اس ميں ايک مکمل ضابطہ حيات ہے اور افسوس کہ ہم مسلمانوں ميں يہی ضابطہ ديکھنے کو نہيں ملتا۔ کاش کہ ہم ضابطہ حيات کو زندگی کا حصہ بناليتے تو پھر شاءيد اس طرح کی فلموں يا پھر حالات سے ہميں انسپريشن کی شايد ہی ضرورت محسوس ہوتی۔
محترم ہارون صاحب- جس دن شمالی اتحاد نے امريکہ کی مدد سے کابل پر قبضہ کيا، اس دن ميں، ٹورنٹو ميں ايک افغان اسٹور پر کچھ خريداری کے ليے گيا- اس وقت وہاں پر کافی افغان اکٹھے ہوئے تھے اور وہ سب آپس ميں مبارک سلامت کر رہے تھے، اور جو لوگ بھی آ جا رہے تھے، سب خوشی کا اظہار کر رہے تھے- جبکہ ميں ايک پاکستانی ہونے کے ناطے اور آپ صحافيوں کی تحريروں کی بدولت کچھ افسردگی محسوس کر رہا تھا- اسٹور کا افغانی مالک،جو ميرا دوست ہے، ميری افسردگی بھانپ گيا، تو ميرے ساتھ ہمدردی کرنے لگا- اسکے بقول ٹورنٹو ميں پچاس ہزار کے قريب افغان رہتے ہيں اور ان کی اکثريت نہايت خوش ہے، کيونکہ وہ اسے پاکستان کي شکست ديکھ رہے تھے- جنہوں نے خود تو افغانوں کو لڑوا کر اپنے محل کھڑے کر ليے جب کہ ان پر طالبان نامی عفريت مسلط کر دی - يہی وجہ ہے کہ ايک بھی افغان کبھی کسی امريکہ مخالف مظاہرے ميں نہيں نکلا- جبکہ سربيا کے خلاف امريکي جنگ ميں مقامی سربوں نے آسمان سر پر اٹھا ليا تھا- پاکستاني دوستوں سے بات کرو تو وہ ايسے افغانوں کو اسلام دشمن اور بھارت نواز کہہ کر بات ختم کر ديتے ہيں- ميرا کہنے کا مقصد صرف يہ ہے، کہ ہم پاکستانيوں کو سچ سننا کب نصيب ہوگا، اور يہ کيسے پتہ چلے گا کہ افغانوں کي اکثريت کيا چاہتي ہے؟-
امريکہ کا کچھ بھی انجام ہو، دم دبا کر بھاگے يا دھوتي چھوڑ کر، وہ کون سا ہمارا سگا ہے کہ اس کا افسوس کريں، بلکہ خوشی ہوگی، ليکن ان ظالمان کی جيت کبھی نہيں ہونی چاہيے- ان ظالمان کے ظلم کا ہر روز مشاہدہ کرنے کے بعد بھی جو ان کی جيت کی تمنا کرتا ہے، اسے نہ تو اپنے ملک اور قوم سے پيار ہے اور نہ ہی اپنے آپ سے- اپنے معصوم بچوں کے جسموں سے بم باندھ کر اور بے گناہ لوگوں کے پرخچے اڑا کر دشمن کو ڈرانے کی نرالي ترکيب، کسی انسانی دماغ ميں تو نہيں آ سکتي ہے۔
آپ اسے افغانستان، عراق، فلسطین یا پاکستان سمجھیں۔ امریکی ڈائریکٹر جیمز کیمرون کو سلام جنہوں نے اس علامتی فلم سے بڑی جنگی مشینری کو غصہ دلا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آسکرز جنگ کا دفاع کرنے والی فلم ہارٹ لاکرز کو ملے۔
کچھ تبصروں میں ہارون رشید صاحب کا موازنہ محمد حنیف صاحب سے کیا جا رہا ہے اور محمد حنیف صاحب کو دبے دبے الفاظ میں ‘استعماری ٹاؤٹ‘ گردانا جا رہا ہے جبکہ ہارون رشید صاحب کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے جو کہ خاکسار کی نظر میں درست نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے بجائے گہرا غوطہ کے سطحی غوطہ لگا کر حاصل کلام نکالا گیا ہے۔ محمد حنیف صاحب کے ‘مودودی کا کھڑاک‘ سیریز کے دس بلاگز کو ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے قطع تعلق ہو کر پڑھا جائے تو یہ بلاگز کم از کم پاکستان کے اندرونی خلفشار اور ہمسایہ ممالک کے خلاف عوام میں سرایت کیے گئے جذبات کی سو فیصد درست نمائندگی کرتے ہیں۔ ہارون رشید صاحب کے بلاگ ہذا کو ‘حقیقت پسندی کا نمونہ‘ سمجھنے والے اگر بلاگ ہذا کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو اس بلاگ کی اکثر سطور خصوصآ درج ذیل سطر کو پڑھ کر ہارون رشید صاحب کو ‘دو محمد حنیف‘ کے برابر سمجھنے لگیں گے کہ مجموعی طور پر بلاگ میں جبکہ اس سطر میں لفظ ‘مقامی آبادی‘ پر غور کرنے سے ‘طالبان‘ اور ‘افغان عوام‘ کو ایک ہی لڑی میں پرو کر ‘مظلوم‘ کو ‘ظالم‘ بنا دیا گیا ہے:
جہاں تک امريکہ کے حواری ہونے کا تعلق ہے، يہ طعنہ کچھ سجتا نہيں۔ کيونکہ آج تک تو کوئی ايسا شخص نہيں ديکھا، جسے يہ اعزاز نہ ملا ہو۔ مسئلہ صرف يہ ہے کہ پرانے حواريوں کو ايسی چاٹ لگی ہے کہ کھا پی کر بھی ريٹائر ہونے کا نام نہيں لے رہے۔ امريکہ پر تو بس نہيں چلتا، تازہ تازہ حواريوں کے پرخچے اڑا رہے ہيں- کتنا فرق ہے پرانے حواريوں اور نئے حواريوں ميں، کہ پيدل مارچ کرنے والوں کو لينڈ کروزر، جنہيں گھر والے سبزی نہيں پوچھتے تھے، وہ ايسے معزز ہوئے کہ باڈی گارڈوں کے جلوس ميں پھرنے لگے- جبکہ موجودہ دور کے نئے حواری اتنے بدقسمت ہيں کہ اپنے بچوں کے لاشے اٹھائے ہسپتالوں ميں خوار ہو رہے ہيں اور کوئی پوچھتا نہيں۔
يقينا اپنے گھر کے دفاع ميں اپنی جان تک نچھاور کرنے ميں دير نہ کرنا ہی ايک قومی جنگ کہلاتی ہے جيسا کہ بلوچستان۔
اور يہ کہانی بلوچستان کی بھی ہے۔
ماشاءاللہ ہارون صاحب آپ نے واقعی درست طرف اشارہ کيا- مستقبل ميں کيا ہوگا يہ تو وہی جانتا ہے ليکن اندازہ ہے ميرا کہ وہی ہوگا جو روس، سکندرِ اعظم، تاتاريوں، برٹش امپائر وغيرہ کے ساتھ ہوا تھا۔ دير شايد اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ اللہ تعالی انہيں مہلت دے رہا ہے کہ لگا ليں جتنا زور لگا سکتے ہيں۔ جنہوں نے عبرت پکڑ کے سدھرنا ہے وہ سدھر جائیں۔ ميں نے کچھ بھائيوں کے اعتراضات بھی پڑھے ہيں جو کہ بہت مايوس دکھتے ہيں۔ ان کےليے يہی عرض کروں گا کہ بھائی عزت دينے والی ذات نے ہارون بھائی کو چنا مجھے يا آپ کو نہيں تو کوئی وجہ ہوگی۔ اس ليے دوسروں پر تنقيد کے بجائے دل سے خوش ہوں تاکہ اللہ تعالی ہميں بھی ايسی عقل اور عزت دے-
ہرکوئی فلم اوتار کا ہيرو بنا ہوا ہے۔ کو ئی بھی اس فلم کی کہانی ميں جو پيغام ہے اس کو نہيں سمجھ رہا۔ اس فلم ميں اتحاد آپس ميں محبت اتفاق و انصاف کا پيغام ہے۔ يہ چيزيں آگر کسی قوم ميں ہوں تو اس قوم کو کوئی بڑی سے بڑی طاقت غلام نہيں بنا سکتی۔ اب ان کو ديکھيں جو اس فلم کا موازنہ افغانستان سے کر رہے ہيں کيا افغانستان ميں اتحاد نام کی کوئی چيز تھی ہر ايک اپنا لشکر بنائے ہوئے تھا۔ اپنے ہی شہر کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کيلئے اپنے ہی لاکھوں ہم مذہب ہم وطنوں کا خون بہا کر جشنِ فتح منايا جاتا تھا۔ ان کے ہمدردوں کا مقدر رسوائی ہوگی جيسا کہ پنڈی اور لاہور کے عوام سے انہيں ملی ہے۔ اس لیے تو کہتے ہيں جمہوريت بہترين انتقام ہے۔
شکر ہے بی بی سی نے یہ تو مانا کہ افغانستان میں دہشت گرد نہیں طالبان لڑے رہے ہیں۔ ویسے نجیب الرحمان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کیا امریکہ کے پاس یہ ساری ٹیکنالوجی ویتنام کے دنوں میں بھی تھی مگر وہ ’’لوکل وزڈم‘‘ کا مقابلہ نہیں کر سکا اور اب آپ اپنی آنکھوں سے امریکہ کو افغانستان میں آئندہ چند سالوں میں شکست کھاتے دیکھیں گے تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ ہمارے کچھ بلوچ بھائیوں نے اس بلاگ پر اپنی آرا دی ہیں میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں مگر انہیں بتاتا چلوں کہ افغانستان اور امریکہ کا مسئلہ مختلف ہے جبکہ بلوچستان ہمارے وطن کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا! انشااللہ۔ اگر ہمارے مابین مسائل ہیں تو انہیں بات چیت سے حل کرنا ہوگا اور اب تو حالات کافی بہتر ہو گئے ہیں۔ اب تو اختلافات کو بھول جانا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔
آخر امریکہ کب تک طاقت استعمال کرکے تیسری دنیا کے انسانون کو غلام بنانے کی کوشش کرتا رہے گا؟ ان کے حقوق اور ریسورسز کو غصب کرنے کے لئے نت نئے جنگی طریقے اختیار کرتا رہے گا. فتح آخر ان مقامی آْبادیوں کو حاصل ہونا ہی ہے۔
‘ممکن ہے باغ کو بھی نکلتی ہو کوئی راہ
اس شہر بے شجر کو بہت بے ثمر نہ جان‘
(بلوچستان ہمارے وطن کا حصہ ہے اور ہميشہ رہے گا!)
جناب ابرار صاحب اگر تاريخ سے واقفيت نہيں تو الگ بات ہے۔ آج بلوچستان ميں جاری آزادی کی جنگ بلوچ کے اتحاد سے ہی ممکن ہوی تھی۔ جو قوم چار جنگوں ميں شکست کے بعد ايک بار پر کمر بستہ ہے 27 مارچ 1948 کو بلوچ آزاد مملکت پہ شبِ خون مارنے سے بلوچ قوم کی سوچ کو قيد نہيں کيا جاسکا اور اوتار فلم ہو کہ تاريخ کے اوراک بہ زورِ شمشير کسی بھی قوم کو غلام بنانا ممکن ضرور ہے مگر شعور غلامی کو ختم کرنا ممکن نہيں۔ يقينا اس فلم ميں فطری نتيجے پر پہنچنے يا انسانی تاريخ مشاہدے نے اسے قابلِ بحث بنايا ہے۔
یہ حقيقت ہے کہ امريکہ اور اتحادی افواج کی جنگ افغان عوام کے ساتھ نہيں ہے بلکہ يہ جنگ ان دہشت گردوں کے خلاف ہے۔ امريکہ کی افغانستان ميں موجودگی کا مقصد عوام کو طالبان کے ظلم، دہشت گرد یا انتہا پسندی سے نجات دلانا اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔ امريکہ اپنے اتحاديوں کی مدد سے اپنے بيشتر تعميراتی منصوبے پايہ تکميل تک پہنچا چکا ہے اور مزيد پر کام جاری ہے۔ ہم نے افغان عوام کی مدد کی تاکہ وہ اپنے نمائندے منتخب کريں اور حکومت تشکيل ديں تاکہ تعمير نو کا عمل دوسرے شہروں تک پھيلے اور عوام پرامن زندگی گزار سکيں۔ آپ اقوام متحدہ کی رپورٹ پڑھيں تو آپ کو اندازہ ہوجاے گا کہ طالبان نے کس طرح حقوق انسانی کی پامالی کرتے ہوے شہريوں کو نشانہ بنايا۔ انھوں نے ايک سو پچاس (150) مملکتی اداروں ـ بشمول (22) اسکول (4) (ميڈيکل سنٹر (65) پاور اسثيشن (22) پُل اور (21) ٹيليفون انٹينا پر حملے کيے۔ اس کے باوجود امريکہ نے بلين ڈالرزتعميراتی پراجيکث پر صرف کيے جس ميں 680 اسکولوں کی تعمير بھی شامل ہے۔
ان اعداد و شمار کی روشنی ميں کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ کون افغانستان کی تعمير کررہا اور کون تباہ کر رہا ہے۔
يہ بات واضح رہے کہ امريکہ افغانستان پر قابض ہونا نہيں چاہتا بلکہ اس کا مشن القاعدہ کا نيٹ ورک ختم کرنا، لوگوں کی مدد کرنا ہے تاکہ افغان عوام بين الاقوامی مدد سے ترقی کرسکيں۔ ظہير يوسف
يو ايس سنٹرل کماند DET