| بلاگز | اگلا بلاگ >>

شریف' طالبان'

ہارون رشید | 2010-03-19 ،12:45

طالبان میں مختلف قوموں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد آغاز سےہی تھے۔ یہ کبھی بھی محض پشتون تحریک نہیں رہی تھی۔ ہاں پشتون اکثریتی ضرور تھی۔

لیکن آج کل کے اخبارات پڑھنے سے لگتا ہے یہ شدت پسند تحریک بھی ہماری دائمی نسلی تقسیم کا شکار ہوگئی ہے۔ بیرون ملک آپ چلے جائیں تو کہیں بھی آپ کی قوم یا مذہب کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کس قوم یا مذہب سے ہیں۔ ہاں شناخت کے لیے نام ضرور پوچھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو اچھا اگر آپ پشاور سے ہیں تو دوسرا سوال ایک پٹھان کا ہمیشہ یہی ہوگا: کیا خاص پشاور کے؟ اس کا مقصد اس بات کا تعین کرنا ہوتا ہے کہ آپ پٹھان ہیں یا پھر ہندکو بولنے والے۔ تقریباً یہی حال پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی ہے۔

اسی ذہنیت کا شکار آج کل طالبان کو بھی کیا جا رہا ہے۔ ہماری لوگوں کو ان کی قومیت اور زبان کی بنیاد پر جاننے کی کوشش سے وہ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پنجابی طالبان کے بعد خدشہ ہے کہ جلد سندھی اور بلوچی طالبان کے نام بھی سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ بھی کوئی اتنی زیادہ شاید حیران کن بات نہ ہو۔ لیکن اصل مسئلہ شروع ہوگا جب یہ تقسیم چوہدری طالبان، جٹ طالبان، جتوئی طالبان، ابڑو طالبان، شیخ طالبان، اچکزئی طالبان، وزیرطالبان، اور شریف طالبان جیسے نام سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ویسے شہباز شریف کے تازہ متنازعہ بیان کے بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو تو کم از کم یقین ہو چلا ہے کہ اس کا کوئی زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:32 2010-03-19 ,Ali :

    اب لوگ نئی سیاسی جماعتیں بنائیں گے۔ نون طالبان، پیپلز طالبان اور متحدہ طالبان۔ چلیں میڈیا کو کہانیوں کے لیے مواد مل جائے گا۔

  • 2. 17:15 2010-03-19 ,Dr Najam Russia :

    جناب ھارون رشيد صايب شھباز شريف بر الزام لگانے سے پہلے 2010-03-18 کے جنگ اخبار ميں حامد مير صايب کے کالم کو پڑھتے

  • 3. 17:18 2010-03-19 ,محمد ابرار :

    ظالم،جاہل،جابر،قاتل،مسلمانوں پہ لگا بدنماہ داغ،علم کےدشمن،حيوانيت ،ديست کی علامت اور خوارج کی نئی شکل يہی ان کی شناخت ہے يہ ہی ان کی پيچان ہے ايسے لوگ ہر قوم ہر قبيلے ميں ہوتے ہيں جب يہ مل جائيں تو بن جاتے ہيں طالبان

  • 4. 17:32 2010-03-19 ,دريا خان :

    خو ، کيا بات کرتا ہے برادر - گلاب کو جس نام سے بھی پکارو ، گلاب رہے گا -

  • 5. 18:30 2010-03-19 ,sana khan :

    ہارون صاحب طالبان کی بات چھوڑیں اور کوئی نئی خبر بتایا کریں۔ یہاں پاکستان کا تو گھر گھر طالبان سے بھرا ہوا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے اندھیرے میں کھانا بنانے میں ذرا دیر ہو جائے تو اچھے بھلے شریفوں میں فورا طالبان باہر نکل آتا ہے۔

  • 6. 18:34 2010-03-19 ,ابراہيم کنبہر اسلام آباد :

    بيشک دنيا ميں آپ سے کوئی نہيں پوچہتا کہ آپ کون ہيں، وہ پہچان کے لئے آپ سے نام پہچوتے ہيںـ ہماری بہی خواہش تو يہ ہی ہے کہ ہم سے کوئی نام ہی پونچہ کر گذارا کرے اور گذارنے بہی دے ليکن پاکستان کے موروضی حالات ميں يہ سب اس لئے ممکن نہيں کہ ہم نسل کی شناخت کے بغير رہ سکيں يہ کام تو رياست کا ہے نہ وہ اس کے رہنے والوں کو وہ کچہ دے کہ اس کے شہری بس اس کا وہ شہری بن جائے جو فقط اپنے نام سے ہی پہچانا جائے اور اس کے نسل بتانے کی ضرورت پيش نہ آئے ـ اب تو حالات ايسے ہيں کہ رياست اور کچہ نہيں ديتی تو کيا اپنی نسلی پہچان کو بہی پيچہے چہوڑاجائے کيا؟طالبان کی بات تو بعد کی ہے ہم پہلے اپنی بات کر ليتے ہيں ـ ہم پاکستانی ہيں ليکن سب سے پہلے تو ہم وہ ہيں جس آبا و اجداد کی نسل سے ہم ہيں ملک کی بڑی اکثريت اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ سب سے پہلے سندہي، پنجابي،پختون اور بلوچ ہيں اس کی بعد پاکستانی ہيںـ کيا ہم اس سے اختلاف کريں گے يا ان کو جينے کے حق سے محروم کريں گے؟اب بات رہی طالبان کی اس ميں تو ابڑو ہو يا شيخ ، جٹ ہو يا جتوئی وہ تو وہ ہی رہيں گے ـ اس آمريکی سوچ کی بہی مذمت کرنی چاہئے جب وہ اپنی مفادات کی تحفظ کے لئے اچہے اور برے طالبان کی بات کرتے ہيں ـميں تو اس نظرئے کا ہوں کہ طالبان طالبان ہوتے ہيں کيا اچہا کيا براـ اگر وہ دہشتگرد ہيں تو بس پہر ان ميں سے آپ کس طرح آپ خراب اور اچہے دہشتگرد ڈھونڈيں گےـ

  • 7. 19:27 2010-03-19 ,خاور کھوکھر :

    میرے خیال ميں طالبان کی جو قسمیں آپ نے لکھی ہیں یہ بنیں گی تو ضرور لیکن ابھی نہیں انقلاب کے بعد۔ خونی انقلاب جس کے بعد پاکستان پر استعمار کا قبضہ ختم ہو کر طالبان اسلام کے نام پر قابـض ہوں گے اور پھر آپس میں لڑ کر دکھائیں گے۔ لیکن میرے تجزیے میں وہ وقت آنے والا ہے جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے۔
    بس
    زیادھ سے زیادہ چند سال لگیں گے۔

  • 8. 19:41 2010-03-19 ,جاہل اور سنکی، جہالستان :

    لگتا ہے کہ ہارون صاحب طالبان اور امریکہ دونوں کی کارکردگی سے مطمعن نہیں۔ پاکستان کو پتھر کے زمانے پہنچا کر چھورنے کا اوریجنل آئیڈیا پتا نہیں کس کا ہے مگر لگتا ہے کہ طالبان اور امریکہ نے مل جل کر یہ کام کر کے ہی چھوڑنےکا ارادہ کافی عرصہ پہلے ہی کرلیا تھا۔ امریکہ کے خیال میں طالبان پاکستان کو ایک جہالت سے بھر پور پتھر کے دور میں لیجانا چاہتے ہیں اور وہ طالبان کو ایسے کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے خیال میں امریکی پاکستان کو دوسری جہالت سے بھر پور پتھر کے دور میں لیجانا چاہتے ہیں اور وہ امریکہ کو ایسے کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اب جبکہ طالبان امریکہ مشترکہ پراجیکٹ کی سست روی سے پریشان ہماری حکومت خاتمہ سبسڈی مہم میں جو تیزی دکھا رہی ہے پتھر کا دور لگتا ہے واقعی زیادہ دور نہیں۔

  • 9. 19:46 2010-03-19 ,علی گل ، سڈنی :

    ميں نہيں سمجھتا کہ يہ نوبت آئے گی کہ طالبان ذاتوں ميں سرايت کريں ليکن ان کے وجود کی وجہ عام آدمی کی رائے اور سوچ پر معاشرتی پابندی ہے جو کہ نيم ملاں کی پيدا کی ہوئی ہے۔ مغربی ملکوں ميں چونکہ عيسايت کی اکثيريت ہے اور يہ مذہب کسی کی زبان يا سوچ دبانے کو حقوق انسانی کی خلاف ورزی سمجھتا ہے اس ليے لوگ ان باتوں ميں دلچسپی لينا وقت کا ضياع سمجھتے ہيں جبکہ پاکستان ميں جن لوگوں کے پاس کام نہيں يا کام کرنا نہيں چاہتے وہ ان نظريات اور دشمنيوں کو بحثيت انٹرٹينمنٹ کے ليتے ہيں۔ کيونکہ مغربی ملکوں والي انٹرٹينمنٹ ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ جو بچے غیرمعیاری سکولوں ميں پڑھتے ہيں ان کی شرح طالبانی ان بچوں سے قدرے زيادہ ہوتی ہے جو اچھے سکولوں ميں تعليم حاصل کرتے ہيں۔

  • 10. 19:54 2010-03-19 ,iftikhar :

    ہارون رشید صاحب ہماری نسلی تقسیم تو پہلے ہی ہوچکی ہے۔ حال ہی میں پاکستانی نژاد برطانوی بچے کےاغوا اور پھر بازیابی ک وپورے میڈیا کی کوریج اور صدر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی بھرپور توجہ تو حاصل رہی، لیکن غریب والدین کی دو، ڈھائی سال کی معصوم بیٹی فریحہ کے اغوا اور پھر قتل کا معاملہ میڈیا کے کوریج اور ارباب اقتدار کی توجہ دونوں سے محروم رہا۔ یہ واقعہ چند دن پہلے کا ہے جب چارسدہ کے ایک گاوں بٹگرام سے دو سالہ فریحہ کو تاوان کے غرض سے اغوا کیا گیا اور والدین سے چار لاکھ روپے کا تاوان مانگا گیا۔ لیکن والدین چند دنوں میں رقم کا بندوبست نہیں کر سکے، اور ساحل کی بازیابی سے صرف ایک دن پہلے اس کی لاش پاس کے ایک گاوں سے ملی۔ اگر فریحہ کے والدین بھی امیر ہوتے تو شاید رقم کا بندوبست کر کے یا حکام بالا تک اپنی آواز پہنچا کر اپنی پھول جیسی بچی کو بچا لیتے-

  • 11. 2:52 2010-03-20 ,ابراہيم کنبہر اسلام آباد :

    يہ بات سمجھنی ضرور ہے کہ طالبان شریف ہيں يا شريف طالبان ہيں۔ کہنے والے تو يہاں تک کہتے ہيں کہ شريفوں اور طالبان کا رشتہ پرانا ہے، اس لئے وہ سب سے بڑی مثال تو طالبان حکومت کو تسليم کرنے کے والوں کی دے کر کہتے ہيں کہ کس نے سب سے پہلے طالبان حکومت کو تسليم کيا؟ اب يہ کہنا بھی درست نہيں کہ آپ طالبان کی حکومت تسليم کرنے والوں کو نجيب کی قاتلوں کا حامی سمجھ بيٹھيں۔ چلو يہ مان بہی ليا جائے کہ وہ وقت کا تقاضا تھا۔ شريفوں پر الزام لگانے والوں سے ہماری جنگ جاری تھی کہ ايسا بيان آ گيا کہ ہميں نہ فقط اپنے ہتھيار پھينکنے پڑ گئے ليکن ہماری آنکھيں کھل گئيں کہ يہ ہو کيا رہا ہے اور پھر ہميں يہ بات بھی سمجھ ميں آ گئی کہ اميرالمومنين کون اور کيوں بننے جا رہا تھا۔ پھر ہميں طالبان حکومت کو سب سے پہلے تسليم کرنے کی بات بھی پلے پڑ گئي۔ يہ بات سمجھنی ضرور ہے کہ طالبان شریف ہيں يا شريف طالبان ہيں۔ کہنے والے تو يہاں تک کہتے ہيں کہ شريفوں اور طالبان کا رشتہ پرانا ہے، اس لئے وہ سب سے بڑی مثال تو طالبان حکومت کو تسليم کرنے کے والوں کی دے کر کہتے ہيں کہ کس نے سب سے پہلے طالبان حکومت کو تسليم کيا؟ اب يہ کہنا بھی درست نہيں کہ آپ طالبان کی حکومت تسليم کرنے والوں کو نجيب کی قاتلوں کا حامی سمجھ بيٹھيں۔ چلو يہ مان بہی ليا جائے کہ وہ وقت کا تقاضا تھا۔ شريفوں پر الزام لگانے والوں سے ہماری جنگ جاری تھی کہ ايسا بيان آ گيا کہ ہميں نہ فقط اپنے ہتھيار پھينکنے پڑ گئے ليکن ہماری آنکھيں کھل گئيں کہ يہ ہو کيا رہا ہے اور پھر ہميں يہ بات بھی سمجھ ميں آ گئی کہ اميرالمومنين کون اور کيوں بننے جا رہا تھا۔ پھر ہميں طالبان حکومت کو سب سے پہلے تسليم کرنے کی بات بھی پلے پڑ گئي۔

  • 12. 9:10 2010-03-20 ,Matloob Ahmed Malik :

    جناب ہارون رشید صاحب آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت نے پاکستان میں بننے والی صورتحال سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کی تمام کارروائیاں طالبان کے تسلیم نہ کرنے کے باوجود بھی رحمان ملک نے طالبان کے کھاتے میں ڈالی ہیں۔ بھارت کے ملوث ہونے کے کافی ثبوت بھی مل چکے ہیں کبھی ان پر بھی کوئی بلاگ لکھ دیں۔ ویسے پاکستان میں آج جو بھی ہو رہا ہے سب مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ امریکہ کو پاکستان میں اڈے نہ دیتا اور افغانستان میں حملے میں مدد نہ کرتا تو صورت حال برعکس ہوتی۔ خیر اللہ بہتر کرے گا۔

  • 13. 11:03 2010-03-20 ,مصد ق خان نيازی ميانوالی :

    صاحب جی اچھا لکھ ليتے ھيں۔ بال کی کھال اتارنے میں آپ کا بلاگ بھی پاکستانی ميڈيا کے مشابہ لگ رہا ھے۔ بات کچی لسی کی طرح بڑھائيں تو بہت دور تک جاۓ گي۔ پھر ہمارے مہربان حکومتی وزراء جو دہشت گردوں کو ختم کرنے ميں اپنا سب کچھ لگانا چاہنے کی ظاہری تگ ودو کرنے کی کوشش کررہے ہيں طالبان کی تخليق ميں اھم کردار کوئی پوشيدہ نہيں۔ پھر انہيں کہیے گا پرانے پيپلز طالبان، بينظر بريگيڈ حاليہ امير مولانا آصف علی زرداری۔

  • 14. 14:22 2010-03-20 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ہ خیال رکھنا سراسر ‘استعمار نوازی‘ کے مترادف ہے کہ ہمیں بیرون ملک کوئی نہیں پوچھتا کہ ہم کس قوم، مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف نام سے شناخت کا کام لیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر بی بی سی کے ملک یعنی برطانیہ اور امریکہ میں موجود پاکستانیوں خصوصآ طلباء کی شامت نہ آتی۔ انہیں مختلف الزامات کے تحت قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ ہی یہ’ ڈی پورٹ‘ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرون ملک لوگ اب ہماری شناخت ہی ‘مذہب‘ سے کرتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کے نزدیک ‘نیو ورلڈ آرڈر‘ کے پس منظر میں جاری ‘وار آن ٹیررازم‘ کا ایک عنصر ہے۔ اگر بیرون ملک لوگ صرف نام ہی سے شناخت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان میں ‘نسل پرستی‘ سرے سے موجود ہی نہیں۔ جہاں تک بات ہے پٹھان اور خالص پشاور کے پٹھان کی، تو اس کا مقصد ‘تعمیری‘ ہوتا ہے نہ کہ ‘تخریبی‘۔ وجہ یہ کہ پاکستان میں ‘جعل سازی‘ بہت بڑھ گئی ہے، کھرے اور کھوٹے میں پہچان کرنا بہت مشکل ہے۔ کمی کمین ذاتوں کو منفی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نتیجتا ان میں ‘احساسِ کمتری‘ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انہیں معاشرہ میں وہ عزت و احترام نہیں ملتا جو کہ بحثیت انسان کے ملنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نائی، بھٹی، تیلی، برڑ، چنگڑ وغیرہ جیسی ذاتیں پڑھنے سننے کو نہیں ملتیں بلکہ ان ذاتوں کے ‘جدید نام‘ ہی فخر سے لکھے پڑھے اور بتائے جاتے ہیں۔ کل کو اگر سندھی طالبان، بلوچی طالبان، پٹھان طالبان، ہندو طالبان، شیو سینا طالبان، سکھ طالبان، خالصتان طالبان پیدا نہیں بلکہ ضرور ‘اناؤنس‘ کیے جائیں گے، اور ردعمل کے طور پر یہ ازخود ‘پیدا‘ ہو جائیں گے کہ عزت کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ لیکن ان سب طالبان کے پیچھے وہی ہے اور ہوگا جس نے ‘ابتداء‘ کی تھی، جو پیدا کرتا ہے وہ مار بھی سکتا ہے۔ یعنی جس نے ‘سوشلزم‘ کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے ‘شریف طالبان‘ اصطلاح متعارف کروائی اور اب اسی کی نظر میں ‘شریف طالبان‘ نے ‘دہشت گرد طالبان‘ کا رنگ روپ پکڑ لیا ہے جب ابتدا ہی ایسی ہو تو انتہا کیوں کر ایسی ہی نہ ہو گی۔

  • 15. 14:43 2010-03-20 ,Dr Alfred Charles :

    ہارون صاحب! طالبان کی يہ تفريق شروع سے ہی ہے۔ يہ اس وقت نماياں ہوئی تھی جب عالمی چوہدری امريکہ بہادر سرکار نے دنيا بھر سے لوگوں کو سوويت يونين کے خلاف جنگ کے ليے جمع کيا تھا۔اس وقت جذبہ شہادت سے سرشار ازبک، عرب، تاجک، پشتون سبھی کے زور بازو کو بخوبی استعمال کيا گيا۔جب آخری سوويت فوجی حسرت کی تصوير بنے دريائے آمو پار کر گيا اور امريکہ کو يقين ہوچلا کہ سوويت يونين کو گرم پانيوں تک رسائی سے روک ليا گيا ہے تو اس نے جذبہ جہاد وشہادت سے سرشار لوگوں کو باز آنے کا کہا کہ اب يو ٹرن لے لو تو يہ تفريق سامنے جس ميں اب روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

  • 16. 17:31 2010-03-20 ,fawwad :

    ان سب باتوں کے بعد یقینا کیتھولک طالبان، پروٹیسٹنٹ طالبان کی باری ہے۔

  • 17. 23:23 2010-03-20 ,DR HUMA UK :

    ہارون بھائی آپ نے بڑا اچھا بلاگ لکھا ہے۔ لیکن پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے وہاں تو ایسی کھچڑی پکا کر مشرف ملک سے بھاگا ہے کہ کافی عرصہ تک اس کے اثرات باقی رہیں گے۔ دوسرا طالبان کی بات ہے تو اسلامی شدت پسند تنظیموں کا پورے پاکستان میں جال بچھا ہوا ہے۔ جو خود امریکہ کی زیر نگرانی پاکستان نے بنا کر افغانستان میں روس کے خلاف جہادی تیار کیے تھے۔ یہ نام نہاد قسم کے مسلمان جن کو طالبان کا نام دیا گیا ہے چاہے وہ پنجابی ہوں یا پٹھان ان کا نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ علاقہ ان کا بس ایک ہی کام ہے تباہی بربادی قتل و غارت۔ شاباش پاکستان آرمی کے جوانوں کو جنہوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ دے کر سوات اور جنوبی وزیرستان میں طالبان کا زور توڑا ہے۔ پاکستان زندہ باد۔

  • 18. 7:04 2010-03-21 ,اکمل :

    جناب ہارون صاحب آپ ايک نہايت اہم بات بھول گے۔ وہ يہ کہ آپ نے کبھی محسوس کيا ہے کہ جب کسی مجرم کو پکڑا جاتا ہے تو حکومت، اخبارات اور ٹی وی سب يہ کہتے ہيں کہ مجرم پٹھان تھا يا پشتو بولنے والا تھا جبکہ آپ سب يہی کہتے آرہے ہيں کہ مجرم کا کوئی مذہب اور قوم نہيں ہوتا اور يہ سب کسی اور کے ساتھ نہيں ہوتا پھر آپ کہتے ہيں کہ پٹھان يہ پوچھتا ہے کہ آپ پٹھان ہو يا نہيں؟

  • 19. 10:08 2010-03-21 ,Muhammad Nawaz :

    ناجانے کیوں لوگ شیشہ دیکھنے سے گھبراتے ہیں۔

  • 20. 7:16 2010-03-22 ,farhad khan :

    آج پاکستان کا جو حالات ہیں اس سے تو طالبان کا وہ پرانا نظام ہی اچھا تھا۔

  • 21. 7:39 2010-03-22 ,Mir Tauseef :

    جب جب مش اور زرداری آئیں گے
    تب تب دہشت گرد طرح طرح کے نام بدل کے چھائیں گے۔

  • 22. 2:20 2010-03-23 ,خالد :

    پاکستان ميں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور شدت پسندوں کی پشت پناہی کے ليے بھی شريف طالبان برادران پيش پيش ہيں۔

  • 23. 11:56 2010-03-23 ,Muhammad :

    گھٹن محسوس ہو رہی ہے تنگ نظری دیکھ کر ...محمّد حنیف کہاں ہے؟ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد ...

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔