سامراجی سوچ کے امریکی فوجی
خفیہ سرکاری اور غیر سرکاری معلومات کو منظر عام پر لانے والی ایک امریکی ویب سائیٹ، وکی لیکس نے امریکی فوجیوں کی جانب سے دوہزار سات میں بغداد میں عام لوگوں پر اپاچی ہیلی کاپٹر کے ذریعے حملے کی ایک وڈیو رکارڈنگ پچھلے دنوں جاری کی۔
وکی لیکس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں خبررساں ادارے رائیٹر کے دو صحافیوں سمیت درجن بھر افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ زخمیوں میں دو بچے بھی شامل تھے۔
اپاچی ہیلی کاپٹر کے گن کیمرا سے بنائی گئی اس وڈیو کو دیکھنے اور اس دوران فوجیوں اور ان کے بیس کمانڈروں کے درمیان گفتگو سے امریکی فوج کاگھناؤنا پہلو سامنے آتا ہے۔ سب سے زیادہ غیر انسانی رویہ کا مظاہرہ فوجیوں نے اس وقت کیا جب چن چن کہ عراقی شہریوں کو ہلاک کرنے کے بعد، فوجی کہتا ہے کہ 'حرامی مردہ پڑے ہیں'۔
ایک اور مرحلے پر جب فوجیوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ مرے ہوئے یا زخمی افراد کو اٹھانے کے لیے جو وین آئی تھی اور جس کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، اس میں دو بچے بھی تھے، تو فوجی کہتا ہے کہ 'یہ تو ان کا قصور ہے کہ وہ بچوں کو بھی میدان جنگ میں لے آتے ہیں۔'
وڈیو دیکھنے سے یہ نہیں لگتا کہ زمین پر موجود عراقیوں کے پاس اسلح تھا یا یہ کہ وہ ہیلی کاپٹر پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ لیکن امریکی فوجیوں نے اپنے بیس کمانڈر کو وائرلیس پر اطلاع دی کہ کچھ لوگوں کے پاس اسلح ہے اور وہ حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، اس لیے انہیں اجازت دی جائے کہ وہ ان کو نشانہ بنائیں۔ اس کے بعد انہیں کمانڈر نے اجازت دی اور پھر۔۔۔
زمین پر قہرام مچ گیا۔ لوگ جان بچانے کے لیے گرتے پڑتے، حواسباختہ ہر سمت میں دوڑنے لگے۔ وڈیو دیکھ کر ایک لمحے کو احساس ہوتا ہے کہ آپ ایک حقیقی واقعہ نہیں دیکھ رہے بلکہ کوئی وڈیو گیم کھیل رہا ہے اور لوگوں کو مارنے کے پوائنٹس ملنے پر تالیاں بجا بجا کر خوش ہورہا ہے۔۔۔ ویل ڈن،گیم اوور۔
اس واقعہ پر امریکی محکمہ دفاع نے کہا کہ اس کی تفتیش کی گئی تھی جس سے یہ سامنے آیا کہ فائرنگ کرنے والے فوجیوں نے تمام فوجی طریقہ کار یا 'رولز آف انگیجمنٹ' پر عملدرآمد کیا تھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ عراق اور افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کے غیر انسانی رویے کی تفصیلات سامنے آئی ہوں۔ اس سے قبل بھی کئی فوجی معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کو بلا اشتعال قتل کرنے اور جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایجنٹوں کی جانب سے القائدہ کے مبینہ اراکین پر ظالمانہ تفتیشی طریقوں کی خبریں بھی ڈھکی چھپی نہیں۔
امریکی افواج اور ایجنٹوں نے سرد جنگ کے دوران لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں جو مظالم ڈھائے ان پر تفصیلی دستاویزات اور کتابیں موجود ہیں۔
صدر براک اوبامہ کہتے ہیں کہ وہ ماضی کے طریقوں کو بدل رہے ہیں اور بلا شبہ انہوں نے اس سمت میں بعض اقدامات بھی کئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کی عدلیہ، انسانی حقوق کے ادارے اور عوام کی ایک بڑی اکثریت ان مظالم کے خلاف ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک سلطنت کی سمت کو فقط ایک شخص بدل سکتا ہے؟
گو دنیا کے کئی ملک کی افواج انسانی حقوق کے چیتھڑے اڑاتی ہیں، لیکن بلند اخلاقی اقدار کے دعویدار سپرپاور کی جانب سے اس نوعیت کے غیرانسانی رویے سے باقی دنیا اور شدت پسندگروپوں کو شہ ملتی ہے اور نتیجہ صرف بے قصور انسانوں کے بے جا خون کا ہی نکلتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
پس ثابت ہوگیا کہ ہر بلند اخلاقی اقدار کے دعویدار سپرپاور نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔
ثانيہ شعيب شادی کی طرح ان امريکيوں کی بھی سرحد پار شادياں کروانی چائيں تاکہ جنيٹک تبديلياں آ سکيں
ان مظالم کو دیکھنے کے بعد ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو امریکہ کو ایک مہذب ملک سمجھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ امریکہ مسلمانوں کی ’’مدد‘‘ کر رہا ہے۔ حقیقتا امریکی حکومت اور فوج انتقام کے جنون میں اندھی ہو کر بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے جس کا خمیازہ انہیں مستقبل میں بھگتنا پڑے گا خواہ اس میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی تہذیب اپنی معراج پر پہنچنے کے باوجود وہیں کھڑی ہے جہاں سو سال پہلے تھی۔ جلیانوالہ باغ ہو یا جنگ آزادی ، کوریا کی جنگ ہو یا ویتنام کا معرکہ ان گوری جمڑی والوں کا وقت اور حالات اور تہذیب نے کچھ نہیں بگاڑا۔
سومرو صاحب!حيرت ہےآپ جيسا باخبر اور پيشہ وارانہ حيثيت کا حامی صحافی بھی بہک گيا۔ کيا آپ نے يہ نہيں سن رکھا کہ محبت و جنگ ميں سب کچھ جائز ہے! کيا اس وڈيو کلپ کے صيح ہونے کی پينٹاگون سے باقاعدہ تصديق کرلی گئی تھی جو آپ نے اسے موضوع بلاگ بنايا ہے؟
لگتا ہے يہ بلاگ امريکہ مخالف قارين کو خوش کرنے کے ليۓ لکھا گيا ہے ۔اچھے برے لوگ تو ہر قوم ميں ہوتے ہيں اور بدقسمتی سے انسانی حقوق کی پامالی ميں آج کے چند مسلمان اور ان کی تاريخ ان کے بدنما کارناموں کی وجہ سے ان چند امريکی فوجيوں کے جرم سے کہيں زيادہ گھناؤنی ہے۔ اگر صدام کے کارناموں کی بھی ويڈو مل جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بن جائے گا۔
آپ صحافی حضرات کو امريکی مظالم تو فورآ نظر آجاتے ليکن جو پاکستانی فورسز 62 سال سے بلوچون پۂ ڈٌا رھی اس پہ مجرمانا خاموشی کيون؟ يی يکطرفہ انسانيت کاڈھونگ بندکيجۓ جناب،،
امريکی فوجيوں کے گھناؤنے کردار کو اجاگر کرنے کے ساتھ آپ ان بے گناہوں کے قصے بھی لکھيں، جو ہر روز پاکستانی فوجيوں کے ہاتھوں مارے جارہے ہيں- کيا صرف امريکہ کے ظلم کے شکار ہونے والے ہی مظلوم ہيں؟
امريكي كارستانياں كيا اور كيسي ہيں، اور عالمي برادري كا دہرا معيار كيا اور كيوں ہے، اس پہ كم و بيش سب ہي كو معلوم ہے۔
ليكن اس بلاگ كا سب سے مزيدار پہلو تو Dr Alfred Charles كے تبصرے پر سامنے آيا ہے۔
موصوف محترم بلاگر كو پيشہ وارانہ حيثيت کا حامی صحافی كا طعنہ ديتے ہيں اور بتاتے ہيں كہ محبت اور جنگ ميں سب جائز ہے اور يہ كہ كيا بلاگر صاحب نے پنٹاگون سے اس واقعے كي صحت دريافت كي تھي۔ آخر ميں تو ڈانٹ بھي پلائي ہے!
موصوف نے غالباْ اسي بلاگ ميں سہ پڑہنے كي زحمت نہيں كي كہ
"اس واقعہ پر امریکی محکمہ دفاع نے کہا کہ اس کی تفتیش کی گئی تھی جس سے یہ سامنے آیا کہ فائرنگ کرنے والے فوجیوں نے تمام فوجی طریقہ کار یا 'رولز آف انگیجمنٹ' پر عملدرآمد کیا تھا"
بلاگر كا بلاگ تو سمجھ ميں آنے والا ہے، ليكن يہ تبصرہ نا قابل يقين ہے !!
جناب والا يہ ظلم و زيادتی اور کشت و خون کی ھولياں کھيلنے والے مہذب دنيا کے درندے انسانيت کے لےے بدنما داغ کی حيثيت رکھتے ھيں„„مگ کچھ دليلوں اور تاويلوں سے چھپانے کی کوشش کرتے ھيں„کوئ پينٹا گون سے تصديق کے لےے کہتے اور کوئ کسطرح کی بے پر کی ھانکتا ھے ليکن دو لا کھ سے زائد عراقحوں کا لہو اور دس لاکھ تک افغانو ں بربريت کی داستانيں سنا رھے ھيں„„قلعہ جنگي„بگرام„ابو غريب اور گوانتا نا مو بے„دشت ليلی کے قبرستان دور جديد کی عظيم مھز ب مثاليں ھيں„„اگر مگر گروپ کے ليی اور بھی بھت کچھ ھے„„انسانيت کے لےے نا سور پتہ نہيں کب تک بہبو د آبادی کی وزارت سنبھا لے گی
محترم جناب Dr Alfred Charles صاحب، اگر آپ کی بات کو جائز مانا جائے تو پھر تو طالبان بھی ٹھیک ہیں، کیونکہ محبت اور امن میں سب جائز ہے۔ پھر تو 9/11 اور 7/7 بھی ٹھیک ہیں، کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت اور امن میں "سب" جائز ہے، پھر تو کاروکاری اور کوئلوں پر چلنا بھی ٹھیک ہے، کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔۔۔۔۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات و اسباب و رکاوٹیں ہیں کہ امریکی عدلیہ، انسانی حقوق کے علمبرداروں کی دن بہ دن بڑھتی فوج ظفر موج اور عوام کی اکثریت کے تعاون و سپورٹ کے باوجود صدر اوبامہ ‘سامراجی سوچ‘ کو بدلنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے؟ اسکی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ صدر اوبامہ چونکہ ایک سیاستدان بھی ہیں لہذا ان کی نظر آئندہ امریکی صدارتی انتخابات پر بھی ہو گی لہذا وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہیں تاکہ ان کے ووٹرز کم ہونے کی بجائے بڑھیں، گویا ‘مصلحت پسندی‘ پہلی وجہ ٹھری۔ دوسری وجہ ‘یہودی لابی‘ جبکہ تیسری وجہ نیتوں میں خلوص کے عنصر کی کمی قیاس کی جا سکتی ہے۔
صدام کے دور حکومت ميں بھي اتنے لوگ قتل نہ کئے گئے ہوں گے جتنے کہ امريکہ عراق پر حملہ کے بعد کر چکا ہے
يہ امريکی وہی ہيں جنہوں نے کروڑوں ريڈ انڈيننز کا صفايا کس بے دردی سے کيا کے آج وہ لاکھوں ميں بہی نہيں دنيا ميں ايٹمی بربريت کا مظاہرہ کرنے والی واحد قوم يہی ہے اپنے مفادات ميں بےرحمی کی آخری حد تک سفاک قوم سے ہم کچھ بھی توقع کرسسکتے ہيں بعض افراد کے ذہنی ديواليۓ پن پر افسوس بھی ہے کہ وہ اس ظلم کی مذمت کرنے کہ بجاۓ اس کی مدافعت ميں لگے ہوۓ ہيں
ڈاکٹر صاحب کی کيا بات ہے انکے پاس دو عينکيں ہيں
کسي بھي ظالمانہ کاروائي پر ہردل درد محسوس کرتا ہے خواہ وہ سامراج کی طرف سے ہو يا اسکے ہم خيالوں يعنيی چھوٹے چھوٹے سامراجوں کی طرف سے ہو- بہتا ہميشہ بے گناہوں کا خون ہے-جس کا نظارہ آپ نيل کے ساحل سے ليکر تابخاک کاشغر کر سکتے ہيں- سومرو صاحب يہ زمين و آسمان تو خدائے لم يزل و لم يزال کے پيدا کردہ ہيں مگر انسان بجائے اسکے سامنے سر بجود ہونے کے اس زمين پر قابض ہو گيا چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بانٹ کر اپنے آپ کو اس زمين کا مالک اور دوسروں پر حکم چلانے لگا خدا کی اطاعت اور پيغمبروں کی تعليمات بھلا کر تکبر ونخوت شراب و کباب ميں مدہوش ہو گيا- اہل زر اور دولت مندوں کی پوری دنيا پر حکمرانياں قائم ہو گئيں- اب ايسے مدہوشوں کے ہاتھ اگر کرہ ارض پر حکمرانياں چليں گيں تو قتل و غارت اور خون خرابہ کے علاوہ اور توقع بھی کيا کر سکتے ہيں؟
کسی کے ظلم کو جواز بنا کر ايسی ہولناک ظالمانہ اور انسانيت سے گری ہوئی حرکت کا دفاع کرنا يا امريکيوں کی سفاکی کو کم کرکے دوسروں کے ظلم کو بڑھاکر موازنا کرنا کسی طرح بھی انسانی اقدار سے متابقت نہيں رکھتا۔
اگر امريکيوں کي حمايت ميں تبصر ے کرنے والے اس ويڈيو کو مکمل ديکھنے کی زحمت کريں تو ديکھيں اس گاڑی پر کيسی اندھادھند فائرنگ کی جس ميں دو بچے فرنٹ سيٹ پر صاف نظر آرہے تھے بچوں پر وحشيانہ فائرنگ کرکے کس طرح قہقہے لگا رہے تھے يہ چند فوجيوں کا انفرادی فعل نہيں بلکہ امريکی فوج کا يہي طريقہ کار ہے جس کا اظہار امريکي وزارت دفاع نے يہ کہکر ديا کہ اس واقعے ميں شامل فوجيوں نے مکمل رولز آف انگيجمنٹ پر عمل کيا۔
امريکہ ايسی ويڈيو جان بوجھ کر جاری کرتا ہے تاکہ اسکی دہشت قائم ہو کيونکہ وہ دنيا کو بتانا چاہتا ہے کہ اس سے بڑا کوئی دہشت گرد نہيں
امريکی افواج اور ايجنٹوں نے سرد جنگ کے دوران لاطينی امريکہ، افريقہ اور ايشيا ميں جو مظالم ڈھائے ان پر تفصيلی دستاويزات اور کتابيں موجود ہيں ـ ليکن کيا فقط آمريکی فوجی ظالم ہيں ؟ دنيا کے وہ تمام ممالک جن کی فوج اپنے يا پرائے ملک ميں کس بہی آپريشن ميں مصروف وہاں کيا ہوتا رہتا ہے وہ بہی تو ہميں نظر آنا چاہئے ـ آپ ہندستان کی فوج کو ديکہ ليں کشمير ميں اس کا کردار کيا رہا ہے ؟ اسرائيلی افواج نے فلسطينيوں کا جينا حرام کيا ہوا ہے ِ ہماری پاکستانی فوج بہی تو دہشتگردی کے خلاف جنگ ميں ان جيسے واقعات سے ہوتی ہوئی گذرتی ہے ليکن وہ سامنے نہيں آتے ِآمريکی فوج تو بدنام ژمانہ فوج کے طور پر سامنے آ چکی ہے ِ بات بغداد ميں آ کر نہيں رکتی آپ ابوغريب جيل کا منظرنامہ ديکہيں مہذب سماج کہلوانے والے آمريکيوں کی سوچ کی عکاسی اچہی طرح ہوجاتی ہے گونٹاناموبے کا تو قصا ہی الگ ہے _ سپر پاور ملک کی فوج کے کرتوت ديکہ کر ہم جيسے چہوٹے ملکوں کی فوج بہی يہ ہی کچہ سيکہے گی ـ
محترم سومرو صاحب امریکی فوجیوں کی بات چھوڑیں پاک فوگ کے جوان بھی کچھ کم نہین ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ذرا لال مسجد والا قصہ یاد کر کے دیکھ لیں۔
يہ سچ ہے کہ دنيا اچھے لوگوں سے آباد ہے مگر چند برے لوگ بھی ہر جگہ پاے جاتے ہيں، ہم اس بات
کا دعوی نہيں کرتے کہ ہم کامل انسان ہيں ليکن ہميشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے اقدامات کا خود احتساب
کريں اور ماضی ميں ہونيوالی غلطيوں سے سبق سيکھيں۔
اس ميں کوی شک نہيں کہ ويڈيو (وکی ليکس) پر رد عمل فطری ہے، اور اگر کوی اسکا تجزيہ کرے تو يہ بات سامنے آجائيگی کہ اس ويڈيو سے تمام تر تفصيلات نہيں ملتی۔ اس حادثے کی تحقيقات اس وقت امريکی فوج نے کی تھی اور يہ تعين کيا کہ ان صحافيوں کی شناخت نہيں ہوسکی جو مسلح افراد ميں شامل تھے
مزيد برآں ايک شخص کے پاس (آر-پی-جی) لانچر بھی موجود تھا جبکہ امريکی فوج اس وقت فائرنگ کی زد ميں تھی۔ يہ اندوہناک حادثہ اس بات کی علامت ہے کہ صحافی انتہائی خطرات سے دوچار ہونگے ہم ان کی جانوں کے نقصان پرغم کا اظہار کرتے ہيں، ليکن اس کارروائی کا مقصد جان کر شہريوں کو نشانہ بنانا نہيں
تھا- يہ درست نہيں کہ اس واقعہ کو صدام کی ظالمانہ پاليسيوں سے موازنہ کيا جائے-
بہرکيف اپاچی ھيلی کاپٹر ھو یا تمام امريکی فوج ہم کبھی شہريوں پر حملے نہيں کرتے نہ ہی ہماری نيت ہوتی ہے کہ انہيں ہلاک کيا جائے۔ کيونکہ ہم سمجھتے ہيں کہ يہ کارروائی مسلح افواج کے قوانين کے خلاف ہے اور
انتہای سخت حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہيں تاکہ اس طرح کم سے کم تر شہريوں کی ہلاکت ھو-
ظہير يوسف
ڈی-ای-ٹی ( يو-ايس-سنٹرل کمانڈ)
جناب، کوئی بلاگ 'سرائیکستان' اور 'ہزارہ پوٹھوہار' پر بھی تو ہو۔