| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صحرا کی حقیقتیں

اصناف:

آصف فاروقی | 2010-06-11 ، 9:25

جس روز اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جا رہا تھا میں اس روز ضلع مظفر گڑھ سے متصل صحرائے تھل کے ایک دور دراز گاؤں میں تھا۔ اس روز گاؤں کے واحد بڑے درخت کے نیچے رسم قل کا انعقاد کیا جا رہا تھا اس نوجوان خاتون کی جو گزشتہ روز گردے فیل ہو جانے سے انتقال کر گئی تھی۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث گردے کے اس نوعیت کے سنگین امراض اس گاؤں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ موقع کی مناسبت سے اس گاؤں کے مکینوں نے اپنے مسائل میرے سامنے بیان کرنا شروع کر دیے۔

۔ پینے کا پانی گاؤں سے چھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ہر گھر کی ایک عورت صبح سویرے پانی بھرنے نکلتی ہے تو دن چڑھے لوٹتی ہے۔

۔ گزشتہ چند سالوں سے اس صحرا میں اس زور کی بارش نہیں ہوئی جیسا کہ پہلے سال میں کم از کم ایک بار ہوا کرتی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ زیرزمین پانی کی سطح مزید نیچے چلی گئی ہے اور جو تھوڑی بہت کاشتکاری ہوتی تھی اب وہ بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے۔

۔ علاقے سے قریب ترین ڈاکٹر بائیس میل پر ہے۔ گاؤں تک سڑک نہ ہونے کے باعث عموماً مریض لاعلاج ہی رہتے ہیں الا یہ کہ بہت ہی سنگین مرض لاحق ہو۔ ایسے میں اتنا لمبا سفر ویسے ہی مریض کو ہلکان کر دیتا ہے۔

۔ایک غیر سرکاری ادارے نے گاؤں کے قریب پرائمری اسکول تو بنا دیا ہے لیکن اس میں بھی کبھی استاد نہیں تو کبھی شاگرد غائب۔ اس اسکول کے بعد تعلیم جاری رکھنے کی واحد صورت قریبی شہر ہے جو اتنا بھی قریب نہیں۔

۔بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائن گاؤں کے قریب سے گزرتی ہے۔ کئی سال ہوئے ان تاروں کو تکتے تکتے لیکن بجلی نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔

جب تھل کے اس گاؤں میں ان مسائل پر بات ہو رہی تھی، اسلام آباد میں وفاقی کابینہ ان بجٹ تجاویز کی منظوری کے مراحل سے گزر رہی تھی۔

۔ صنعتی طبقے پر لگنے والا ویٹ ٹیکس مؤخر کر دیا جائے۔

۔ بڑے زمینداروں کے لیے دولت ٹیکس پر مکمل خاموشی اختیار کی جائے۔

۔ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے اور دفاعی اخراجات کو بڑھا دیا جائے۔

۔ بڑی گاڑیوں کے لیے ٹیکس کی شرح کم کی جائے۔

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا تھل کے مکینوں کا اس بجٹ یا ان تجویز سے کوئی تعلق بنتا ہے؟

ارادہ تو میرا یہی تھا کہ اس گاؤں کے لوگوں سے بجٹ پر بحث کی جائے گی۔ لیکن میری نالائقی کہیے لیکن سچی بات یہی ہے کہ میں ایسا کرنا بھول ہی گیا۔ ویسے بھی صحرا کی حقیقتوں کا قومی بجٹ کے مفروضوں سے کیا تعلق۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 11:37 2010-06-11 ,محمد بلال افتخار خان :

    ’ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے
    انجامِ گلستاں کیا ہو گا‘

    حکمرانون اور اس ملک کی اشرافیہ کو اس دن سے ڈرنا چاہیے جس دن ظلم سہنے کی حد ختم ہو جائے گی۔۔۔اور عوام کا ہاتھ ہو گا۔۔اور اشرافیہ کا گریبان۔

    اللہ سب کا اللہ ہے۔۔۔ اس پر کسی کی منوپلی نہیں۔۔۔ جس دن اس نے ڈور کھینچ لی۔۔۔اس دن نہ ملا بچے گا، نہ مخدوم، نہ سرمایہ دار نہ ہی سیاست دان۔

  • 2. 12:21 2010-06-11 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ’صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
    سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم‘

  • 3. 16:01 2010-06-11 , رضا :

    حکمران تو ہر ذمہ داري سے آزاد چلے آۓ ہيں ليکن ميڈيا اور معاشرے کی بے حسی افسوس ناک ہے ۔

  • 4. 16:33 2010-06-11 ,مصد ق خان نيا زی ميانوالی :

    وہ دن بھی بہت قريب ہے جب ملتان کا سيدزادہ يا سندھ کا زرداری اعلان کرے گا کہ اس ملک ميں غريب پيدا کيوں ہوتے ہيں اور يہی دن تبديلی کا نقطۂ آغاز ہوگا۔ جس ملک ميں قبرستان زندہ لوگوں پر حکومت کريں وھاں ايسے مسائل اچنبھے کی بات نہيں۔

  • 5. 14:15 2010-06-15 ,SHAHID H> KHAN :

    اللہ تعالی کے غضب کو آواز نہ دیں تو بہتر ہوگا۔

  • 6. 9:03 2010-06-17 ,جہانزیب اشرف :

    جب تک نچلے طبقہ سے نمائندے منتخب ہو کر ایوان میں نہیں پہنچیں گے، یہ مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے ۔ کیونکہ مل مالکان اور جاگیرداروں کے مسائل پاکستانیوں کے مسائل نہیں ہیں اور پاکستانیوں کے مسائل اشرافیہ کے مسائل نہیں، تو حل کون اور کیوں ڈھونڈے گا ۔

  • 7. 21:49 2010-06-20 ,SYED KAziM ShAH :

    ہم بحثیت قوم کیا کر رہے ہیں؟ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ غریب کو بچائیں۔ ایسے مسائل کے لیے غیرسرکاری تنظیمیں بنائیں جائیں اور نیت رہنماؤں کی تلاش کرنی چاہیے۔

  • 8. 14:43 2010-06-21 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    بجٹ بنانے والوں اور اسے ‘نافذ‘ کرنے والوں کے اذہان میں صحرائے تھل کے گاؤں تو کیا اگر پاکستان کے عام عوام بھی ہوتے تو بجٹ میں عوامی ضروریات تعلیم اور صحت کے لیے مختص رقم کم نہ کی جاتی اور نہ ہی اشیائے خوردونوش و حقہ پانی پر سبسڈی ختم کی جاتی۔ بجٹ کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا کیونکہ سرمایہ داروں نے غریبوں کا بچا کھچا خون نچوڑنے کے لیے ‘بجٹ‘ اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ اگر بجٹ کا تعلق عوام کی فلاح و بہبود و ریلیف و بہتری ہوتا تو پھر اس کی تیاری میں بذریعہ میڈیا، ذرائع ابلاغ اور اشتہارات، عوام سے براہ راست سفارشات ضرور مانگی جاتیں۔ بجٹ کی پیچیدہ زبان و اصطلاحات و اعداد و شمار صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کو بناتے اور ‘نافذ‘ کرتے ہیں یعنی سرمایہ دار، صنعت کار، بینکر، بیوروکریٹ، ٹیکنوکریٹ، معیشت دان اور تاجر ٹولہ۔ غریب آدمی پر تو پہلے ہی سے تھوک کے حساب سے زبانیں سیکھنے، پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کا دباؤ رہتا ہے جیسا کہ سکول میں عربی، فارسی، انگریزی، اردو، ہندی، سنسکرت زبانوں کے الفاظوں کے مجموعے سے مرتب ہونے والی نصابی کتابوں سے واضح نظر آتا ہے۔ تو ان حالات میں غریب بندے کے لیے ایک اور خشک، کثیف، باسی اور بور ‘معیشتی زبان‘ پر توجہ دینا سر درد میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور غالبآ یہی وجہ ہے کہ ہر بجٹ پر عوام اپنا ردعمل دینے پر پس و پشت سے کام لیتے ہیں۔ دور کیوں جائیں بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پچاس فیصد تنخواہیں بڑھانے کی بات ہی کو لیا جائے جس سے سرکاری ملازمین کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تنخواہ نہیں بڑھائی گئی بلکہ بنیادی تنخواہ کے نصف ایک ‘ایڈھاک ریلیف الاؤنس‘ سرکاری ملازمین کو دیا گیا ہے۔ اور یہ بات معیشت دانوں کی ہوشیاری، چالاکی، سیاست، ڈنڈی اور سازش کو بخوبی عیاں کرتی ہے کہ تنخواہ بڑھانے کی بجائے ‘ایڈھاک ریلیف الاؤنس‘ دے کر معیشت دانوں نے سرکاری ملازمین کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے ہیں کہ اس سے نہ گریجویٹی میں، نہ سالانہ انکریمنٹ میں اور نہ ہی وقتآ فوقتآ دیئے جانے والے بونس کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر بنیادی تنخواہ میں پچاس فیصد اضافہ کیا جاتا تو ملازمین کو صحیح معنوں میں ریلیف ملتا۔ بجٹ صرف آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کی راہ ہموار کرنے اور ایک مخصوص ٹولے کو نوازنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

  • 9. 4:30 2010-07-16 ,Daniyal Danish :

    امراء کا بجٹ امراء کے لئے

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔