| بلاگز | اگلا بلاگ >>

مردوں والی بات

اسد علی | 2010-08-25 ، 5:22

کئی برس پہلے کراچی میں میں پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج کے اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ سینما میں ایک پنجابی فلم دیکھنے گیا۔ فلم میں ایک جگہ ایک اہم خاندان اپنے ایک فرد کے قتل کا بدلہ لینےکی حکمت عملی پر غور کر رہا تھا۔

اس منظر میں زمین پر بیٹھا ہوا ایک کمزور سا شخص اٹھ کر باریک آواز میں پولیس کے پاس رپورٹ درج کروانے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ چوہدری صاحب کا بھاری جسم غصے سے کانپ جاتا ہے اور وہ چارپائی سے اٹھ کر اپنی گرجدار آواز میں زمین و آسمان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دشمنوں کے پرچے کٹوانا ان کی برادری کی ریت نہیں۔ سینما ہال اس برادری کو لوگوں کی تالیوں سےگونج اٹھتا ہے۔

اب تشدد فلموں نے معاشرے کو دیا یا فلمیں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ شہر ہو یا دیہات تشدد کی صلاحیت رکھنا اور کرنا پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کی نظر میں فخر کی بات ہے۔

کافی دیر بعد لاہور میں رپورٹنگ شروع کی تو ابتدائی چند روز میں ضلع کچہری میں ایک روز موقع دیکھ کر قتل کے ایک مقدمے کے ملزم سے گپ شپ لگائی۔ وہ کچہری میں پیشی کے لیے خاص طور پر تیار ہو کر آئے تھے۔ بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار میں ملبوس وہ نوجوان ہلکے ہلکے کش لگا رہا تھا۔

ان کے خاندان کے مرد و خواتین دسترخوان بچھائے بیٹھے تھے اور خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ وہ ان کی رہائی کا دن بھی نہیں تھا بلکہ ابتدائی پیشی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اس نوجوان لڑکے کے ساتھ آئے ایک شخص نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ 'مردوں' کو پھر یہ سب کچھ تو دیکھنا پڑتا ہے۔

سیشن کورٹ لاہور میں ایک بار ایف آئی اے والوں نے کسی کو ضمانت مسترد ہونے پر عدالت سے باہر گرفتار کرنے کی کوشش کی تو جھگڑا ہو گیا۔ ایف آئی اے کے اہلکاروں کو مارنے میں وہاں سے گزرتے ہوئے ہر دوسرے وکیل نے حصہ لیا۔ معاملہ سیشن جج کی عدالت تک پہنچا جہاں کارروائی کے دوران بھی اہلکاروں کی مار پیٹ جاری رہی۔

اتنے میں ایک سینیئر وکیل صاحب بھی وہاں پہنچ گئے جو بعد میں اہم عہدوں پر منتخب بھی ہوئے۔انہوں نے سوالیہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا تو کسی جونیئر وکیل نے کہا کہ ان اہلکاروں نے وکیل صاحب سے بدتمیزی کی ہے۔ 'وکیل صاحب سے بدتمیزی، تو پھر یہ ابھی تک زندہ کیوں ہیں' ان کا برجستہ جواب تھا۔

لاہور میں سکول کے زمانے میں گھر کے پاس سٹور سے کچھ خریدنے گیا تو وہاں ایک صاحب دکان والے ان 'گیموں' کے بارے میں بتا رہے تھے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ 'گیموں' سے مراد وہ تشدد کے وہ طریقے تھے جو انہوں نے مختلف موقعوں پر اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیے۔

المختصر یہ کہ اس طرح کے کئی آنکھوں دیکھے اور سنےہوئے واقعات یاد کر کے سیالکوٹ کا واقعہ اپنی تمام تر سفاکی کے باوجود انتہائی غیر متوقع نہیں لگتا۔ ہم میں سے ہر ایک نے ہمیشہ سے خاندانی دشمنیوں کے قصے سنے ہوں گے جن میں دشمنوں کی لاشوں پر بھنگڑے ڈالے گئے، لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دریاؤں میں بہا دیے گئے، ٹکڑے زمین میں دبا دیے گئے، عورتوں کو بازاروں میں ننگا گھمایا گیا وغیر وغیرہ۔

یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سیالکوٹ والا واقعہ بھی کئی لوگوں کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں ہوگا۔ وہ اس پر افسوس کا اظہار تو کریں گے لیکن ساتھ اضافہ بھی کر دیں گے کہ ذات برادری کے جھگڑوں میں اور مردوں کی لڑائی میں یہ سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اس لیے آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اس واقعے کے ملزمان کو سزا کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر بگاڑ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 8:38 2010-08-25 ,atta1976 :

    جی تشدد کو روکنا چاہيۓ

  • 2. 9:18 2010-08-25 ,عبداللہ :

    سمجھ نہیں آ رہا ہم ایک معاشرے کی طور پے کہاں جا رہیں ہیں ؟

  • 3. 9:25 2010-08-25 ,اسماء پيرس :

    عنوان ميں ُمردوں ` کی جگہ ُ مردودوں ` کر ديں

  • 4. 10:16 2010-08-25 ,رضا، دوبئی :

    بہت اچھا لکھا آپ نے اسد علی صاحب۔ واقعی میں یہ چیزیں ہماری سوسائٹی میں رچ بس گئی ہیں، بدلے، انتقام کی آگ ہی انسان کو درندہ بنا دیتی ہے۔لاکھوں واقعات ہیں عوامی سطح پہ ایسے، لیکن سب کسی کو معلوم نہیں۔حال تو یہ ہے کہ ذاتی دشمنی تو دور، لوگ ٹی-وی پہ لگے ہوئے میچ پہ ہی رنجش بنا کر ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔پتہ نہیں ہم لوگوں میں کہاں سے آگیا یہ سب۔ اصل چیز لوگوں کو شعور دینا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ برا ہوا ہے تو اس کی سزا ظالم کو ملے گی، خود سے بدلہ لینے کی روائت ختم کر دینا ایک بہت بڑی بات ہو گی۔ لیکن اس کے لئے انصاف کرنے والے اداروں کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ تا کہ لوگو کا اعتماد قائم ہو۔

  • 5. 10:49 2010-08-25 ,فرید محمود :

    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

  • 6. 11:17 2010-08-25 ,علی گل،سڈنی :

    آپ کی باتيں بالکل درست ہيں۔ہمارے معاشرے ميں ايک ايسا طبقہ پايا جاتا ہے جس کا ذہنی ليول ايک نارمل انسان کے ذہنی ليول سے بہت نيچے ہے اور شيخی مارنا اور گھٹيا گفتگو کو فن کے طور پر ليتے ہيں۔ اگر آپ کوئی سٹيج ڈرامہ ہی ديکھ ليں تو اس ميں انتہائی گھٹيا درجے کی جگتيں سن کر اسی ذہن کے لوگ ہنستے اور انجوائے کرتے ہيں جبکہ اگر آپ ذرا مہذب ہيں تو يقينا” رونے کا مقام ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جارہا ہے۔اس طرح کی جگتوں کا استعمال ذرا پرديس ميں کرکے ديکھيں غير ملکی ہميں پاگل کہيں گے۔ اس کے علاوہ موسيقی ميں بھی آپ نے جگا جميا تے ملن ودھاياں سنا ہوگا اور جٹ کچہری آيا اور داستان دلا بھٹی وغيرہ۔ ملک ميں گورنمنٹ کے ادارے اور قوانين عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہيں اور قانون پيسے سے خريدا جاسکتا ہے اور ايک مستند قانون بنانے والی گورنمنٹ کبھی نصيب ہی نہيں ہوئی تو پرانی روايات کو عام آدمی کے ذہن سے کون نکالے گا۔ايک تو تعليم کی کمی دوسرا تعليم يافتہ بھی زيادہ تر رٹہ لگا کر بنتے ہيں تيسرا نصاب ميں بھی دشمنوں کی کہانياں حتی کہ سائنس کی ايجادات کو پرانے مسلمان حکيموں سے جوڑ کر سائنس کی ترقی کو اپنے نام کرتے ہيں جس ميں مسلم اور غيرمسلم کے ساتھ تعصب کا درس ملتا ہے۔دنيا جس انداز سے آگے بڑھ کر اپنا رہن سہن تبديل کر رہی ہے اس کو داد دينے کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے ہيں اور ساتھ ساتھ ان کی ايجادات کا فئدہ بھی ليتے ہيں۔قتل و غارت کے ايسے واقعات کو روکنے کے ليۓ اب پوری قوم کو جاگنا ہوگا اور حکومت کو بھی نئی پاليسياں بنانا پڑيں گيں۔شکريہ

  • 7. 11:19 2010-08-25 ,ashfaq laghari :

    اسد بھائی یہاں جنسی مردانگی کا حشر تو آپ دیواروں پر وال چاکنگ جو حکیموں نے کروائی ہے اس سے دیکھ سکتے ہیں کہ کتنی کمزور ہے۔ باقی غیرت اور مردانگی کو اس چیز سے جوڑنا کہ کون سب سے زیادہ تیز مکا مر سکتا ہے یہ قبائیلی اور عربوں کے دور کی روایت ہے۔

  • 8. 11:19 2010-08-25 ,لطف الا سلام :

    سچ کہا- اور جہاں مولوی صاحبان بھی سر عام سنگساری کی سزا نہ ہونے کے نوحے کرتے ہوں ان قوموں میں تو ایسے ظلم ہونے اچنبے کی بات نہیں۔

  • 9. 11:27 2010-08-25 ,mushtaq khawas pur dubai :

    جی اسد صاحب میںآپ کی بات سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ ہمارے معاشرے میں کسی کو جان سے مار دینا یا قتل کر دینا ایک معمولی سی بات ہے اور پھر اس کو ہم فخر سے بیان کرتے ہیں کہ میرے چاچا، مامات بھائی یا پھر کسی رشتہ دار نے فلانے دن فلانے آدمی کو مارا تھا۔ لیکن یہ سب تو ممانہ جالہیت میں ہوا کرتا تھا۔ ہم تو اکیسویں صدی کے با شعور لوگ ہیں اور مسلمان بھی۔ پھر یہ کیسے ہوا۔

  • 10. 11:43 2010-08-25 ,SABIR HUSSAIN :


    افسوس کی بات ہے کہ ایک مسلمان ملک میں اس طرح ہو رہا ہے۔

  • 11. 13:45 2010-08-25 ,Nadeem Ahmed :

    اسد صاحب- تين باتيں ايسی ہوئيں کہ جن کی وجہ سے پوری قوم بھڑک اٹھي- پہلی يہ کہ اس واقعہ کی نہايت اعلٰی کوالٹی کی وڈيو اور لوگوں کا اسے بار بار ديکھنا، دوسری ان لڑکوں کي معصوميت کی دہائی اور تيسری رمضان، روزہ، حفظ قرآن يعنی مزہب کا پورا استعمال- ورنہ اس پہلے، اس سے بھی زيادہ بے دردی سے مارنے کے سينکڑوں، ہزاروں واقعات ہوچکے ہيں، اور کسی کے کان پر جون تک نہيں رينگي- اب بھی چند دن اور تماشا ہوگا اور لوگ سب بھول جائيں گے-

  • 12. 14:31 2010-08-25 ,Muhammad Aamir :

    میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔ کیونکہ یہ تشدد اب ہماری شناخت بن گیا ہے۔ ہم ہر چیز کو مردانگی سمجھتے ہیں۔ جس میں اگلے کا مالی یا جانی نقصان ہوتا ہے۔ میں کبھی سوچتا ہوں کہ وہ کیا راستہ یا ترکیب ہو سکتی تھی جس کی بنا پر آج مغرب ایک پر امن معاشرہ بن گیا ہے۔ کاش ہم پاکستان میں بھی صبر اور امن کی روایت قائم کر سکیں۔ آمین

  • 13. 14:45 2010-08-25 ,Tahir :

    قرآن پاک میں ہے کہ ’اور ہم اس کے سوا بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے کہ ان کے بسنے والے ظالم ہوچکے ہوں۔‘سورۃ القصص۔

    صاف ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں پوری ہو گئی ہیں۔ نا ہم اس رسول کو مانتے ہیں نا ہی ہم امن پسند ہیں بلکہ ظلم میں ہماری مثال نہیں ملتی ۔ تو یہی وجہ ہے کہ عذاب بھی آریےہیں اگر کوئی کہتا ہے کہ عذاب نہیں ہے تو دیکھے کہ اس ملک کی گورنمنٹ بھی عذاب ہے اور عوام بھی کسی عذاب سے کم نہں، پھر سیلاب بھی ایک بہت بڑا عذاب ہے دہشت گردی خود سے عذاب ہے غرض یہ کہ خدا نے اس قوم پر ہر طرح کا عذاب نازل کر دیا ہے۔

    کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطہ زمیں پر ۔۔۔ وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں۔

  • 14. 14:56 2010-08-25 ,اے کے ملک :

    بے حس، سنگدل، توڑ پھوڑ، لوٹ مار، قتل و غارت ميں ہماری ثانی شايد ہی کوئی قوم ھو گی ، جہالت اور ظلم کی حديں ھم پار کر چکے اور بہتری کا کوی نشان نہیں ہیں,یہاں انسان درندوں سے بھی بد ترہے۔

  • 15. 15:21 2010-08-25 ,naseem uddin :

    ہمیں عورتوں سے درخواست کرنی ہو گی کہ وہ مزید ’مرد نہ پیدا کریں اور صرف بچے پیدا کریں۔ اور پھر ان بچوں و اچھا انسان بنانے کی کوشش کریں۔

  • 16. 15:50 2010-08-25 ,شاہد منیر :

    ہماری قوم میں بلا شبہ تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔ہم نام کے مسلمان ہیں۔ یا پھر اسلام کو ہم نے مسجد اور مصلحے تک رکھا ہے۔ اپنے روزمرہ کے قول و فعل میں ہم اسلام اور انساننیت کو خاطر میں لانا پسند نہیں کرتے۔ اس قسم کے واقعات کا طالبان یا ملک کے موجودہ حالات سے کوی تعلق نہِں ہے۔ یہ ہماری سر زمیں کی ریت رہے ہیں۔ اور ہم نے صدیوں میں مہذب دنیا سے کچھ سبق نہیں حاصل کیا۔فرق اتنا یے کہ مہذب دنیا میں اگر میں ذرا سی بھی ٹھوکر کھاؤں توآس پاس موجود ہر شخص خیریت معلوم کرنے یا مدد کرنےآگے بڑھتا ہے۔ اور پاکستان میں جان سے جا رہا ہو اور مجمع تماشا دیکھ رہا ہوتا ہے۔

  • 17. 16:26 2010-08-25 ,Khan :

    اسلام اور صرف اسلام ہی ذريعے نجات ہے -

  • 18. 16:28 2010-08-25 ,Dr Alfred Charles :

    اسد صاحب!اس بات ميں کوئی شک نہيں کہ وطن عزيز ميں رواداری ،برداشت کا کوئی تصور ہی نہيں رہا۔ بڑھتا ہوا تشدد وحشت و بربريت کی جانب جارہا ہے۔سفاکيت کا دور دورہ ہے۔ انسانيت کی کھلے عام تذليل کی جارہی ہے۔ايک دوسرے کے گلے کاٹے جارہے ہيں۔بم دھماکوں ميں نظرياتی اختلافات کی بنا پر چيتھڑے اڑائے جارہے ہيں۔يہ سب کيا ہے؟قيامت کی نشانياں نہيں تو اور کيا ہے؟اس کلچر کو پروان چڑھانے والوں کا کڑااحتساب کرنا چاہيے۔ايک دن ميں درجنوں معصوم و بے گناہوں کا ناحق خون بہايا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہيں۔جب تک سپريم کورٹ نے ازخود نوٹس نہ ليا تو تب تک کسی کے کان پر جوں تک نہ رينگي۔اب سب سيالکوٹ کارخ کئيے ہوئے ہيں۔اس سال يوم آزادی پر بلوچستان ميں دہشت گردی ميں جان گنوانے والوں کو تو کوئی بھی نہيں پوچھ رہا۔ہمارے مجموعی بے حسی پر مبنی رويہ پر افسوس صد افسوس

  • 19. 18:09 2010-08-25 ,MATLOOB AHMED, UK :

    ملک میں جہاں عوام کا احساس محرومی بڑھ رہا ہے وہاں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لوگوں کا اعتمادبھی اٹھ چکا ہے۔ اور یہی ملک کی تباہی و بربادی کی ابتدا بھی۔ جناب والا! جب کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو وہ انصاف کے حصول کے لئے تھانے/ کچہری کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سےسوائے پیسے کی تباہی و بربادی کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا کیونکہ ہمارا بوسیدہ نظام ملزموں کو سزا نہیں دے سکتا اور بااثر لوگ ان غنڈوں اور بدمعاشوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انھیں رہا کروا کےتحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تو ایسی صورت حال میں جناب عالی قانون کو ہاتھ میں لینے اور جیل جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر انصاف نہیں ملتا تو پھر ایک ہی حل ہے مارو یا مر جاؤ۔ امن و امن قائم رکھنا ہے تو ملک میں عدالتی نظام کا قبلہ درست کرنا ہو گا۔ شکریہ

  • 20. 18:12 2010-08-25 ,رضا :

    آج کے پاکستان ميں يہ بگاڑ فقط انفرادی کوشش سے دور ہو گا - ميں اپنا محاسبہ کروں ، پھر گھر کي خبر لوں اور خود سے بہتر اولاد چھوڑ کر جاؤں - باقي خود فريبياں ہيں - اور کوئي حل نہيں ان مسئلوں کا -

  • 21. 18:28 2010-08-25 ,طالوت :

    سچ مچ یہ ہمارا مزاج ہے۔ ایک تو مزاج دوسرا قانون نافذ کرنے والے ادراوں کی کمزوری، عدم عدل، رشوت خوری اور غفلت وغیرہ۔ ایسے میں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ مثلا کراچی میں ڈاکوؤں کو زندہ جلانے کا واقع دیکھ لیجئے کوئی ایکشن نہیں ہزاروں کو تحریک ملی ہو گی۔ سیالکوٹ میں بھی ڈاکو قرار دے کر یہ سب کیا گیا وہ تو یہ بربریت منظر عام پر آ گئی وگرنہ کیسا قانون کہاں کا انصاف ۔
    وسلام

  • 22. 23:15 2010-08-25 ,Abbas Khan :

    اسد بھائي- ايک باتت سمجھ ميں نہيں آئی کہ سب تماشائيوں کو بے حس کيوں کہہ رہے ہيں، جيسے يہ لوگ ادھر ہوتے تو ڈنڈے مارنے کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوچار طمانچے رسيد کر ديتے- دور بيٹھ کر ڈھينگيں مارنا بہت آسان ہے- اگر اتنے ہی بہادر ہيں تو وزيرستان جائيں، وہاں ايسے کام روز ہوتے ہيں اور وہاں بھی لوگ خاموشی سے تماشا ديکھتے ہيں- مگر آپ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان سے چھری چھين لينا- لگتا ہے يہ لوگ مريخ پر بيٹھے پاکستان کو ديکھ رہے ہيں يا مزاق کر رہے ہيں- کيونکہ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اسے اس معاشرے ميں کيسے رہنا ہے- ميں نے بھی ايک بار اپنے محلے کي لڑکی کو چھيڑنے والے لڑکے کو روکا تھا- لڑکی کے باپ نے شکريہ ادا کرنے کی بجائے الزام لگا ديا کہ ہماری بچی کو بدنام کر ديا ہے- والد صاحب سے جو ڈنڈے کھائے وہ الگ-

  • 23. 0:28 2010-08-26 ,کاشف ورک :

    صم بکم امی فھم لا يرجعون

  • 24. 5:25 2010-08-26 ,muhammad manaf :

    میرے خیال میں یہ واقعہ افسوسناک ہے لیکن کیا ایسے واقعات دوسرے ممالک میں نہیں ہوتے۔ ضرور ہوتے ہوں گے لیکن انہیں دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن سیالکوٹ کے واقعے سے پوری قوم پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے۔

  • 25. 6:33 2010-08-26 ,Riffat Mehmood :

    در اصل يہ جاہل جسے مردانگی کہتے ہيں وہ ظلم اور بربريت ہے- ايسے واقعات ميں ظالموں کا ايک غول کمزوروں پر اپنی دھونس اور گرفت قائم رکھنے کے لئے ايسے گھناؤنے حربے استعمال کرتا ہے- ايسی بدمعاشيوں کی پشت پناہی بھی بڑے پيمانے پر ہوتی ہے- جس علاقے ميں يہ واقعہ ہوا ہے ام اين اے اور ايم پی اے علاقائی کرتا دھرتا کيا اقدام کرتے رہے- ميرا ذاتی خيال ہے کہ تمام وہ لوگ جو اس تشدد ميں شامل تھے کسی رعايت کے مستحق نہيں۔ ان کی سيدھی سزا وہی ہے جو ان معصوموں کو دی - پوليس کو غفلت اور اعانت جرم کے الزام ميں معطلی اور قيد بامشقت -
    کہاں ہيں پنجاب کے حکمران فوری انصاف دلوائيں -ملزمان کتنے بھی بااثر ہوں عبرت کا نشان بنائيں انہيں ايسے انجام سے دوچار کريں کہ آئندہ کسی کی ہمت نہ ہو-

  • 26. 10:19 2010-08-26 ,Altaf ali quresi :

    آپ نے جو بھی کہا ہے بالکل ٹھیک ہے۔ جس معاشرے میں تشدد کو یہ مقام حاصل ہو وہاں پر کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن میں ایک بات کہاں گا کہ ان سب خیالات کو پروان چڑھانے میں مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کا بھی بہت ہی بڑا کردار رہا ہے اور ابھی بھی ہے۔

  • 27. 15:52 2010-08-26 ,MALIK TIKKA KHAN, UK :

    ہمارا نام نہاد عدالتی نظام غریب کش ہے۔ جب قانون ظالم کو اپنی گرفت میں لانے سے قاصر ہے تو مظلوم کے پاس اس کے سوا چارہ ہی کیا کہ وہ بندوق اٹھائے اور ظالم سے خود حساب برابر کردے۔ میں بالکل اس حق میں ہوں اور بے شمار ایسے واقعات دیکھے ہیں جن میں غریب پر ریاست کی سرپرستی میں ظلم ڈھایا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہرپاکستانی اپنا دفاع کرنا سیکھے اور اس ظلم وجبرکے دور میں ظالم بن کے جیے۔ $$ شرافت اور پاکستان سپیلنگ نہیں ملتے$$۔ اور جونہی کوئی وڈیرا، جاگیردار،سرمایہ دار،پولیس آفیسر، قبضہ مافیا کا کوئی بدمعاش یا ڈاکو زیادتی کرے اسکو پھڑکا دے۔ مردانگی یہی ہے۔ پھر جو ہوگا وہ دیکھا جائگا۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔