| بلاگز | اگلا بلاگ >>

شیرا اور شیرو

اصناف:

عارف شمیم | 2010-09-24 ،16:14

یہ کہانی دو جانوروں کی ہے۔ ایک اپنی وفاداری کی وجہ سے مشہور ہے اور دوسرا اپنی طاقت کی وجہ سے۔

دونوں بہت آرام سے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ نہ جانے دونوں کو کیا سوجھی کہ ایسے کام کر ڈالے جو انہیں نہیں کرنے چاہیئے تھے۔ یا یوں کہیں کہ یہ کام دونوں کو 'شوبہا' نہیں دیتے تھے۔

ایک نے تو یہ دکھانے کے لیے کہ وہ کتنا با اثر ہے پوری دنیا کو گھر مدعو کر لیا۔ لیکن اپنی جلدی میں یہ بھول گیا کہ مہمانوں کے قیام طعام، کھانے پینے کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ بس پھر کیا ہوا جو مہمان بھی آیا ناراض ہی نظر آیا۔ کئی ایک نے تو کم مہمان نوازی کا سن کر آنے سے ہی انکار کر دیا۔ شیرا کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا لوگ ہیں جو میری طاقت اور دبدبے میں آ ہی نہیں رہے۔ حالانکہ اس نے گھر کے پاس ہی کے لوگوں کو اتنا ڈرایا ہوا تھا کہ روز کوئی نہ کوئی اس کے پنجے کا شکار ہو کر دم توڑ رہا تھا۔ 

شیرا نے بہت کوشش کی کہ مہمانوں کو سمجھائے کہ میں سب کچھ کر سکتا ہوں 'آپ گھر آئیے تو سہی'، لیکن مہمان بھی بضد۔ 'پہلے گھر صاف کرو، رہنے کا درست انتظام کرو، کھانے پینے کا بہتر بندوبست کرو تب ہی آئیں گے۔ شیرا بیچارا کمزوری میں شیر سے بلی بنا نظر آ رہا تھا۔

اب شیرو کی سنیئے۔ اس نے تو الٹا ہی کام کر دیا۔ آخر نام شیر ہو تو شیروں والے ہی کام کرنے چاہئیں نہ۔ یہ کیا کہ اتنے گر گئے کہ چھوٹی ذات کے لوگوں کہ ہاتھ سے کھانا قبول کر لیا۔ سنا ہے کہ شیر تو صرف شکار کر کے کھانا کھاتے ہیں۔ نہ کہ کسی دلت عورت کے ہاتھ سے روٹی۔ لیکن شیرو نے ایسا ہی کیا جو اس کے راجپوت مالک سے برداشت نہیں ہوا اور اس نے سزا کے طور پر شیرو کو نچلی ذات کے لوگوں کے گاؤں میں کھمبے سے باندھ دیا۔ آخر مالک پکا راجپوت نکلا۔ راجپوت کا مطلب بھی تو بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے نہ۔ بادشاہ کے ہاں گنگو تیلی کی کیا مجال کہ اس کے کسی پالتو کو کھانا کھلائے۔ لیکن شیرو کو یہ بات سمجھ نہیں آئی یا پھر شیرو کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آ گئی تھی اور وہ بھی اپنے نام کی طرح بہادر ہی نکلا۔

اب شیرا بلی بنا ہوا ہے اور مہمانوں سے نظریں چرا رہا ہے جبکہ دوسری طرف شیرو گو کہ کھمبے سے بندھا ہوا ہے لیکن اس کا سینا فخرسے پھولا ہوا ہے۔ ساری دنیا اسی کی بات کر رہی ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:19 2010-09-24 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘کچھ اور بھی دے گیا لطف
    انداز تمہاری گفتگو کا‘

  • 2. 18:47 2010-09-24 ,فاروق :

    خوب لکھا ہے۔.چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہیئے۔

  • 3. 6:21 2010-09-25 ,رضا :

    معذرت کے ساتھ عرض ہےشيشے کے گھروں ميں رہ کر پتھر نہيں مارا کرتے۔ ہم خود کون سي خوبيوں کے مالک ہيں۔ اپنے ہاں امن عامہ ، معيشت ، حصول انصاف ، کھيل ، تعليم يا کوئی اور چيز گنوا ديجيۓ جو صحيح چل رہی ہو۔ وہ لاکھ برے سہي کم از کم عزت کی روٹی تو کھاتے ہيں۔ ہم تو بھيک بنا دو ماہ نہيں نکال سکتے۔ وافر وسائل کے باوجود ان کے حکمران سادگی کا نمونہ ہيں جبکہ ہمارے دبئی اور جدہ پلٹ حکمران قرض اور امدادی رقوم پر عرب بادشاہوں کي نقالي کرتے نظر آتے ہيں۔ ہم کسی کو کيا کہنے لائق ہيں؟

  • 4. 12:01 2010-09-25 ,Abdul Basit :

    امن کی آشا کے گیت گانے والوں کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے ۔۔۔!

  • 5. 12:22 2010-09-25 ,Dr Alfred Charles :

    شميم صاحب! آپ نے کمال مہارت سے انڈيا ميں رونما ہونے دو واقعات کی جانب اشارہ کيا ہے۔کامن ويلتھ گيمز کے ليے جو مضحکہ خيز انتظامات اور ايک دلت عورت کی جانب سے راجپوتوں کے کتے کو روٹی کا ٹکرا ڈالنے پر ايک نيا تنازعہ کھڑا ہوگيا ہے۔ آپ کے شير اور شيروکے کردار انہی کہانيوں سے ماخوذ ہيں۔سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے ذہن کب بدليں گے؟

  • 6. 14:03 2010-09-25 ,تنوير عارف :

    بھائی صاحب بجائے انڈيا پہ طنز کرنے سے پہلے اپنی حالت بہترکر ليں۔

  • 7. 15:13 2010-09-25 ,Bashir Japani :

    عارف شمیم صاحب، اس قدر زبردست بلاگ میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ بہت خوب۔ شاید ذات پات پر یقین رکھنے والے کتے سے ہی کچہ سیکھ لیں۔

  • 8. 22:35 2010-09-25 ,Abdullah ch :

    شائننگ انڈیا کی حقیقت یہی ہے

  • 9. 7:47 2010-09-26 ,hammad ahmed :

    کیا بات ہے شمیم صاحب۔ آپ کے قلم نے جو لکھا ہے اس میں سب کچھ ہے۔ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ کی اس تحریر کے بعد شائد جمہوریت کے نام نہاد دعویدار کو کچھ عقل آ جائے۔

  • 10. 12:03 2010-09-26 ,نغمہ سحرِ :

    سلامتی کونسل کا پرميننٹ ممبر بنے کی آرزو۔ اگر يہ خواہش پوری ہوگئی تو يو اين او کا آٹھواں عجوبہ ہوگا ابھی تو کامن ويلتھ والے پچتارہے ہيں اقوام متحدہ کو پچتاوے کا بھي موقع نہيں ملے گا۔اللہ نے ہميں نعمت عطا کی ہم ہيں کہ شکر ہی نہيں کرتے پروس کا حال ديکھو کتنی گھٹن ہے جہاں انساں حيوانوں سے بدترین زندگی گزانے پر مجبور ہيں۔عارف شميم صاحب کی مہارت ہے کہ خوبصورت لفظوں ميں ان کا اصل چہرہ دنيا کو ديکھايا۔ بہت منفرد اور خوبصورت تحرير۔

  • 11. 19:48 2010-09-26 ,MATLOOB AHMED MALIK, KOTLI J&K :

    عارف شمیم صاحب! بھائی آپ نے تو کمال مہارت سے بلاگ لکھا ہے۔ جو اپنی مثال آپ ہے۔ کسی کا نام لئے بغیر اشاروں سے رازوں سے پردہ ہٹانا کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں۔ ویسے اگر سچ پوچھیں تو شیرا اور شیرو دونوں بہت ڈھیٹ ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر ایک ہیں۔ شاید کبھی انکو بھی اللہ تعالٰی ہدایت دے دیں۔ کامن ویلتھ گیمز جناب دیکھیں نا کہ آج کھیل گاوں سے ناگ دیوتا بھی نمودار ہو گے۔ ویسے اللہ رحم کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • 12. 8:32 2010-09-30 ,Junaid Zaheer :

    واہ جی واہ

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔